نوٹ:ریاض ہاشمی مرحوم دی یاد اچ سرائیکی لوک سانجھ دی طرفوں اے کٹھ ڈوہزار اکوی اچ تھیا ہا۔۔۔وزڈم ساگا دے تھورے نال
محمود نظامی دانشوری ، فوک وزڈم اور سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ کی کسی کتابی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ آپ اپنی آسانی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کا تھا۔اوریجنل نیشنل عوامی پارٹی سے بھی کچھ عرصے وابستہ رہا۔مگر وہ شائد ایک فری تھنکر تھا جس نے زندگی کو گھول کر پی لیا تھا۔وہ فری تھنکر جو کسی بھی ایسے نظریے کو دیوار پر مار سکتا تھا جس سے خلق دشمنی کی بو آتی ہو۔بھلے وہ نظریہ رائٹ کے لباس میں آئے یا لیفٹ کا بھیس بدل کر آئے یا پھر لبرل کی قبا پہن لے یا مذہبی دستار میں ہو۔محمود نظامی کے مول تول کے اپنے پیمانے تھے۔ اس کے لیے زندگی مسلسل دھارے پر لکھی کھلی کتاب تھی۔لہٰذا اس نے اتنا کچھ پڑھنے اور دیکھنے کے باوجود اپنی یادداشتیں جلد بند نہیں کیں اور کبھی دقیق مضامین لکھنے کے بارے میں نہیں سوچا۔مگر جنوبی پنجاب سمیت طول و عرض کی دو تین نسلیں اس سے کچھ نہ کچھ لے کر اٹھیں۔ویسے کچھ لکھنا ضروری بھی نہیں۔تونسہ کی شناخت حضرت شاہ سلیمان بھی تو صرف بات ہی کرتے تھے۔وتایو فقیر نے آخر کتنے پمفلٹ لکھے ؟ تونسہ ویسے بھی استاد ساز زمین ہے۔اس کے ہزاروں بیٹے بلوچستان سمیت ملک کے طول و عرض میں تعلیم دیتے آئے ہیں اور محمود نظامی بھی اسی روایت کا امین تھا۔یوں بھی وہ قبیلہ اب ناپید ہوتا جا رہا ہے جو محض علمی پروٹین سے لبریز گفتگو ، کہانی کاری ، حکایات، لطائف اور بذلہ سنجی کے نصاب کے ذریعے نسل سازی کرتا تھا اور شعوری علم کو لاشعوری قیف لگا کر دل و دماغ پر انڈیلنے پر قادر تھا۔محمود نظامی کو یہ ہنر آتا تھا کہ وہ کسی بھی تھڑے ، فٹ پاتھ ، چائے خانے یا ڈرائنگ روم کو ایک جیتی جاگتی درس گاہ میں بدل سکتا تھا۔پیدل چلنے کا شوقین تھا۔ گرمیوں میں زیادہ خوش رہتا تھا۔ہمیشہ اتنے پیسوں کا فکر مند پایا جن سے آج کا دن گذر جائے۔جو اس کے رابطے تھے ( اور سیکڑوں تھے ) ان کو اپنے لیے استعمال کرنے کو حقیر سمجھتا تھا۔جتنی محنت اس نے خود کو ایک عام آدمی کی اوقات میں رکھنے کے لیے کی اس سے آدھی میں وہ دنیا بھی کما سکتا تھا۔مگر اکثر کہتا کہ خوشی اور اطمینان اندر ہوتا ہے،جو اسے باہر تلاشتے ہیں وہ بس تلاشتے رہ جاتے ہیں۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
محبوب تابش دی درگھی نظم، پاݨی ست کھوئیں دا ||سعدیہ شکیل انجم لاشاری
راجدھانی دی کہانی:پی ٹی آئی دے کتنے دھڑےتے کیڑھا عمران خان کو جیل توں باہر نی آون ڈیندا؟