دسمبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمہوریت سے خوف کھانے والے۔۔۔|| وجاہت مسعود

اب اس قوم کو پھانسی کی پاڑ سے اتار کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا موقع دینا چاہیے۔ معیشت کے بنیادی مسائل قلیل مدتی نسخوں سے حل نہیں ہوا کرتے۔ ہم نے جمہوریت کے خوف میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ آلودگی سے پاک جمہوریت کا ایک تجربہ کرنے میں کیا ہرج ہے؟

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واللہ! ہماری دعا بھی گویا سپن بالر کی بہت محنت سے نکالی ہوئی گیند بن گئی ہے، جارح مزاج بلے باز کو غچہ دینے میں کامیاب ہو بھی جائے تو وکٹوں کو چھونے سے انکار کر دیتی ہے۔ اکثر تو عقاب کی طرح لپکتا وکٹ کیپر بھی چکمہ کھا جاتا ہے اور گیند عقبی منطقے میں لڑکھتی ہوئی باﺅنڈری پار کر جاتی ہے۔ ہت تری لیگ سپن گگلی کا جادو اور سرد مرطوب ہوا میں گول گول چکر کھاتی سرخ گیند! خیر، یونہی دھیان میں کچھ گمان سا آ گیا ورنہ کرکٹ ہمارا شعبہ نہیں۔ ظلمت شب کے مسافر سے تو استاد قمر جلالوی کا کلام سنیے، دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے…. (مصرع ثانی بدشگونی کے خوف سے حذف کرنا مناسب قرار پایا)۔ مرزا رفیع سودا کا فرمودہ البتہ عرض حال سے مناسبت رکھتا ہے۔ اے ساکنان کنج قفس! صبح کو صبا / سنتے ہیں جائے گی سوئے گلزار، کچھ کہو۔ تو کہنا یہ ہے کہ عمر رواں کے پرخروش پانیوں پر بے پتوار بہتے تختہ شکستہ پر برسوں جمہوریت کی دعا مانگتے ہیں۔ جمہوریت کی نوید سنائی دیتی ہے تو زاغ و زغن کی بے تال سمع خراشی سے وسوسے غریب شہر کی آرزوﺅں کی طرح تیر نیم کش میں منقلب ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی کچھ ایسی ہی رت ہے۔ الیکشن کمیشن اور متعلقہ حلقوں نے فروری کی آٹھ تاریخ کو عام انتخابات پر اتفاق کیا ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے پر صاد کرتے ہوئے صحافیوں کو سخت تنبیہ کی ہے کہ عام انتخابات کے بارے میں الٹی سیدھی قیاس آرائیوں سے گریز کریں۔ ایوان عدل کا حکم حرف آخر ہے اور اب تو الیکشن کمیشن نے انتخابی حد بندیوں کا اعلان بھی کر دیا ہے مگر دارالحکومت کے گلی کوچوں میں گردش کرتی افواہوں کا کیا کیجئے۔ کہیں سے خبر آتی ہے کہ بحیرہ عرب کے پار متمول برادران نے جاری بندوبست کے کارپردازوں کو مالی سہولت کاری کا عندیہ دیا ہے، گویا قومی معیشت پر لٹکتی تلوار نیام ہو گئی ہے۔ اب عام انتخابات میں تاخیر ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ پھر پرچہ لگتا ہے کہ ایک معتوب سیاسی گروہ کی مفروضہ عوامی مقبولیت مطلوبہ انتخابی نتائج کو درہم برہم کر سکتی ہے چنانچہ انتخابی مشق کو فی الحال معرض التوا میں رکھنا قرین مصلحت ہے۔ کہیں سے سرگوشی سنائی دیتی ہے کہ تاریخ کے سرد گرم سے آشنا سیاسی جماعتوں میں ابھی بھرپور انتخابی سرگرمیوں کے آثار نہیں۔ یہ بے خودی بے سبب نہیں۔ کہیں کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ بدقسمتی سے اس اٹکل پچو خیال آرائی کو ہماری انتخابی روایت کے سیاہ و سفید منطقوں سے سند حاصل رہی ہے۔
آزادی کے گیارہ برس بعد فروری 1959 میں پہلے عام انتخابات ہونا قرار پائے تھے لیکن بیچ میں اکتوبر 1958 ءآ گیا۔ ہم اگلے بارہ برس کے لئے عالم بے اختیار میں معلق ہو گئے۔ دسمبر 1970 ءمیں عوام کو پہلی بار ووٹ پر مہر لگانے کا موقع ملا اور انتخابی نتائج پر آغا محمد یحییٰ خان کا ردعمل جاننا ہو تو ارشد سمیع خان کی کتاب ”Three Presidents and an Aide“ کا متعلقہ حصہ دیکھیے۔ ایک مختصر اشارہ حاضر ہے۔ رات گئے یحییٰ خان نے نیشنل سیکورٹی سیل کے سربراہ میجر جنرل غلام عمر کو فون کر کے سخت برا بھلا کہا۔ ’عمر، یہ کیا بکواس ہو رہی ہے۔ تمہارے وہ سب اندازے کیا ہوئے؟ اور وہ جو تم نے قیوم خان، صبور خان اور بھاشانی کو پیسے دیے تھے، وہ کہاں گئے؟ تم نے ایک مصیبت کھڑی کر دی ہے۔ اب سنو، صوبائی انتخابات میں دھاندلی کرو یا کچھ اور، نتائج بالکل مختلف چاہئیں۔ پھر ہم کہیں گے کہ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں زبردست دھاندلی کی ہے اور یہ کہ ہماری مستعدی نے صوبائی انتخابات میں دھاندلی نہیں ہونے دی۔ آج ہارنے والے اپنے مفاد میں ہماری تائید کریں گے۔ ہمیں ہر صورت قومی اسمبلی کے انتخابی نتائج پر دھاندلی کا تاثر پھیلانا ہے۔‘ دلچسپ بات یہ کہ موجودہ پاکستان میں دائیں بازو کے کچھ عناصر آج تک کہتے ہیں کہ 1970 میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے خوفناک دھاندلی کی تھی۔ 1977 ءکے انتخابات کی ساکھ بھٹو صاحب نے بلامقابلہ منتخب ہونے کے شوق میں تباہ کر دی۔ جنرل ضیا الحق نے اکتوبر 1977ءمیں انتخابات کا وعدہ کیا تھا لیکن ’مثبت نتائج‘ کا امکان معدوم پا کر یکم اکتوبر 1977 ءکو انتخابات تاحکم ثانی ملتوی کر دیے۔ پھر 17 نومبر 1979 ءکو انتخابات کا اعلان کیا مگر 18 اکتوبر 1979 کو انتخابات غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کے علاوہ سیاست اور صحافت کی بساط ہی لپیٹ دی اور پوری ’قوت‘ سے مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ مارچ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ سے صدارتی ریفرنڈم اور آٹھویں آئینی ترمیم کی توثیق کا خراج وصول کیا نیز ’بحال شدہ جمہوریت‘ کو انتقال اقتدار کی بجائے ’شراکت اقتدار‘ قرار دیا۔ شراکت اقتدار کا یہ نسخہ سکندر مرزا کی کنٹرولڈ جمہوریت اور 2018 ءکے ہائبرڈ بندوبست کی درمیانی منزل تھا۔ بائبل مقدس میں مرقوم ہے، ’تم نے مسموم ہوائیں کاشت کی ہیں، تم بگولوں کی فصل کاٹو گے۔‘ 2008 سے 2018 تک جو فصل کاشت کی گئی، اسے ناگزیر طور پر اکتوبر 2021 کے بحران اور 9 مئی 2023کے آتش فشاں میں ڈھلنا تھا۔ اب بھی مناسب یہی ہے کہ دستور کی عمل داری کو موقع دیا جائے۔ رائے عامہ میں موجود تمام سیاسی دھاروں کو شفاف طریقے سے انتخابی نتائج میں منعکس ہونے دیا جائے۔ آج وہ چہرے تو قومی منظر سے غائب ہو چکے جو کبھی موروثی سیاست پر گل افشانی کرتے تھے، کبھی تیسری سیاسی قوت کی خواب گری کرتے تھے اور کبھی چھ ہزار پھانسیوں کی نوید سنایا کرتے تھے۔ اب اس قوم کو پھانسی کی پاڑ سے اتار کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا موقع دینا چاہیے۔ معیشت کے بنیادی مسائل قلیل مدتی نسخوں سے حل نہیں ہوا کرتے۔ ہم نے جمہوریت کے خوف میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ آلودگی سے پاک جمہوریت کا ایک تجربہ کرنے میں کیا ہرج ہے؟

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author