ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”امتل سے مل کر میں نے سیمی کی یادوں کو قفل لگا کر رکھ دیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں میرا دل چاہتا تھا کہ امتل کے کشادہ سینے پر سر رکھ کر رونے لگوں۔“ امتل قیوم کو لارنس گارڈن لے جاتی ہے جہاں وہ قیوم کو ایک شاعر سے اپنی پرانی محبت کا قصہ سناتی ہے۔ ایک طوفانی رات جب وہ گھر سے نقدی اور زیورات لے کر شاعر کے ساتھ چلی گئی۔ دونوں نے رات اکٹھے ایک ہوٹل میں گزاری اور جب وہ سو کر اٹھی تو شاعر بمعہ نقدی اور زیورات کے بھاگ چکا تھا۔
یہاں قاری حق بجانب ہے اگر وہ اس شاعر کو گدھ کی فہرست میں شامل کرے جس نے ایک دنیا سے ہاری عورت کو دھوکا دیا۔ لیکن بانو نے اس شاعر کے بارے میں کچھ نہیں کہا جس نے ایک طوائف پر شب خون مارا تھا۔ شاید شاعر نے مردار آرزوؤں پر پلنے کی شرط پوری نہیں کی۔ امتل قیوم کو اپنی شادی کے متعلق بھی بتاتی ہے جس سے اس کا بیٹا پیدا ہوا۔ اس سوال کے جواب میں کہ نبھی کیوں نہیں؟ امتل کہتی ہے : ”میں مڈل کلاس کی طوائف تھی سر جی۔ اس چندری کپتی کو محبت درکار ہوتی ہے لیکن عزت زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اگر اسے صرف محبت درکار ہو ناں تو وہ تو ہمارے ہاں بہت۔ لیکن یہ حریص چاہتی ہے جو بیاہ کر لے جائے وہ محبت بھی کرے“۔
فیصلہ کیجیے کہ اس عورت کی حرص کو کیا عنوان دیا جائے گا اور اسے گدھ جاتی میں کیسے شمار کریں گے؟ ”میرے شوہر کو میری کمزوریوں، غموں اور غلطیوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ معاف کرنا نہیں جانتا تھا۔ ہر جگہ ہر محفل میں ہر وقت اسے ایک ہی شو مارنی آتی تھی کہ دیکھو میں کتنا نیک ہوں میری وجہ سے ایک بازاری عورت تائب ہوئی ہے۔“
کیا ابھی بھی امتل کے متعلق ناول اپنے تھیسس پر قائم رہ سکتا ہے؟ امتل کا شوہر گدھ کیوں نہیں کہلا سکتا جو امتل کی ذات ملیامیٹ کرنے سے اپنی انا کی تسکین پاتا تھا۔ دیکھیے وہ بیٹے کا تعارف کیسے کرواتی ہے ؛“ ایک لڑکا ہوا تھا اس کا بھی دماغ ٹھیک نہیں، ہم جیسوں کے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کیا؟ ساری عمر حرام کھانا، ہم لوگ حلال کی اولاد کہاں سے پیدا کر لیں گے جی؟ اس کے باپ کا خیال ٹھیک ہے ساری وجہ میں ہوں، نہ میں حرام رزق پر پلتی نہ میرا بیٹا ایسا ہوتا۔
” یہاں مصنفہ سے پھر چوک ہو گئی۔ انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ ناول کے آخر میں وہ آفتاب کا بیٹا ابنارمل دکھانے والی ہیں۔ اور یہ بھی کہ آفتاب کی دھوکا دہی اور بے وفائی کو انہوں نے نہ تو حرام حلال کے فلسفے سے جوڑا ہے، نہ ہی آفتاب کی غلطیوں پر اس کو قصوروار ٹھہرایا سو کہاں فٹ کریں اس کے بیٹے کی ذہنی حالت؟ ایسے کنفیوژن میں مصنفہ کو بہتر یہی لگا کہ بیٹے کو روحانیت کے رستے کا مسافر بنا دیا جائے۔ ایک ناول، دو ابنارمل بچے۔ ایک حرام حلال کی تھیوری کی وجہ سے معتوب، دوسرے کا روحانی تھیوری کے تحت اونچا مقام۔ آخر یہ فرق کیوں؟ کیا صرف اس لیے کہ پہلا غریب پیشہ ور عورت کی اولاد ہے اور دوسرا ایک امیر کاروباری فلرٹ مرد کا بیٹا۔ جس سے یہ نہیں کہلوایا جا سکتا۔ ”ایک لڑکا ہوا تھا اس کا بھی دماغ ٹھیک نہیں، ہم جیسوں کے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔“
امتل قیوم سے کہتی ہے کہ وہ جب بھی شادی کرے، لڑکی باکرہ ہونی چاہیے۔ ”باکرہ لڑکی جو ہوتی ہے سر جی اس کے پتن سے ابھی کسی نے پانی نہیں پیا ہوتا۔ وہ جسم اور دل ایک ہی جوئے میں ہارتی ہے۔“ عجیب خیال ہے عورت کا پردہ بکارت اور اس کا دل ترازو کے دو پلڑوں میں برابر تولنا۔ کیسے ممکن؟ پردہ بکارت ایک فالتو جھلی، افادیت صفر، وابستہ افسانے بے شمار مگر دل۔ دل کے بنا تو کوئی زندہ ہی نہیں رہ سکتا، نہ جسمانی طور پہ نہ جذباتی لحاظ سے۔ اور اگر ایسا فرض کر لیا جائے تو بکارت زائل یا دوسرے لفظوں میں جسم کی بازی ہارنے کے بعد تو عورت کو کسی اور مرد کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔
جبکہ اس ناول میں دکھائی گئی عورتیں تو ایسا نہیں سوچتیں۔ سیمی، امتل، عابدہ کی زندگی میں ایک کے بعد ایک کئی مرد نظر آتے ہیں جن سے وہ محبت کرتی نظر آتی ہیں۔ دن رات کی مشقت کے بعد گھر کے نکمے عیاش مردوں کو پالنے پوسنے والی عورت کیا مرد کو اب بھی اس مسند پر فائز کرنا چاہتی ہے جہاں مرد کو اپنی تمام تر کجی کے باوجود ان چھوئی عورت چاہیے؟ شاید بیٹے کی ابنارمل حالت اسے کسک دیتی ہے اور وہ سوچتی ہے کہ شاید ایسا نہ ہوتا اگر وہ باکرہ ہوتی۔
یاد رہے کہ یہ بیٹا اس کے نکاح شدہ شوہر کے نطفے سے پیدا ہوا ہے۔ قیوم کے ماضی سے واقف ہوتے ہوئے بھی امتل جب یہ مشورہ دیتی ہے تو یہ معاشرے کی اس چلن کی طرف اشارہ ہے جہاں مرد کو سو خون معاف ہوتے ہیں۔ لیکن عورت کو باور کرا دیا جاتا ہے کہ پردہ بکارت کا ہونا یا نہ ہونا ہی اس کا مقام طے کرے گا۔ کیوں کریں مرد کے کنوار پن کے بارے میں کوئی سوال و جواب؟ امتل کے اس مشورے سے بانو متفق نظر آتی ہیں۔ قیوم بھابھی سے کہتا ہے ”شادی کا انتظام کریں اور لڑکی باکرہ ہونی چاہیے۔“
تب بھابی کی خاموشی معنی خیز نظر آتی ہے۔ قیوم کو اخلاقیات کا سبق دیتی بھابھی کی کا خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ بانو اسی بات کو سچ سمجھتی ہیں۔ امتل کی کہانی ختم ہونے سے پہلے کچھ اور ارشادات سن لیجیے جو بانو نے امتل سے کہلوائے۔ ”آپ جیسے لوگ صرف شادی کے قابل ہوتے ہیں اور حرام سے کوئی واسطہ نہ رکھیں۔ میں بتاؤں حرام سے کیا کچھ ہو جاتا ہے یہاں۔ اس نے سر کی طرف اشارہ کیا۔ “
اگر یہ بات مان لی جائے تو آفتاب پر اس کا اثر کیوں نہیں ہوا؟ آفتاب کا بیٹا روحانی بابا کیسے بنا؟ روشن پر اس کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا جو شادی سے پہلے ہی حاملہ تھی؟ اور عابدہ جو شادی شدہ ہو کر قیوم سے جنسی تعلقات بنا کر اس کے نطفے سے بچہ پیدا کرنے کی فکر میں تھی؟ اور سنیے : ”یہ جسم اور دل بڑے بیری ہیں ایک دوسرے کے جی۔ جسم روندا جائے تو یہ دل کو بسنے نہیں دیتا۔ دل مٹھی بند رہے تو یہ جسم کی نگری تباہ کر دیتا ہے، اللہ جانے کیوں میرے مولا نے ان کو ایک ہی ہتھکڑی پہنا دی۔“ اس اصول کی روشنی میں امتل کا کیا کریں؟ ایک طوائف جو بے شمار مردوں سے تعلقات قائم کرنے کے بعد ایک شاعر کی محبت میں اس قدر شدت سے مبتلا ہوئی کہ گھر والوں کی مخالفت مول لے کر آدھی رات کو گھر سے چلی گئی۔ اس ملاقات کے بعد امتل بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گئی اور قیوم نے شادی کے لیے ہاں کر دی۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر