نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ووٹ ’’نَک دا کوکا‘‘ کا۔۔۔||رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع لیہ سے تعلق ہے ، وہ مختلف موضوعات پر قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے ماہ گاؤں گیا۔ نعیم بھائی کی برسی تھی۔ ڈاکٹر نثار جکھڑ نعیم بھائی کے دوست تھے۔ وہ گاؤں تشریف لائے تو گپ شپ رہی۔ اُن کا بھتیجا اویس جکھڑ حال ہی میں لیہ سے ایم این اے کا الیکشن جیتا ہے۔ نوجوان اویس سابق ایم این اے نیاز جھکڑ کا بیٹا ہے۔ جکھڑ صاحب کئی دفعہ ہمارے حلقے سے ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔ علاقے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ اس دفعہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہوا جو باقی سب پی ٹی آئی والوں پر ہوا تھا۔ انہوں نے بھی مجبوری میں بیان دیا اور پی ٹی آئی سے دوری اختیار کر لی اور اپنی جگہ اپنے بیٹے اویس جکھڑ کو الیکشن لڑوادیا۔ اویس کے مقابلے پر (ن) لیگ کے سابق ایم این اے پیر ثقلین شاہ تھے۔ پیر ثقلین شاہ کیلئے سب کچھ تیار تھا۔ توقع نہیں تھی کہ پیر ثقلین شاہ کو ایک نوجوان الیکشن ہرا دے گا‘ لیکن اویس جکھڑ کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی‘ اسی لیے وہ جیت گیا۔ جکھڑ خاندان کئی دہائیوں سے سیاست میں ہے۔ ان کا ذاتی ووٹ بینک بھی ہے لیکن اس دفعہ ان کے الیکشن جیتنے کی وجہ عمران خان کا ووٹ تھا جو اویس جکھڑ کو پڑا اور ہوا کے جھکڑ کی طرح پیر ثقلین شاہ کو اُڑا کر لے گیا۔ اگرچہ جب بھی کوئی شخص کسی کام کیلئے نیاز جکھڑ کے پاس جاتا تھا‘ وہ اُٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑتے تھے۔ دیہات میں دو‘ تین چیزوں پر ووٹ ملتا ہے۔ لوگ ایک تو یہ دیکھتے ہیں کہ جب وہ اپنا ذاتی کام لے کر اپنے ایم این اے یا ایم پی اے یا متوقع امیدوار کے پاس گئے تو اس کا رویہ کیسا تھا۔ کیا وہ اٹھ کر اُن سے ملا‘ کیا اس نے چند بندوں کی موجودگی میں ملنے کیلئے آنے کو نام سے پکارا جس سے سب کو پتا چلے کہ یہ کوئی عام بندہ نہیں ہے بلکہ بہت خاص ہے۔ پھر دوسری چیز لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا وہاں ڈیرے پر انہیں چائے پلائی گئی‘ عزت کے ساتھ چارپائی پر بٹھا کر حال احوال پوچھا گیا۔ یا پھر اگر خدانخواستہ ان کے ہاں فوتیدگی ہو گئی یا شادی ہے توکیا علاقے کا ایم این اے یا ایم پی اے وہاں شریک ہوا تاکہ ان کے رشتہ داروں اور شریکوں کو پتا چلے کہ ان کی علاقے میں کتنی اہمیت ہے کہ ایم این اے ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے۔ ایک اور چیز لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے ایم پی اے یا ایم این اے کو کوئی کام کہا تو کیا اس نے متعلقہ افسر کو فون کیا اور اسے بتایا کہ یہ اس کا ذاتی کام ہے‘ اسے ہر حال میں کرنا ہے۔ اگر فون نہیں کیا تو کیا اس نے رُقعہ لکھ کر دیا یا پھر وہ ان کے ساتھ اُٹھ کر چل پڑا۔ کام ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں ہے‘ یہ پروٹوکول اہم ہے۔ پھر ووٹ اسی امیدوار کا ہے۔ یہ تین‘ چار کام ہیں جو بندہ یہ سب کچھ باقاعدگی سے کرتا ہے‘ وہ ووٹ کا حقدار ہے۔ ووٹر کو اس سے ہرگز غرض نہیں ہے کہ اس نے علاقے میں کوئی سڑک بنوائی‘ کوئی سکول بنوایا یا گیس لگوائی۔ اس بندے کو علاقے میں کوئی سڑک بننے سے یہی لگتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اکیلا اس پر تھوڑی سفر کرتا ہوں‘ سب کرتے ہیں تو مجھے کیا فائدہ ہوا۔ فائدہ وہ صرف وہی سمجھتا ہے جو اس کا ذاتی ہو۔
ڈاکٹر نثار بتانے لگے کہ انہوں نے اپنے حلقے کے ایک علاقے میں 25 کلومیٹر طویل سڑک بنوائی۔ لیکن جب ووٹ مانگنے گئے تو صرف ایک بندے نے کہا کہ آپ کو ووٹ دوں گا کیونکہ آپ نے سڑک بنوائی تھی اور ہمیں بڑی سہولت ہوئی۔ باقی کسی نے اس سڑک کا ذکر تک نہیں کیا۔ کہنے لگے کہ ماضی میں پورے لیہ شہرکو ان کے ایم این اے بھائی نیاز جکھڑ نے سوئی گیس دلوائی۔ اگلے الیکشن ہوئے تو پورے لیہ شہر سے باون میں سے صرف ایک پولنگ سٹیشن سے وہ جیتے‘ باقی سب سے ہار گئے۔ ڈاکٹر نثار کہنے لگے کہ اب آپ بتائیں کہ بندہ کیا کرے‘ اب کام کی اہمیت نہیں رہی۔ میں نے ڈاکٹر نثار کو بتایا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے لیہ علاقے کا سب سے بڑا ایشو ٹی وی بوسٹر تھا۔ برسوں تک دھندلا ٹی وی دیکھتے رہے کہ شجاع آباد میں ڈیڑھ سو کلو میٹر دور لگے بوسٹر سے سگنل مشکل سے آتے تھے۔ نیاز جکھڑ نے بینظیر بھٹو سے کچھ نہیں مانگا‘ بس ٹی وی بوسٹر مانگا تاکہ لوگوں کا یہ پرانا مسئلہ حل ہو۔ لیکن وہی بات کہ لوگ ان ایشوز کو ذاتی کام نہیں سمجھتے۔
میں کبھی شریف خاندان کی سیاست یا گورننس کا فین نہیں رہا بلکہ ہمیشہ تنقیدی آنکھ سے دیکھا کہ انہوں نے ہمارے سرائیکی اضلاع کو شدید نظر انداز کیا۔ ان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ سارا فنڈ انہوں نے لاہور پر لگا دیا یا سینٹرل پنجاب ہی میں موٹر ویز بنائیں اور ان اضلاع کو ایک دوسرے سے لنک کر دیا اور انہیں ترقی کے وہ مواقع فراہم کیے جن سے پنجاب کے دیگر اضلاع محروم ہیں۔ پچھلے دنوں دوست فراز سلیم گجر کی بیٹی کی شادی پر فیصل آباد جانا ہوا۔ نواز شریف کی پارٹی وہاں سے بری طرح ہار گئی ہے۔ لاہور سے بھی ہاری ہے۔ سینٹرل پنجاب کے دیگر اہم شہروں سے بھی سیٹیں ہاری ہے۔ اگر ترقی پر لوگ ووٹ دیتے تو ان علاقوں سے صرف (ن) لیگ کو ووٹ ملتے۔
اچھا لگے یا برا‘ عثمان بزدار دور میں کوئی کام نہیں ہوا۔ ہر تین ماہ بعد ڈپٹی کمشنر تبدیل ہو رہا تھا۔ دیہاڑیاں لگ رہی تھیں۔ میرے درجنوں کالموں کے بعد عثمان بزدار نے مجھے کہا تھا کہ بس مٹھائی تیار رکھیں‘ ایم ایم روڈ پر کام شروع ہو رہا ہے۔ چند دن بعد پتا چلا کہ ایم ایم روڈ بنانے کے بجائے وہ سڑک وفاق کو دے دی گئی ہے۔ اللہ بھلا کرے مراد سعید کا‘ جو اُس وقت وفاقی وزیر تھے‘ انہوں نے مجھے فون کیا کہ آپ کی چیخ و پکار کے بعد اب میں ایم ایم روڈ پر کام شروع کرا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ مہربانی فرمائیں‘ موٹر وے بنوا دیں۔ پی ٹی آئی ان پانچ اضلاع سے جیت کر آئی ہے جہاں سے ایم ایم روڈ گزرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوشش کرتا ہوں۔ پھر فون آیا کہ موٹر وے نہیں بن سکتی‘ پیسے نہیں ہیں (فواد چودھری نے کھاریاں اسلام آباد موٹر وے کیلئے 80ارب روپے نکلوا لیے تھے)۔ میں نے کہا کہ چلیں ون وے سڑک بنوا دیں۔ پھر فون آیا کہ اس کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ بولے: میں نے بڑی کوشش کی‘ مشکل سے 18ارب روپے نکلے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ لیکن اٹھارہ ارب سے پانچ سو کلومیٹر ایم ایم روڈ پر صرف مٹی ڈلے گی۔ آدھے پیسے ٹھیکیدار اور افسران کھا جائیں گے۔ گنجی نہائے گی کیا یا نچوڑے گی کیا۔ وہی ہوا‘ ایم ایم روڈ وہیں کی وہیں رہ گئی۔ اب اُن پانچوں اضلاع سے جہاں گزشتہ دور میں ایک اینٹ تک نہیں لگائی گئی‘ پھر پی ٹی آئی جیتی ہے۔ صرف اس بات پر ووٹ پڑ گیا کہ خان ڈٹ گیا ہے‘ خان امریکہ کو ٹکڑ گیا‘ مقتدرہ کو ٹکڑ گیا‘ ہم نے خان کی قیادت میں عظیم قوم بننا ہے۔ وہ خان جس کی چوائس پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبرپختونخوا میں محمود خان تھے۔ میں نے وزیراعظم عمران خان کو پہلی ملاقات میں کہا تھا کہ میانوالی آپ کا حلقہ ہے‘ وہاں ایم ایم روڈ پر کنٹینرز اور ٹرکوں نے تباہی پھیر دی ہے‘ روز لوگ مر رہے ہیں‘ ایم ایم روڈ بنوا دیں۔ انہوں نے بڑے غصے میں جواب دیا تھا کہ میرا کام سڑکیں بنوانا نہیں۔ ایم ایم روڈ آج بھی وہیں ہے۔ کبھی کبھار مٹی اور تارکول ڈال دی جاتی ہے۔ وہاں لوگ آج بھی مر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں بزدار دور میں ٹکے کا کام نہیں ہوا۔ شور کوٹ سے لیہ‘ جھنگ سڑک پر سفر کرکے دکھا دیں۔
وہی بات ووٹ کام پر نہیں ملتا۔ ہاں ٹک ٹاک پر ”نَک دا کوکا‘‘ ٹرینڈ چل جائے تو ووٹ ہی ووٹ۔ شغلی قوم ہے‘ شغل پر ہی ووٹ ڈالتی ہے۔ جو بھی کام کرنے کے چکر میں پڑے گا‘ اسے نیاز جکھڑ کی طرح پورے لیہ شہر کو گیس دینے کے باوجود باون میں سے اکیاون پولنگ سٹیشن پر شکست ہو گی۔ اب عمران خان کے نام پر جکھڑصاحب کا بیٹا بغیر کوئی کام کیے آرام سے جیت گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author