دسمبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امجد خان نیازی کے ساتھ ظلم کیوں؟۔۔۔||رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع لیہ سے تعلق ہے ، وہ مختلف موضوعات پر قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے لوگوں پر ایم این اے بننے کا جنون سوار تھا تو اب سینیٹر بننے کے لیے ایک دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ جلدہی بھاؤ لگنا بھی شروع ہو جائے گا۔ کبھی سینیٹ کا معیار بہت ہائی تھا۔ صرف قابل لوگ سینیٹ میں بھیجے جاتے تھے۔ پھر سینیٹر بننے کا معیار بُری طرح نیچے گرا اور سینیٹ کے دروازے قابل بندوں کے بجائے خوشامدیوں یا ارب پتیوں کے لیے کھل چکے تھے۔ یوں سینیٹ کا الیکشن بھی ایک کاروبار بن گیا۔ اب خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے سینیٹر بننا بہت آسان ہے‘ بس جیب بھاری ہونی چاہیے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم انسانوں پر دوسرے انسانوں پہ حکمرانی کرنے کا جنون کیوں سوار رہتا ہے؟ اس کے لیے انسان جنگیں لڑتا ہے‘ بندے مارتا ہے‘ انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتا ہے۔ لوگ پھانسی لگ جاتے ہیں‘ قتل ہو جاتے ہیں‘ لہو بہاتے چلے جاتے ہیں‘ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں۔ ہمارا مذہب‘ ملک‘ رنگ‘ نسل‘ علاقہ اور ذہن دوسروں سے بہتر ہے۔ انسانی برتری کے اس احساس نے کئی نسلیں تباہ کرائیں۔
اگرچہ گوروں نے بھی بہت لہو بہایا لیکن پھر انہوں نے جمہوریت متعارف کروا کے اس خون ریزی کو روکا بھی۔ جب بادشاہ کی تبدیلی تلوار کے بجائے ووٹ سے ہونا قرار پائی تو دنیا کچھ سکون میں آئی۔ لیکن لگتا ہے کہ انسانی جبلت میں اب بھی وہی خیال موجود ہے کہ وہ ایسا اعلیٰ انسان ہے جس کے بغیر دنیا نہیں چل سکتی۔ ابھی ٹرمپ کا بیان ہی سن لیں کہ اگر مجھے الیکشن نہ لڑنے دیا گیا تو امریکہ میں خون خرابہ ہوگا۔ یہ وہ انسانی مزاج ہے جو صدیوں سے اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ یہ کیا کوئی آسان کام ہے کہ آپ اپنی چرب زبانی سے لاکھوں لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیں جو آپ کے لیے جان کی بازی لگانے پر تُل جائیں۔ دنیا بھر میں ایسے کئی کردار گزرے ہیں جنہوں نے اپنی باتوں اور خوابوں سے دنیا میں آگ لگا دی۔ اگر یقین نہیں آتا تو کبھی جان آف آرک کے بارے میں پڑھ لیں جس کا دعویٰ تھا کہ اُسے مقدس خواب آتے ہیں۔ اگرچہ اسے جدید فرانس میں ایسا ہیرو مانا جاتا ہے جس نے انگلش فوج کا حملہ ناکام بنایا تھا‘ لیکن پھر اسی جان آف آرک کو چڑیل قرار دے کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یوں اپنے اپنے دور میں ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جو خود کو ناگزیر سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کے بعد قیامت ہے۔ میں بعض دفعہ حیران ہوتا ہوں کہ کتنے ہی بادشاہ اور شہنشاہ اس دنیا سے چلے گئے لیکن دنیا پھر بھی چلتی رہی۔ ہمیں کیوں یہ وہم ہو جاتا ہے کہ ہمارے بعد قیامت ہے؟
ٹرمپ اکیلا نہیں ہے جسے لگتا ہے کہ اگر وہ امریکہ کا صدر نہ بنا تو امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ ہمارے ملک میں بھی ان خیالات کے حامل کئی لیڈر گزرے ہیں۔ کبھی بھٹو صاحب کی پرانی تقریریں سنتا ہوں تو توبہ کر اُٹھتا ہوں کہ انسان کیسے خود کو تکبر کے آخری درجے پر فائز کر لیتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں سیاستدانوں کو سر پر بٹھانا ایک عام سی بات ہے۔ ہمارے لوگ بہت جلد متاثر اور مرعوب ہو جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ جن سیاستدانوں سے متاثر ہوئے ان میں سے کسی ایک کا بھی کریکٹر اتنا شاندار نہیں تھا کہ دنیا اَش اَش کر اُٹھتی۔ ہر حکمران چھوٹی بڑی چوریوں میں ملوث رہا ہے۔ کبھی ایک پکڑا جاتا ہے تو کبھی دوسرا‘ لیکن یہ طے ہے کہ سبھی چوری میں ملوث رہے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی سینیٹ کے الیکشن کی۔ اس دفعہ پی ٹی آئی نے جو سینیٹ کے ٹکٹ بانٹے ہیں‘ وہ حیران کن ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے دیے گئے دو ٹکٹوں پر بہت بحث ہو رہی ہے۔ ایک ٹکٹ لندن میں بیٹھے زلفی بخاری کو دیا گیا ہے اور دوسرا ٹکٹ حامد خان کو۔ اور جو جیل میں بیٹھے ہیں اُن کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ مزے کی بات ہے کہ جو لندن میں بیٹھا ہے وہ پی ٹی آئی کا اصل امیدوار ہے جبکہ عمر سرفراز چیمہ‘ جو لاہور جیل میں بیٹھا ہے‘ وہ اس کا کَورنگ امیدوار ہے۔ سب سے زیادہ ظلم تو میانوالی کے امجد خان نیازی کے ساتھ ہوا ہے۔ اس پر ایک جھوٹا مقدمہ درج ہوا۔ جب اسے یہ دھمکی ملی کہ اس کی جگہ اس کے گھر والوں کو اٹھا لیا جائے گا تو اس نے خود گرفتاری دے دی۔ اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنے قائد کا ساتھ چھوڑ دے۔ انکار پر اس کو تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ کئی روز تک جیل کے ہسپتال میں زیرِ علاج رہا۔ اُس کی صحت پہلے بھی اچھی نہ تھی‘ تشدد کے بعد مزید بگڑ گئی۔ امجد خان کے سات بچے (زیادہ تر بیٹیاں) ہیں جو باپ کے بغیر دن رات گزار رہے ہیں۔ ان بچوں کی مشکلات کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ امجد خان کی وڈیو موجود ہے جس میں وہ نو مئی کے روز کارکنوں کو روک رہا ہے اور سمجھا رہا ہے کہ کسی نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔ اس کے باوجود اس پر مقدمہ بھی درج ہوا اور گرفتاری کے بعد تشدد بھی۔ پھر بھی امجد خان پارٹی کا وفادار رہا۔ جب ایم این اے کے ٹکٹ دینے کی باری آئی تو میانوالی کے لیے جو نام امجد خان نیازی نے دیا تھا‘ عمران خان نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے عمیر خان نیازی کو ٹکٹ دے دیا جو وکیل رہنما حامد خان کے قریبی عزیز ہیں۔ اب حامد خان کو بھی سینیٹ کا ٹکٹ مل گیا ہے۔ عمران خان نے امجد خان نیازی کو نہ قومی اسمبلی کے الیکشن کے وقت کوئی اہمیت دی اور نہ اب سینیٹ الیکشن کے وقت۔ اس مشکل وقت میں ریلیف کی ضرورت امجد علی خان نیازی کو تھی‘ عالیہ حمزہ کو تھی نہ کہ زلفی بخاری یا حامد خان کو۔ ویسے امجد خان نیازی کو کیا ملا؟ سات چھوٹے چھوٹے بچوں سے دور‘ گھر سے دور‘ تشدد الگ سے برداشت کیا پھر بھی خان صاحب سے وفاداری نبھاتا رہا۔ لیکن خان صاحب کے نزدیک امجد خان نیازی کی وفاداری کی اتنی سی اہمیت ہے کہ اس کے بتائے گئے امیدوار کے بجائے قومی اسمبلی کا ٹکٹ کسی اور کو دے دیا گیا۔
یہ بات طے ہے کہ پاکستانی سیاست میں لیڈر شپ کو اگر وفادار اور ارب پتی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو اکثر ارب پتی بندے کو وفاداری پر ترجیح دی جاتی ہے۔ امجد خان نیازی اس کی بڑی مثال ہے جو عمران خان کا وفادار رہا لیکن سینیٹ کا ٹکٹ لندن کا زلفی بخاری لے گیا اور حامد خان‘ جن کا رشتہ دار عمیر نیازی پہلے ایم این اے کی ٹکٹ لے گیا تو اب انہیں بھی سینیٹ کی ٹکٹ مل گیا ہے۔ پی ٹی آئی میں سے کسی نے امجد خان نیازی کی فیملی کا پتا نہیں کیا کہ وہ کس حال میں ہے۔ ان کے پاس تو شاید مہنگا وکیل کرنے کی بھی فیس نہیں ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں اُن حکمرانوں پر جو امجد خان نیازی جیسے لوگوں پر ظلم کررہے ہیں۔ جنہیں امجد خان کے بچوں پر بھی ترس نہیں آتا جو کئی ماہ سے اپنے باپ سے دور ہیں۔ ایک جاننے والے دوست‘ جس کی اوپر تک پہنچ تھی‘ کو کہا تھا کہ امجد خان بے گناہ ہے‘ اس پر ظلم ہو رہا ہے۔ اس دوست نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ کرے گا۔ لیکن تین ماہ گزر گئے‘ اس دوست نے دوبارہ رابطہ تک نہیں کیا۔
ہر بندے کو صرف وہی ظلم لگتا ہے جو اس پر ہو رہا ہو‘ باقی اسے سب ڈرامہ لگتا ہے۔ یا دوسرے لوگ اس کے نزدیک اسی قابل ہوتے ہیں کہ اُن پر تشدد کیا جائے۔ ان کے معصوم بچوں پر ظلم کیا جائے۔ ایسے ظالم لوگوں کو رات کو نیند کیسے آتی ہو گی؟

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author