نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی حیدرآباد کے بیچ موت کا کنواں اور ایف ڈبلیو او!||نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

نور الہدیٰ شاہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہاولپور واقعے کے بعد ایک اور وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں کراچی حیدرآباد نام نہاد موٹر وے پر لیک ہوئے آئل ٹینکر میں سے لوگ پیٹرول لوُٹ رہے ہیں۔

اس تمام موضوع پر یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟ غربت اور جہالت سے لے کر حکومت تک ایک طویل فہرست بنا لی گئی ہے۔

اسی بہانے، اس سے ملتی جلتی ایک اور داستانِ الم بھی سن لیجیے۔

کراچی اور حیدرآباد کے بیچ موٹرے وے کے نام پر موت کا کنواں کھود دیا گیا ہے جو FWO کا پروجیکٹ ہے۔ وزیراعظم انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ موت کے اس کنویں کا افتتاح کر کے اپنے نام کی تختی لگوا چکے ہیں۔

اس نام نہاد موٹر وے پر کراچی اور حیدرآباد کے بیچ کا سفر وہ تمام لوگ کرتے ہیں جن کی منزل نہ صرف کراچی اور حیدرآباد ہے بلکہ حیدرآباد سے آگے اندرون سندھ میں ہر طرف ہے۔

سندھ میں رہنے والوں کی جان کتنی ارزاں ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے اس M9 موٹر وے کے نام پر FWO اور وفاقی حکومت کی طرف سے مچائی گئی کھلی کرپشن کو دیکھ کر اندازہ لگائیے۔

 

پنجاب میں رہنے والوں کی جان کتنی قیمتی ہے، اس کا اندازہ لاہور اسلام آباد کے بیچ موٹر وے سے لگائیے۔

مگر کوئی مائی کا لال نہیں جو FWO کے ذمہ داران سے سوال کرے کہ جناب ہماری جانوں سے کیوں کھیل رہے ہیں آپ؟ اس لیے کہ ہمارا تعلق سندھ سے ہے!

یا اس لیے کہ اس راستے پر نہ تو آپ کو سفر کرنا ہے اور نہ آپ کے بال بچوں کو اور نہ رشتہ داروں اور احباب کو۔

صرف 136 کلو میٹر طویل یہ موٹر وے مارچ 2015 میں شروع کیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ 2018 کے اواخر میں مکمل ہوگا۔ايک اندازے کے مطابق 32 سے 33 ارب روپے کا بجٹ اس کے لیے منظور شدہ ہے اور 24 سال کا کانٹریکٹ ہے۔ وفاقی حکومت نے بڑے فخر کے ساتھ اس کا اعلان یہ کہہ کر کیا کہ یہ 6 لین موٹر وے ہوگا۔ 3 لین ایک طرف اور تین دوسری طرف۔

وفاقی حکومت تو کسی تعارف کی محتاج نہیں مگر مختصراً  FWO کا تعارف اتنا ہی کافی ہے کہ یہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے نام سے افوجِ پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے، جس کے ذمے انفراسٹرکچر کے انتہائی بڑے بڑے پروجیکٹس ہیں۔

اب آتے ہیں اس طرف کہ اس پروجیکٹ کو ہم سندھ میں رہنے والوں کے پیروں تلے کیسے بچھایا گیا ہے!

پہلے پورا سپر ہائی وے کھود کر ملبہ کیا گیا۔ پھر اس ملبے کی مٹی اور پتھروں کے بڑے بڑے خوفناک پہاڑ کھڑے کر دیے گئے۔ ساتھ ساتھ کھدائی کی وجہ سے گہرے گڑھے ان کے کنارے چھوڑ دیے گئے۔اوپر سے ہر وقت دھول کے گہرے بادل جو ان پہاڑوں سے اٹھ کر راستہ تاریک کر دیتے تھے۔

اب اس موت کے کنویں میں اترنے کے لیے چھوڑ دیا گیا کراچی سے اندرون سندھ اور پنجاب جانے والے آئل سے بھرے بڑے بڑے ٹینکرز اور لدے پھندے دیوہیکل ٹرالرز کو اور ہائی وے کے کنارے بنے سیمنٹ کے کارخانوں کے لیے بجری سے لدے ٹرک اور اندرون سندھ اور پنجاب کی طرف جاتی مسافر بسوں کو۔

اور ساتھ ساتھ ان جھومتے لڑکھڑاتے دیوہیکل ٹرالرز، ٹینکرز، ٹرکوں اور مسافر بسوں کی جڑوں میں، بلکل ان کے پہیوں کے ساتھ جُڑی رینگتی ہوئی چھوٹی چھوٹی اور ہر طبقے اور ٹائپ کی گاڑیاں جن میں سندھ کے باسی اپنے بچوں اور فیملی کے ساتھ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ راستہ اتنا تنگ کہ لگتا کہ سامنے والی مسافروں سے بھری بس ابھی آئل ٹینکر سے رگڑ جائے گی اور سب کچھ بھسم ہو جائے گا۔

کراچی اور حیدرآباد کے بیچ کے ہائی وے پر نہ صرف ان دو شہروں کے لوگوں کی آمدورفت چوبیس گھنٹے کی ہے بلکہ اندرون سندھ کے تمام تر شہروں کے لوگوں کا اس ہائی وے پر سفر زندگی کے کئی معاملات کی وجہ سے لازم ہے، جس میں سب سے اہم ایمرجنسی میں کراچی کے ہسپتالوں کی طرف مریضوں کو لے جانا ہے۔

کراچی میں رہنے والے سندھیوں کی ایک بڑی تعداد حیدرآباد اور اندرون سندھ سے تعلق رکھتی ہے اور اسے خوشی غمی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر بھی اس ہائی وے پر لازم سفر کرنا ہی ہوتا ہے۔

پچھلے طویل عرصے سے ہم اس خوفناک پروجیکٹ پر یوں سفر کر رہے ہیں کہ لگتا ہے ابھی آئل سے بھرا ٹینکر ہم پر گرا کہ گرا، جس کی پشت پر سُرخ رنگ کے ساتھ بڑے بڑے الفاظ میں خطرہ لکھا ہوتا ہے۔ بس ابھی ہم پر یہ خطرہ پھٹا کہ پھٹا۔

اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ کم سے کم اب تو، بہاولپور واقعے کے بعد FWO لگا سکتا ہے۔ یا پھر ابھی آنے والے لمحے میں، ہم لدے پھندے ٹرالر تلے دب جائیں گے۔

رولر کوسٹر جیسے ان پہاڑوں اور ٹیلوں کی چڑھتی اترتی ڈھلوانوں پر سے گزرتے اور ہاتھیوں کی طرح جھومتے ہوئے لدے پھندے ٹرالرز اور آئل ٹینکرز کے پہلوُ بہ پہلوُ انسانی جانوں سے بھری ننھی ننھی گاڑیوں کا یہ سفر 2015 سے جاری و ساری ہے۔

یقین جانیے چیخیں نکل جاتی ہیں۔آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔

اوپر سے دن ہو یا رات دھول کا ایک ایسا گہرا غبار کہ نہ سامنے والی گاڑی نظر آتی ہے اور نہ ہی گڑھا اور نہ ہی سر پر تنا ٹینکر اور ٹرالر اور نہ اچانک سامنے آ کھڑا ہوتا ہوا ملبے کا پہاڑ۔

بس موت آنکھوں کے سامنے رقص کرتی ہوئی نظر آتی رہی ہے۔

متبادل راستوں کے نام پر سندھ میں رہنے والوں کو جو راستے دیے گئے وہ یہی تیس تیس کلو میٹر طویل خوفناک راستے تھے۔

پانچ کلو میٹر سیدھا راستہ۔ پھر تیس کلومیٹر موت کا کنواں۔ پھر دو کلومیٹر سیدھا راستہ، پھر تیس کلومیٹر موت کا کنواں۔

یہ پُر خطر متبادل راستے اب بھی ہیں۔ مگر اب ان کی طوالت کچھ کم ہو گئی ہے۔اب پہاڑ بیٹھ گئے ہیں اور گڑھے زیادہ اور مزید گہرے ہو گئے ہیں، جن میں گرنے کا خطرہ تلوار کی طرح سر پر لٹک رہا ہوتا ہے۔

خوفناک حادثے بھی ہوتے رہے ہیں۔لوگ جان سے بھی گئے۔ مگر FWO کی شان سلامت رہی۔ ایک بار فاروق ستار کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ بس تھوڑی دیر کی کھلبلی میڈیا پر مچی۔ اللہ انہیں زندگی دے مگر شاید جان سے گزر جاتے تو کچھ فرق پڑ ہی جاتا۔

خود میڈیا جو گھروں تک میں گھس پڑتا ہے اس نے بھی اگر موت کے اس کنویں پر نظر ڈالی تو بس سرسری سی۔

مگر جو سچ مچ جان سے گئے ان کی جانوں کی قیمت کیا ہے FWO اور وفاقی حکومت کے پاس؟ یہ سوال پوچھے گا کون اور اس کا جواب دے گا کون؟

تین چار گھنٹوں سے لے کر بارہ بارہ گھنٹے ٹریفک اس خوفناک راستے پر پھنسا رہا ہے۔ مریض اور بچے کس حال میں پھنسے رہے ہوں گے یہ بتا کر کیا کرنا ہے!

آئل ٹینکرز اور ٹرک اور ٹرالرز اُلٹے پڑے ہوتے ہیں اکثر۔ آئل بھی ہر طرف پھیلا ہوا ملتا رہا ہے اور اس پر سے گاڑیاں بھی گزرتی رہی ہیں۔کیونکہ واپس گاڑی موڑ کر لوٹ جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا۔ اتنی بھی سکت باقی نہیں بچی ہوتی کہ پیٹرول ہی لوُٹ لیا جائے!

یوں بے یار و مددگار اس راستے پر سفر کرتے رہے ہیں سندھ میں رہنے والے۔ بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے۔

وہ جو چھ لین کا وعدہ تھا اس کی فائنل تصویر یہ نکل رہی ہے کہ وہی پرانی دو لینز ہیں جو ابھی تک مکمل نہیں۔ جہاں جہاں مکمل قرار دی جا رہی ہیں وہ بھی کچھ یوں ہیں کہ گڑھے پڑتے جا رہے ہیں۔مکمل کہلایا جانے والا ایک بڑا حصہ تو پچھلے دنوں ٹوٹ پھوٹ بھی چکا، جو میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے صرف ڈھائی مہینے پہلے وزیراعظم کے ہاتھوں افتتاح بھی ہوا کہ مبارک ہو سندھ میں رہنے والوں کے لیے موت کا کنواں تیار ہے۔

اوپر سے اگر نام نہاد موٹر وے پر آج کی طرح بارش پڑ جائے!

آج بارش میں جب میں حیدرآباد سے واپس کراچی آ رہی تھی تو پانی سے بھرے گہرے گڑھوں کے ساتھ ایک طویل کیچڑ تھی جس پر سے گاڑیاں گزر رہی تھیں آئل ٹینکرز اور ٹرالرز کی جڑوں میں رینگتی ہوئی ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ عید منا کر اپنے بچوں کے ساتھ کراچی کو لوٹ رہے تھے، کیونکہ دفتر کھل چکے ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر لوٹنا ہی ہے۔

یوں بھی اس راستے پر سفر کرتے ہوئے اکثر سوچتی رہی ہوں کہ پتہ نہیں جب یہ تیار ہوگا، میں زندہ رہوں گی بھی یا نہیں!

مگر اب تو بہاولپور واقعے کے بعد سانس اور بھی مٹھی میں آ جاتی ہے۔

یہ دکھانے کے لیے کہ FWO نے بھاری رقم خرچ کی ہے، پرانے ہائی وے اور موجوده موٹروے میں فرق کی تصویر کے طور پر ایک چھوٹی سی دیوار بنائی جا رہی ہے دونوں لینز کے بیچ میں اور اس پر سفید رنگ کا برش پھیرتا ہوا کوئی نہ کوئی بندہ نظر آتا رہتا ہے اب۔ ورنہ ہم نے جب جب دن رات اور آدھی راتوں اور بھری دوپہروں میں بھی اس پر سفر کیا ہے تو کئی کئی دن کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ بھاری مشینیں پرانے ہائی وے کو ملبے کے پہاڑ بنانے کے بعد بیچ راستے میں آسیب کی صورت ساکت و جامد کھڑی ہی دیکھی ہیں۔

نیٹ پر جاکر دیکھیے تو ڈان نیوز کی یہ بھی رپورٹ پڑھنے کو ملتی ہے کہ جب سندھ اینوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے FWO کے ذمہ داروں کو معاملے کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو کوئی رسپانس نہیں ملا.

لوگوں کی جانیں داؤ پر لگی ہونے کی وجہ سے نہ صرف سندھ گورنمنٹ نے بلکہ بہت سے بااثر سیاست دانوں نے بھی FWO اور وفاقی حکومت کو متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر صورتحال بدستور یہ ہے کہ ہم اب بھی جان ہتھیلی پر رکھے موٹروے کے نام پر بنائے گئے موت کے کنویں میں گھوم رہے ہیں۔

بلکہ اب دو لینز کے بیچ کھڑی دیوار کی وجہ سے آئل ٹینکرز اور ٹرالرز کی ریس میں پھنسی گاڑیوں کے لیے فرار یا بچاؤ کا راستہ بھی نہیں رہا، سوائے کچلے جانے کے۔

مگر بہاولپور والا واقعہ دیکھنے کے بعد آج نام نہاد موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے یہ مایوس کن خیال آتا رہا کہ سندھ ہو یا جنوبی پنجاب …. ہماری جانیں ایسے بھی بے وقعت ہیں اور ویسے بھی بے وقعت ہیں۔

نور الہدیٰ شاہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author