نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ کا یوم ثقافت !!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق صدر آصف زرداری نے سندھی ثقافت کے دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ سندھ کی ثقافت امن، محبت، بہادری، مہمان نوازی کی تاریخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ تو کیا پاکستان کی تمام ثقافتیں تہذیبی اقدار کی وارث ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستانی ثقافتوں اور پاکستانی زبانوں کے فروغ کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے، جس کے باعث پاکستان میں ثقافتی بحران آج بھی موجود ہے، اس مرتبہ تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں تھی، البتہ پیپلز پارٹی سندھ میں یوم ثقافت سرکاری سطح پر مناتی رہی ہے اور وسائل بھی خرچ کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی ثقافتوں کو زندہ رکھنے کیلئے ایک وزارت قائم کی تھی، بلا شبہ پاکستان ثقافتی میراث سے مالا مال سرزمین ہے اور ہزاروں سال سے یہ خطہ ثقافتی زمزمے بکھیر رہا ہے۔ سندھی ثقافت کے دن کے موقع پر سندھیوں کا جو ش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے، بچے اور خواتین سب نے جو ش و خروش سے یوم ثقافت کی تقریبات منائیں۔ سندھ کے ہر گوٹھ ، ہر قصبے اور ہر شہر کے ساتھ ساتھ اندرون و بیرون ملک جہاں جہاں سندھی آباد ہیں ، وہ یہ دن جوش و خروش سے مناتے ہیں ۔ بلا شبہ سرائیکی سندھی ، پنجابی ، پوٹھوہاری ، پشتو ، بلوچی ، براہوی ، کشمیری تمام زبانیں اور تمام ثقافتیں اپنی اپنی جگہ پر قابل احترام ہیں ، ثقافتوں کے فروغ کے لئے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنے چاہئیں ۔ پاکستان میں سندھ حکومت سندھی زبان اور سندھی ثقافت کے فروغ کے لئے سرکاری سطح پر اقدامات کرتی ہے ۔ 2 مارچ بلوچی کلچرل ڈے منایا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اسی طرح 6 مارچ کو سرائیکی کلچرل ڈے منایا جاتا ہے ۔ میں نے نگران وزیراعلیٰ سید محسن نقوی کی توجہ خط کے ذریعے مبذول کرائی کہ جس طرح سندھ حکومت سندھی کلچرل ڈے مناتی ہے ، اسی طرح پنجاب حکومت کو بھی سرائیکی کلچرل ڈے منانا چاہئے اور پنجابی و پوٹھوہاری کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ صوبے کے لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں تو ان کے احساسات و جذبات کا بھی احترام ہونا چاہئے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عدم برداشت اور انتہا پسندی کے پر آشوب دور میں انسان دوستی پر مبنی ثقافتی اقدار کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔دسمبرکے پہلے اتوار کو سندھی کلچرل ڈے منایا جاتا ہے ، سندھی کلچرل ڈے کس طرح وجود میں آیا؟ اسے جاننے کی ضرورت ہے ، واقعہ اس طرح ہے کہ سابق صدر آصف زرداری بیرون ملک سندھی اجرک اور سندھی ٹوپی پہن کر گئے تو ایک ٹی وی اینکر نے ان کے اس عمل کو غیر مہذب قرار دیا ۔جس پر سندھ میں احتجاج ہوا اور سندھیوں نے سندھی ٹوپی اور سندھی اجرک منانے کا فیصلہ کیا اور وہی دن ان کا کلچرل ڈے قرار پایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں موجود مندوبین نے آصف زرداری کے لباس کی تعریف کی تھی جبکہ ٹی وی اینکر نے تعصب کی بنیاد پر زرداری کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور حقیقت یہی ہے کہ کلچر بہت بڑی طاقت ہے ۔ پاکستان مختلف زبانوں اور مختلف ثقافتوں کا ایسا گلدستہ ہے جس کے رنگ و بو سے ہم دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ ثقافت ، انسان دوستی اور محبت کا دوسرا نام ہے ، ایک ثقافت دوسری ثقافتوں کا احترام کرتی ہے ۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی خطے کی ثقافت میں زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ ثقافت کے اجزاء میں سے زبان بہت بڑا جز ہے ۔ سائنس کی دنیا میں زبان کو انسان اور انسان کو زبان کا نام دیا جاتا ہے ۔ زبان کی ترقی کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں ۔ سندھ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ سندھ کے آثار اور زبان و ادب کی ترقی کیلئے اقدامات کرتی ہے اور زبان و ثقافت کی ترقی کیلئے بہت سے ادارے قائم کئے گئے ہیں ۔ سندھ کے تعلیمی اداروں میں سندھی لازمی ہے ۔ دیگر صوبوں کو سندھ کی تقلید کرنی چاہئے ۔ زبان کی ترقی میں شاعروں ، ادیبوں اور فنکاروں کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ سندھی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پر مشتمل ’’ شاہ جو رسالو ‘‘ آج بھی نہایت شوق اور محبت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے ۔ ملتان کی بلیو ٹائلز پر مشتمل بھٹ شاہ میں آپ کا مقبرہ جو کہ 1754ء میں غلام شاہ کلہوڑا نے تعمیر کرایا ، آج بھی پورے سندھ کا قومی نشان ہے ۔ درازہ شریف ضلع خیر پور میں آسودۂ خاک سچل سرمست کی سرائیکی اورسندھی میں شاعری آج بھی محبتوں کے زمزمے بکھیر رہی ہے۔ آرٹ ، کلچرل اور لینگویج یہ تینوں عناصر نہ ہوں تو معاشرہ روبوٹ کی شکل اختیار کر جائے ۔ کلچر انسان کو اپنی ماں دھرتی اور اپنی ماں بولی سے محبت سکھاتا ہے ۔ یہی محبت مادر وطن کے دفاع کا باعث بنتی ہے ۔ انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ حملہ آوری کا مقابلہ تہذیب و ثقافت کے ذریعے ممکن ہے ۔ سرائیکی تہذیب کی علامت نیلے رنگ کی اجرک ہم نے متعارف کرائی تو کہا گیا کہ یہ سندھ سے تفریق پیدا کرے گی تو میں نے کہا کہ سرائیکی اجرک سندھی اجرک کے مقابل نہیں ۔ سندھ کی اپنی پہچان ہے اور وسیب کی اپنی ۔ تاریخی حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ ملتان کاشی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ سندھ جائیں یا بلوچستان ۔ تاریخی عمارتوں پر آپ کو ملتانی کاشی کے نقش نظر آئیں گے ۔بات صرف پاکستان یا ہندوستان کی نہیں ۔ ایران ، عراق، شام ، مشرق وسطیٰ ہو یا بلخ بخارا سے کاشغر تک چلے جاؤ۔ آپ کو ملتانی کاشی گری کے رنگ فیروزی اور نیلا نظر آئیں گے ۔سرائیکی اجرک کے رنگ بھی یہی ہی ہیں ۔ سرائیکی اجرک کے رنگوں کو ہر جگہ پسند کیا گیا ۔ سرائیکی اجرک کے رنگ دیکھ کر آنکھیں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور یہی رنگ کائنات کی وسعت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ زمین آسمان کا یہی رنگ نیلا ہے۔ سرائیکی اجر ک کے فیروزی اور آسمانی رنگ ہمارے وسیب کے قدیم رنگ ہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ وسیب کے لوگ ان خوبصورت رنگوں کے ذریعے اپنی قدیم ثقافت اور قدیم اجرک کو ایک بار پھر سے زندہ کر رہے ہیں۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author