دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تین بادشاہ۔۔۔||رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع لیہ سے تعلق ہے ، وہ مختلف موضوعات پر قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کبھار لگتا ہے کہ پاکستان میں ارتقائی عمل رُک سا گیا ہے۔ اس حوالے سے اگر کوئی شک تھا تو تین مارچ کو وہ بھی دور ہو گیا جب شہباز شریف نے وزیراعظم کا ووٹ لے کر تقریر شروع کی۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں ہنگامہ تو نومنتخب اراکین کے حلف اٹھانے والے دن سے چل رہا ہے بلکہ یوں کہیں کہ جب سے ملک بنا ہے تب سے جاری ہے۔ وجہ وہی کہ الیکشن چوری ہو گیا ہے۔ یہی منظر 2002ء میں بھی دیکھا تھا۔ 2008ء میں بھی ملتی جلتی صورتحال دیکھی لیکن زیادہ شور 2013ء میں سنائی دیا۔ یہی منظر 2018ء میں بھی دیکھا۔ اب 2024ء میں پھر وہی مناظر دیکھے ہیں۔ میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ ان 22برسوں میں کیا بدلہ ہے؟ جو چہرے 22برس قبل پہلی دفعہ اسی ہال میں دیکھے تھے‘ اب بھی کم و بیش وہی چہرے موجود ہیں۔ ہاں اس اسمبلی میں بینظیر بھٹو موجود نہیں ہیں۔ میں 1998ء میں اسلام آباد آیا تھا۔ اُس وقت میں بہت جونیئر رپورٹر تھا۔ اُس وقت ڈان میں ضیا الدین‘ شاہین صہبائی‘ احتشام الحق یا فراز ہاشمی جیسے سینئرز پارلیمنٹ کوَر کرتے تھے۔ سپریم کورٹ کیلئے رفاقت علی اور فارن آفس کیلئے حسن اختر جاتے تھے‘ جنہیں سب نواب صاحب کہتے تھے۔ وہ ایک ایک لفظ احتیاط سے لکھتے تھے۔ اب حیران ہوتا ہوں کہ صحافت بھی کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ وقت کے ساتھ جہاں دیگر شعبوں پر زوال آیا ہے‘ صحافت بھی اس کا شکار ہوئی ہے۔ کسی دور میں پارلیمنٹ کی ڈائری لکھی جاتی تھی۔ اجلاس کی کارروائی کو اس دلچسپ انداز میں لکھا جاتا تھا کہ پڑھنے والے اس کا انتظار کرتے تھے۔ لکھنے والوں میں شاہین صہبائی‘ ضیا الدین‘ نصرت جاوید‘ عامر متین‘ محمد مالک‘ حامد میر اور ابصار عالم شامل تھے۔ ارشد شریف نے بھی کچھ عرصہ پارلیمانی ڈائری لکھی۔ ہمارے مرحوم صحافی دوست فصیح الرحمن نے بھی اپنے خوبصورت رنگ دکھائے۔ نصرت جاوید تو اب بھی لکھتے رہتے ہیں لیکن باقی لکھاریوں کو ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کھا گیا۔ نہ اخبارات کو پارلیمانی ڈائریوں سے دلچسپی رہی اور نہ وہ لکھنے والے رہے۔
اتوار کے روز پریس گیلری میں نظر دوڑائی تو کوئی ایک بھی ایسا چہرہ نظر نہ آیا جو اگلے روز کے اخبار میں ڈائری لکھنے والا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ہی پارلیمانی ڈائریوں کا ٹرینڈ‘ جو کبھی ناگزیر تھا اور جس کے بغیر اخبار مکمل نہیں ہوتا تھا‘ دھیرے دھیرے دم توڑ گیا۔ اس کی جگہ اب سوشل میڈیا نے لے لی ہے‘ جہاں اتنا زہر بھرا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ اتنی نفرت کی آگ کیسے اتنے عرصے تک ہم سب نے اپنے سینے میں چھپائے رکھی۔ جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو لوگ اس وقت کیسے ایک دوسرے کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے تھے؟ پھر یاد آیا کہ انسان ہر دور میں اپنے جیسے انسانوں کے خلاف نفرت کا اظہار بہر صورت کرتا آیا ہے۔ اور تو اور بہادر شاہ ظفر کے دور میں غالب بھی اس نفرت کا شکار ہوئے۔ وہ لوگ جو انہیں ناپسند کرتے تھے‘ انہیں گمنام خطوط میں گالیاں لکھ کر بھیجا کرتے ۔ سوچتا ہوں کہ اگر غالب سوشل میڈیا کے اس دور میں ہوتے تو انہیں کتنی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اب تو ایسی نفرت پھیل چکی ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ چلیں مان لیا کہ عام آدمی میں برداشت کی کمی ہے کیونکہ روزانہ کے مسائل اس کی جان کو آئے ہوتے ہیں۔ وہ سارے دن کی فرسٹریشن کو سوشل میڈیا پر دوسروں پر اتار کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ لیکن ان سیاستدانوں کا کیا کریں جو عام آدمی سے بھی زیادہ برُے کردار اور گفتگو کے مالک نکلتے ہیں۔ کیا ایک حکمران یا سیاستدان کا رویہ اور اپروچ عام آدمی سے زیادہ بہتر نہیں ہونی چاہیے؟ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ جب وہ حکمران ہمارے جیسے عام آدمی سے ہی ووٹ لیتا ہے تو وہ کیسے ہم سے بہتر ہو سکتا ہے؟ اس کا رویہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسا اس کو الیکٹ کرنے والوں کا ہے۔
میرا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہم سب میچور ہو جائیں گے‘ جمہوری ہو جائیں گے‘ آگے کا سفر طے کریں گے‘ ہم میں برداشت بڑھے گی۔ 22برس کا عرصہ کافی ہوتا ہے۔ 2002ء میں پیدا ہونے والے بچے نے 2024ء کے الیکشن میں باقاعدہ ووٹ ڈالا ہے۔ وہ اس ملک کے حکمران چن رہا ہے‘ لیکن ہم نے کیسا ہجوم چن کر اسمبلی میں بھیجا ہے جو ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تلا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کو اسمبلی فلور پر کھلے عام گالیاں دی جارہی ہیں۔ ایک دوسرے پر جوتے پھینکے جارہے ہیں۔ دھکے دیے جا رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔
2002ء میں پی پی پی اور (ن) لیگ والے پرویز مشرف پر دھاندلی کا الزام لگاتے تھے کہ انہوں نے (ق) لیگ کو دھاندلی سے جتوایا۔ 2008ء میں پی پی پی نے پرویز مشرف پر پھر یہ الزام لگایا۔ 2013ء کے الیکشن کو زرداری صاحب نے RO’sکا الیکشن قرار دیا تھا۔ مطلب اس الیکشن میں بھی دھاندلی ہوئی تھی۔ 2018ء میں عمران خان پر الزام لگا کہ وہ دھاندلی کے نتیجے میں وزیراعظم بنے ہیں۔ 2024ء میں تو سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ پہلی دفعہ اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی تعداد پی پی پی اور (ن) لیگ کے امیدواروں سے بھی زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی کا ویسے ہی صفایا ہو گیا ہے کہ اس کا نشان چھن گیا۔ انہیں تو خواتین کی مخصوص سیٹیں تک نہیں ملیں۔ عمران خان جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی ہاؤس کے اندر احتجاج کررہی ہے‘ جیسے پرویز مشرف کے دور میں پی پی پی اور (ن) لیگ کرتی تھیں یا کبھی عمران خان احتجاج کرتے تھے یا اُن کے خلاف احتجاج ہوتا تھا۔
اب بتائیں یہاں سے آپ نے کہاں جانا ہے؟ یہ تو طے ہے کہ جمہوریت پاکستان میں رضیہ کی طرح غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ رضیہ کی جان ان سب سے کیسے چھڑائی جائے۔ انگریزوں نے تو یہ سوچ کر اس خطے میں جمہوریت متعارف کرائی تھی کہ اب ہندوستانیوں کو اپنے بادشاہ تبدیل کرنے کیلئے قتل نہیں کرنا پڑے گا‘ لیکن کیا کریں ہندوستانی تو ہزاروں سالوں سے بادشاہ بدلنے کیلئے تلوار سے ہی کام لیتے آئے رہے ہیں۔ وہ مزاج کیسے بدلا جائے۔ اس خطے کے رویے کیسے جمہوری بنائے جائیں۔ وہ انگریز افسر یاد آتا ہے جس نے کہا تھا کہ انگریزوں نے اس خطے کے لوگوں پر ظلم کیا تھا کہ جو یورپین قوموں کیلئے قوانین بنائے تھے‘ وہی اٹھا کر ہندوستانیوں پر نافذ کر دیے۔ کتاب :The Strangers in india میں گورا افسر کہتا ہے کہ یہ قوانین ان معاشروں کیلئے تھے جہاں جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں تو ہر بندہ عادتاً جھوٹ بولتا ہے۔ یورپ میں کوئی قتل کی جھوٹی گواہی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا جبکہ بھارت اور پاکستان میں قتل کے مقدمات میں جھوٹی گواہیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں‘ جس پر بے گناہ پھانسی چڑھا دیے جاتے ہیں۔
یہی حال اس خطے میں جمہوریت کا ہوا ہے۔ یہاں جمہوریت سے زیادہ انسان مضبوط ہیں۔ وہ لیڈر نہیں بلکہ ایسی مقدس ہستیاں بن چکے ہیں جن کی اب پوجا کی جاتی ہے۔ جمہوریت کا مقصد ہی ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں اب ایسے گروہ بن چکے ہیں جو سارا دن ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ اٹھا کر لے جاتا ہے۔اگر 22برس بعد بھی اسمبلی کا وہی ماحول ہے جو میں نے 2002ء میں دیکھا تھا تو آپ بتائیں کہ یہ جمہوریت واقعی اس خطے کیلئے بنی تھی؟ جمہوریت ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے جبکہ ہمارے ہاں تو عقل کا استعمال ہمیشہ سے ممنوع رہا ہے۔ اس خطے میں بادشاہ ہی کامیاب رہ سکتے ہیں‘ سیاسی حکمران نہیں۔ وہی پرانی حکایت کہ ایک سلطنت میں ہزاروں فقیر تو رہ سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ نہیں رہ سکتے۔ ہمارے پاس تو تین تین بادشاہ ہیں جو ہم عوام پر حکمرانی کیلئے برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف مہا بھارت رچائے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author