آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کو اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں اگلے دو تین
مہذب جمہوری ممالک میں انتخابات ایک معمول کی کاروائی سمجھے جاتے ہیں جہاں پارلیمان کی مدت کے اختتام پر پہنچتے ہی ایک خود کار نظام کے تحت انتخابی سسٹم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اتنا بااختیار ہوتا ہے کہ نہ کوئی حکومتی عہدیدار اور نہ کوئی عدالت انتخابی نظام میں خلل ڈالنے کا سوچ سکتی ہے۔ نہ کسی نگران حکومت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کسی چیف جسٹس کو انتخابات کروانے کے لئے ضامن بننا پڑتا ہے۔ پارلیمان کی مدت ختم ہوتے ہی حکومت بھی خود بخود ہی نگران حکومت میں ڈھل جاتی ہے اور اس کا کردار صرف روزمرہ کے ریاستی امور کی انجام دہی تک محدود ہو جاتا ہے۔ یہ حکومت انتخابی معاملات میں کسی مداخلت کا سوچ سکتی ہے اور نہ انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت کو اس حکومت پر کوئی اعتراض ہوتا ہے کہ حکومتی جماعت انتخابات کے کسی بھی مرحلے پر انتخابات کی شفافیت پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کے اس یقین کے پیچھے برس ہا برس سے اس انتخابی نظام کے تحت کروائے جانے والے وہ منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں جن کی شفافیت پر کوئی چھوٹے سے چھوٹا داغ بھی موجود نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں چونکہ جمہوری روایات کبھی جڑ پکڑ ہی نہیں سکیں اس لئے اول تو پارلیمان کا مدت پوری کرنا ہی ایک چیلنج ہوتا ہے اور اگر تمام تر سازشوں اور مشکلات کے باوجود پارلیمان اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اگلے انتخابات کا مرحلہ اپنے آغاز سے ہی شک و شبے کا شکار ہوتا ہے کہ انتخابات کب ہوں گے؟ آئینی مدت میں ہوں گے یا کسی بہانے سے انتخابات کو تاخیر کا شکار کر دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں آئینی طور پر حکومتی مدت ختم ہو جانے کے بعد نگران حکومت مقرر کی جاتی ہے جو انتخابات کے نتیجے میں اگلی حکومت کے آنے تک ریاستی امور کی انجام دہی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ نگران حکومت کا تصور بھی شائد صرف ہمارے ہاں ہی ہے اور اگر راقم غلطی پر نہیں ہے تو کسی اور ملک میں اس طرح کی نگران حکومت کا تصور موجود نہیں ہے۔ نگران حکومت کہنے کی حد تک غیر جانبدار افراد پر مشتمل ہوتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا کم ہی ہوتا ہے اور اب تک آنے والی ہر نگران حکومت پرانتخابات میں دھاندلی اور کسی پسندیدہ سیاسی جماعت کی حمایت کا الزام لگتا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی نظام کو اس قدر فول پروف بنایا جائے کہ الیکشن کمیشن کے کام اور انتخابی نظام میں کسی بھی فرد یا ادارے کی مداخلت ناممکن ہو۔ اگر انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن مضبوط ہو گا تو پھر نگران حکومت کی ضرورت بھی نہیں رہے گی بلکہ جو بھی حکومت ہو گی وہ اپنی مدت ختم ہونے کے بعد اور انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت آنے تک ریاستی امور سرانجام دے سکتی ہے۔ مضبوط جمہوری روایات رکھنے والے ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
ارض پاک میں اگست میں حکومت ختم ہونے کے بعد آئینی طور پر اس سال نومبر میں عام انتخابات منعقد ہو جانے چاہئیے تھے لیکن ہمارے ہاں آئین موم کی ایسی ناک ہے جسے اپنی سہولت کے مطابق جب چاہے اپنی مرضی کے مطابق موڑا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس بحث میں جائے بغیر کہ انتخابات نومبر میں منعقد کیوں نہ ہو سکے، لمحہ فکر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت سے آٹھ فروری دو ہزارچوبیس کی تاریخ اگلے انتخابات کے لئے مقرر ہو جانے کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر چھائے بادل ختم کیوں نہ ہو سکے اور انتخابی شیڈول جاری کروانے کے لئے ایک بار پھر سپریم کورٹ کو مداخلت کیوں کرنا پڑی۔
سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ ہمارا ریاستی نظام اس قدر کمزور اور کنفیوژن کا شکار کیوں ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہائیکورٹ کا ایک جج ایسا فیصلہ کر دیتا ہے جو اس کے عدالتی اختیار سے ہی باہر ہوتا ہے۔ ہائیکورٹ کی حدود صرف صوبے تک محدود ہوتی ہے لیکن لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے پورے ملک کے بارے فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی عملے کی تقرری کے لئے جاری کئے جانے والے نوٹیفکیشن کو معطل کر کے انتخابات کے انعقاد کو ہی خطرے میں ڈال دیا جس پر سپریم کورٹ کو ایک بار پھر مداخلت کرنا پڑی لیکن سوال یہ ہے کہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے والے اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے ہائیکورٹ کے جج کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔
ایک مثالی انتخابی نظام کے بارے تصور کیا جاتا ہے کہ ہر بالغ ذی ہوش شخص انتخابات میں حصہ لے کر منتخب ہونے کی اہلیت رکھتا ہو ہمارے لئے سوال لیکن یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں عملا ایسا ممکن ہے؟ پاکستان میں انتخاب لڑنا کروڑوں کا کھیل ہے جس میں کوئی عام مڈل کلاس شخص حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت ایسے امیدوار کو ٹکٹ دیتی ہے جوانتخابات میں کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ عوام بھی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دیتے جو کروڑوں روپیہ خرچ کر کے اپنے حلقے میں اشتہار بازی نہ کر سکتا ہو اور موٹرسائکل پر یا پیدل اپنی انتخابی مہم چلا رہا ہو۔ ہمارے غریب عوام بھی اپنی نمائیندگی کے لئے ایک ارب پتی لینڈ کروزر سوار شخص کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں اور بعد میں شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ہماری حالت کیوں نہیں بدلی۔ ہاں ایسے مناظر ہمارے انتخابات میں ضرور دیکھنے میں آتے ہیں جب ایک ارب پتی امیدوار انتخابات کے دنوں میں موٹر سائیکل پر کسی کارکن کے پیچھے بیٹھ کر خود کو ایک عوامی شخص ظاہر کرنے کی منافقت کرتا نظر آ جاتا ہے۔
اگر تو ہم واقعی ایک جمہوری ملک بننا چاہتے ہیں اور جمہوریت میں اپنا مستقبل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے انتخابی نظام میں انقلابی اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک فول پروف اور دھاندلی سے پاک انتخابی نظام تشکیل دیا جا سکے جس کے ذریعے ایک عام آدمی بھی انتخابات میں حصہ لے سکے اور جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ سکے۔ ووٹ ڈالنا ہر ووٹر کے لئے لازمی قرار دیا جانا چاہئیے اور بغیر کسی وجہ کے ووٹ نہ ڈالنے والے افراد کو ووٹ جیسی قومی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر ٹوکن کے طور پر ہی سہی لیکن جرمانہ ضرور عائد کیا جانا چاہئیے۔ اگر ووٹ ڈالنا لازمی قرار دے دیا جائے تو اس سے نہ صرف انتخابات کا ٹرن آؤٹ بہتر ہو گا بلکہ انتخابات والے دن ووٹروں کی ٹرانسپورٹ پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کی بھی بچت ہو سکتی ہے اور اس سے ایک عام آدمی کے انتخاب لڑنے کی راہ بھی ہموار ہو گی کیونکہ کسی امیدوار کو اپنے ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہیں کرنا پڑے گا اور ہر ووٹر اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر خود ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ اسٹیشن پہنچے گا۔
انتخابی نظام میں اصلاحات کی اپنی ایک اہمیت ہے جس کے بغیر صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن انتخابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ووٹ ڈالنے والے عوام کو بھی ووٹ ڈالتے وقت سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہئیے اور اپنی ذاتی پسندیدگی، ذات برادری، شخصیت پرستی اور ہر قسم کے پروپیگنڈے سے بالاتر ہو کر نہایت ذمہ ذاری سے سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سوچ کر ووٹ ڈالنا چاہئیے کہ ان کے ووٹ کا مقصد ان کے پسندیدہ سیاسی رہنما کا اقتدار نہیں بلکہ ملک کی بہتری اور ان کے بچوں کا محفوظ مستقبل ہونا چاہئیے۔ ووٹ شخصیت پرستی کی بجائے میرٹ پر دیا جائے گا تو ہی انتخابات کےنتیجے میں بہتری آ سکتی ہے۔
کسی بھی ریاست کے لئے تجربات کرنے اور اپنی سمت متعین کرنے کے لئے پچھتر برس یعنی پون صدی بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے، اتنےعرصے میں قومیں ہر طرح کا تجربہ کرنے کے بعد ترقی کی منزل حاصل کرنے کے لئے درست راستے کا انتخاب کر چکی ہوتی ہیں لیکن ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک منزل کی تلاش میں اُدھر اُدھر بھٹک رہے ہیں۔ ارباب اختیار و اقتدار کو اب اپنے تجربات بند کرکے صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کرنی چاہئیے کیونکہ صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی عوام کی نمائیندہ حکومت ہی ملک کو ترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے۔
جن ممالک میں انتخابات بروقت اور منصفانہ طور پر کروائے جاتے ہیں ان ممالک میں ترقی کی رفتار دیکھی جائے اور جن ممالک میں دھاندلی سے بھرپور انتخابات کروائے جاتے ہیں ان کے زوال کی رفتار دیکھی جائے تو خودبخود اندازہ ہو جاتا ہے کہ صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی کے لئے کس قدر ضروری ہیں۔
Twitter: @GorayaAftab
یہ بھی پڑھیے:
پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ
تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر