عاشق بزدار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روھی،تھل،دمان پر مشتمل سرائیکی خطہ اپنے لینڈ سکیپ میں بیالوجیکل ماحول کی خوبصورتی اور تمام تر قدرتی جمال وآر جنائیش کا حامل ھے ۔ اسکی مٹی،ریت،پہاڑ و میدان میں فطرت نے بیل بوٹے کی با کمال گلکاری کی ھے ۔ روھی میں لئی ، لانڑیں پھوگ ، پھلی ، کھپ ، کھار ،کھیو ، بوئی ،ڈودھک ، سیٹو ، سنڑھ ، دھا منڑ ،کترنڑ ،کرینہہ ، کریٹے ،جال ، جنڈ کے باغ لگائے اور ان میں پیلھوں ، ڈیلھے ، شکلو، شنگری کا رس بھر دیا ۔ جن کے ،مٹھاس سے انسان ، جانور تتلیاں ، جگنو ، پنکھ پکھیرو کام دہن کی لذت حاصل کرتے ہیں ۔ کبھی یہ دھرتی اپنے حس و جمال کے باعث بہشت کا منظر پیش کرتی ھے ۔ اس کے جس حصے کو دیکھیں جنت نظیر ھے اور شوق نظارگی کے لئے آنکھوں میں حسن بھرنے کا تقاضہ کرتی ھے ۔ سرائیکی دھرتی میں روھی کا وسبہ صدیوں سے کریہہ میں جنم لینے والی ویرانی اور پسماندگی کے باوجود نظر نواز نظاروں کی دھرتی ھے جس کے ذرےذرے میں حسن حقیقی کی جھلک نظر آتی ھے ۔ اس کے ٹوبھے ، تاڈے ، شھر ،ملہیریں ،گوپے جھوکیں زندگی کے عذاب ثواب کی امین بن کر روھی سے لے کر تھر کی کریہہ کا شکار تہذیبیں اپنی غم کتھا سناتی ہیں ۔ روھی پر سے اپنائیت کی چھاؤں کب کی ڈھل چکی اب تو اس پر بیگانگی کے گہرے سائے چھا گئے ہیں مگر روھی صدیوں سے تمام تر افتاد کے باوجود اپنے ثقافتی ورثے کو سنبھالے ھوئے ھے ۔ اسکی دستکاری ھو یا سر سبھا میں اس کا اپنا انگ ڈھنگ ھے جو پانچ ھزار سالہ قدیم دریائے ہاکڑہ کی چولستانی تہذیب کی نمائندگی کرتا ھے ۔ موسیقی کی دنیا میں کافی گائیکی کا منفرد سلیقہ اور مخصوص انگ ھے ۔ کافی زیادہ تر ہار مونیم سارنگی طبلہ اور ڈھولک کی سنگت میں مگر روھی میں زیادہ تر کافی تنبورہ اور چپڑی کی سنگت میں گا ئی جاتی ھے ۔ روھی کی سادگی میں کافی گائیکی کا سادہ ا نگ بڑا دلکش اور بھلا لگتا ھے ۔ روھی میں کافی گائیکی کی روایت بہت مضبوط ھے جسے زیادہ تر ہندو فنکاروں نے سنبھا لا ھوا ھے جن کی تعداد بیسیوں میں ھے ۔ تمام ہندو فنکار کافی گانے میں مہارت رکھتے ہیں ۔۔ نواں کوٹ کے ٹوبھے کھیر سر کے جانی رام کی حصرت خو ا جہ فرید کے ساتھ نیازمندی اور دوستی تھی جانی رام کن رس اور لوک دانش کا آدمی تھا ۔ ایک مرتبہ خواجہ صاحب کے مرید نواب بہاول پور صبح صادق خواجہ صاحب سے ملنے کے لئے ملاقات کا وقت لینے ان کے ڈیرے پر قاصد بھیجے تو خواجہ نے ان سے کہا کہ ان کے پاس جانی رام آیا ھوا ھے اس کے جانے پر مل سکیں گے نواب کو خواجہ صاحب کا جواب پہنچا یا گیا تو نواب نے دوبارہ آدمی بھیجے کہ وہ پوچھ کر آئیں کہ جانی رام کب واہ جائے گا تو خواجہ نے کہا کہ میں کون ھوتا ھوں کہ جانی رام سے پوچھوں کہ وہ کب واپس جائے گا ۔ اسی جا نی رام کے بیٹے سدو رام کے گھر فقیرا بھگت کا جنم ھوا ۔ کافی گائیکی کی تربیت آڈو بھگت سینئر سے حاصل کی ۔۔ فقیرے بھگت نے ساری عمر زیادہ تر فرید کی کافیاں گائیں ۔ اسکے ساتھ سچل سرمست ، بےدل ، حمل ، روحل ، شاہ لطیف ،نور شاہ ، شاہ حسین ، بخت فقیر اور اشو لال فقیر کی کافیا ں گائیں ۔ سور داس ، بھگت کبیر اور خواجہ فرید کے بھجن گائے ۔ فقیرے بھگت نے گانے کا منفرد سلیقہ بنایا جس سے وہ سرائیکی اور سندھی وسیب میں خاصی شہرت حاصل کی ۔ اس نے کافی کو اس کے تمامتر حسن کے ساتھ گایا ۔ اس کی کافی گائیکی کے سروں میں سے شنگری شکلو کی مٹھا س کا رس ٹپکتا کترنڑ کی خوشبو اسکے تنبورے کے تاروں پر رقص کرتی اور سننے والوں کے شریر کو نا چنے کا ذوق دان کرتی ۔ وہ جب روھی میں گاتا تو اس کے سر روھی کی ریت کے ذرے ذرے میں سما کر پورے ماحول کو صوفی کے روپ میں ڈھال دیتا اور یوں لگتا کہ جیسے کوئی حال مست صوفی وجد میں ھو ۔ وہ اکیلے میں جب سر شام تنبورہ اور چپڑی ا ٹھا کر کوہیاری ، سیندھڑا ، جوگ ، ڈاکڑیں ، بھیرویں ،تلنگ ، بلاولی ، سورٹھ ،مالکوس ، پہاڑی ، ٹوڑی کوئی بھی راگنی کے سر چھیڑتا تو یوں لگتا کہ پوری روھی اس کے ساتھ چوڑ یاں چھنکا رھی ھے ۔ اسکی آواز کی وسعت اور رسائی اتنی کہ پورا چولستان گوش بر آواز لکتا ۔ اس کے سر چان کے رتھ پر بیٹھ کر تھر راجستان اور سرائیکستان کی یاترا کرتے ۔ سورداس کی معروف لوری جو کنور بھگت نے گا ئی تھی اسے کمال مہارت سے گا کر کنور۔ بھگت اور خود کو امر کردیا ۔ شاہ لطیف کے عرس کی محفل میں فقیرے بھگت نے لوری گائی تو وہاں موجود بے نظیر بھٹو پھوٹ کے رو ئی۔ فقیر منش کنور بھگت کو اس لئے قتل کیا گیا تھا کہ وہ فقیر گلی بازار میں لوگوں کی فرمائیش پر کھڑے کھڑے گانا شروع کر دیا کرتا تھا ۔ اس فقیر سے ہندو اور مسلمان محبت کرتے تھے اس جرم میں اسے قتل کیا گیا تھا ۔ قتل کرنے والوں کا نام گمنامی میں چلا گیا مگر قتل ھونے والا فقیر کنور بھگت سندھ اور سرائیکستان میں ژندہ ھے ۔ فقیرے بھگت کی آواز پر روھی کے معاشرتی ماحول روہیلے مزاج اور لینڈ سکیپ کی چھاپ تھی ۔
اس کی آواز روھی واس انسانوں کے ساتھ پکھی پرندوں کی پسند میں شامل تھی ۔ جب وہ گانا گاتا تو روھی میں درختوں پر شورکرتے پکھڑو چپ سادھ لیتے ۔ اس کی آواز ٹوبھوں کے پانیوں کو چھو کر پورے ماحول کو اپنے سر کی چاشی میں غسل دیتی محسوس ھوتی روھی پر اس کے پر سوز سروں کی برکھا برستی ۔ اب اس کی سادہ کافی گائیکی تھل دمان کو بھی اپنے سحر میں لے رھی تھی کہ اجل نے اس کی زندگی کے اکتا ر ے کی تار توڑ ڈالی اور چپڑی کے گھنگرو بے صدا کر دئے مگر اس کے فنکار بیٹے موہن بھگت نے تنبورے کے تار اور چپڑی کے گھنگرو جوڑ کر بے صدا ھوتی ھوئی روھی کو پھر سے کافی کی سادہ سریلی اور پر سوز گائیکی کرنے کا ماحول دان کردیا ۔۔۔ روھی میں بسنے والے سب فنکار با کمال ان کے لئیے ھزاروں محبتیں ۔۔ میری اس لکھت پر اختلاف ھوسکتا ھے کہ یہاں نام ور کافی گائیک تھے جو گزر گئے ان کی عظمت کا اعتراف ھے وہ باکمال گائیک ھوکر گزرے ہیں انہیں سلام ۔۔ فقیرے بھگت کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں وہ راگ دان اور کافی گانے میں مہان تھے ۔ فقیرا بھگت یا روھی کے فنکاروں کی سادہ گائیکی کی اپنی چس رس ھے فقیرا بھگت کی پرسوز آواز کا اعجاز ھے کہ کافی سالوں سے روھی میں ان کی برسی منائی جارھی ھے اور پورے وسیب میں سے لوگ اس میں شریک ھوتے ہیں ۔۔ یہ کشش اس کی پر سوز آواز اور کافی گانے کے دیسی عوامی انگ کا اعجاز ھے ۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر