ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتل :
دیکھیے پہلی ملاقات۔
”سب سے پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو وہ قاضی کے کمرے میں بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ اس نے فل میک اپ کر رکھا تھا۔ برقعے کا نچلا سیاہ کوٹ جسم پر تھا اور نقاب کرسی پر لٹک رہا تھا۔ اس نے کوئی تازہ لطیفہ سنایا تھا جس کی وجہ سے کمرے میں بیٹھے ہوئے قاضی کے تین حواری ہنس رہے تھے۔“
امتل اور قیوم کی دوستی کا آغاز ریڈیو سٹیشن کے دروازے پر ہوتا ہے۔ جہاں قیوم دربان سے کہہ سن کر امتل کو اندر لے جاتا ہے۔ امتل دربان کو پانچ روپے دیتی ہے۔
”یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ امتل کو آئندہ کی کوئی فکر نہ تھی۔ اس کے پاس وہ آخری پانچ روپے تھے جو اس نے دربان کو بلاوجہ دے دیے۔ دراصل وہ ہر کام کرنے کے بعد ہر حادثہ سہ جانے کے بعد ہر قسم کے پچھتاوے سے آزاد تھی۔ اس کی زندگی لمحہ بہ لمحہ چلتی تھی۔ اس لئے ماہ و سال مل کر اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ وہ وقت کے بھاری ہتھوڑے سے ہر لحظہ بے پرواہ تھی۔“
ریڈیو سٹیشن پر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس میں ایک جذباتی موڑ تب آتا ہے جب ہیرا منڈی میں کسی آرٹسٹ کی تلاش میں قیوم کو امتل مل جاتی ہے جو اسے اپنے گھر لے جانا چاہتی ہے۔
قیوم کی ہچکچاہٹ دیکھ کر وہ کہتی ہے :
”خدا کے لئے سر جی ایک بار میرے گھر چلے چلیں۔ میری عزت بن جائے گی۔ امتل گڑگڑائی۔
دیکھ امتل میری ریکارڈنگ ہے گیارہ بجے پوری کاسٹ جمع ہو گی۔ پھر انجینئر وقت دے سکے یا نہ دے سکے اب مجھے جانے دو۔ ”امتل کے گھر کے سامنے میں نے سماجت سے کہا۔
”سر جی آپ کی بڑی مہربانی ہو گی کہ آپ آج میرے گھر چل کر ایک بوتل پی لیں خدا قسم سارے محلے میں بڑی عزت ہو جائے گی۔“
یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک اور عورت قیوم کی زندگی میں گھسنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ قیوم اس سے بچنے کی فکر میں ہے۔ امتل عمر کے اس حصے میں ہے جہاں دنیا نے اسے کاٹھ کباڑ سمجھتے ہوئے فراموش کر دیا ہے۔ جبکہ وہ ماضی کے ان لمحات میں لوٹنا چاہتی ہے جب دنیا اس کے آگے پیچھے پھرتی تھی۔
”امتل میرا بازو تھامے بڑے فاتحانہ انداز میں صحن میں داخل ہوئی میں اس کی ٹرافی تھا اور وہ مجھے جیت کر لائی تھی۔“
قیوم امتل کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق بنانے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے جب وہ سنتا ہے کہ امتل اپنی نائیکہ سے اسے پارٹی یا گاہک کہہ کر متعارف کروا رہی ہے وہ کہہ اٹھتا ہے۔
”میں کچھ گھبرا کر بولا۔ لیکن میں تو پارٹی نہیں ہوں امتل۔
سر جی کیا بتاؤں، میری عزت بن جائے گی محلے میں آپ کا کیا جائے گا۔ ”
معاشرے کی ٹھکرائی ہوئی عورت جس کے پاس سے گزرتے ہوئے سب ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔ جس کے ساتھ ہنسنے کے لئے بہت امیدوار لیکن رونے کے لئے کسی کا کندھا میسر نہیں۔ اس عورت کو بھی عزت چاہیے چاہے وہ گاہک کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ قیوم امتل کی التجا سن کر پسیج جاتا ہے۔
”پتہ نہیں کیوں مجھے امتل پر شدید ترس آ گیا شاید یہی وہ لمحہ تھا جس میں میں ایک لاحاصل رابطے کا شکار ہوا۔“
امتل اور قیوم سارا دن باتیں کرتے ہیں، رات ہو جاتی ہے۔ قیوم کے موٹر سائیکل پر گھر کا کوئی لڑکا گھومنے جا چکا ہے۔ امتل قیوم کو رات وہیں رکنے کی دعوت دیتی ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پاتا۔ امتل اصرار کرتے ہوئے رونے لگتی ہے اور تب قیوم اور اس کے تعلق کا آغاز ہوتا ہے۔
”آدھی رات گئے جب میرا موٹر سائیکل نیچے آیا تو میری آنکھ کھلی۔ باہر کے لیمپ پوسٹ کی روشنی تکیے پر اس جگہ پڑ رہی تھی جہاں امتل سوئی ہوئی تھی۔ اس وقت اس کی عمر اس کے چہرے پر لکھی تھی آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے اور ہونٹ لکیر دار تھے۔
پہلی بار میں عافیت سے دوچار ہوا، اپنے ہم جنس کی رفاقت ملی۔ گدھ برادری کا کوئی فرد اس قدر قریب پاکر میں نے اسے اٹھایا اور پوچھا:امتل مجھ سے شادی کرو گی؟ ”
اس واقعے سے کم از کم سیمی کے گدھ جاتی کے نہ ہونے یا کم از کم قیوم کے ایسا نہ سمجھنے کا اشارہ ملتا ہے۔ کیا مصنفہ کے ذہن سے ناول کی کہانی کا پہلا حصہ محو ہو گیا ہے؟
کیوں کہ یہاں یہ سوال ناگزیر ہے کہ اگر گدھ بننے کی بنیاد شادی کے بغیر جنسی تعلق ہے تو سیمی اور عابدہ جنہوں نے بہ رضا و رغبت جنسی تعلق بنایا۔ آخر وہ دونوں گدھ کی فہرست میں شامل کیوں نہیں ہوئیں؟
بانو قدسیہ لکھتی ہیں۔
”امتل کو اپنا سمجھنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ شہر میں وہ اور میں بالکل تنہا تھے۔ میں ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار تھا، پھر اس کا اور میرا مسلک گدھ جاتی کا تھا۔ ہم دونوں مردار آرزوؤں پر پلے تھے۔ دونوں بجھے ہوئے کارتوس تھے اور اتفاقاً ایسے اکٹھے ہوئے تھے جیسے کورپس کرسٹی جیسی دور دراز جگہ میں اپنا ہم وطن ہم مشرب ہم زبان مل جائے۔“
دیکھیں یہاں گدھ کا تصور مردار سے مردار آرزوؤں تک وسیع ہو جاتا ہے۔
نوٹ کیجیے کہ قیوم اور امتل میں کوئی قدر مشترک نہیں سوائے اس کے کہ دونوں کو ایک ساتھی چاہیے تھا جو ایک دوسرے کی تنہائی بانٹ سکے۔
امتل جب دوبارہ قیوم کو گھر لے کر جاتی ہے تب اپنے پاس سے پچاس روپے نائیکہ کو بھجواتی ہے اور قیوم کے حیران ہو نے اور پوچھنے پر بتاتی ہے۔
”آپ کی عزت بن جائے گی بی بی کی نظر میں، آپ کا کیا جاتا ہے۔“
امتل کی قیوم سے بے لوث محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ قیوم کی عزت اپنے گھر والوں کی نظر میں بنا کر رکھے۔ لیکن بانو یہاں بھی بضد ہیں کہ دونوں کے بیچ محض گدھ جاتی کا رشتہ ہے۔
”امتل سے میرا رابطہ کچھ عجیب نوعیت کا تھا۔ میں آہستہ آہستہ اس کے پروں تلے گھستا چلا جا رہا تھا۔ وہ ٰایسی ماں تھی جو سانپنی کی طرح ہر جھول میں لاتعداد بچے کھا چکی ہو۔ امتل کے ساتھ رہنے میں ایک خاص آرام یہ تھا کہ وہ کچھ نہ مانگتی تھی، نہ جسمانی تعلق نہ روحانی محبت نہ روپیہ پیسہ، نہ شہرت، نہ تعریف۔“
یہاں امتل پر سانپنی کی مثال کیوں کر منطبق ہوتی ہے؟
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر