عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کچھ بدلا ہے یا کچھ بدلنے کی توقع؟ ریورس گیئر، تبدیلی یا پھر سیاست میں تطہیر کا عمل۔ جو بھی ہے اسے حالات کا تقاضا کہیں یا مستقل خود فریبی۔ پاکستان میں سیاست اب باقاعدہ ایک سائنس بن چکی ہے اور اُس سے زیادہ حساب۔ سیاسی الجبرا میں ایک ہی مشق ہے جو بار بار ہوتی چلی آ رہی ہے، جمع تفریق اور اُس پر حاوی الجبرا۔۔ مشق کل بھی جاری تھی آج بھی جاری ہے۔
انتخابات کی جمع تفریق قطعی طور پر ایک مختلف سائنس ہے، مقبولیت اس کا پیمانہ نہیں مگر قبولیت اس کی آزمائش ضرور ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بے حد مقبول الجبرا ’الیکٹیبلز‘ ہیں جو ہواؤں کے رخ کے موافق چلتے ہیں اور صرف مفاہمت کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔
قصہ مختصر انتخابات سے قبل ہی آنے والی حکومت کا اندازہ ان ’ہمیشہ جیتنے والوں‘ کی تحریک سے معلوم کیا جا سکتا ہے یا یوں سمجھیے کہ یہ وہ ’نقیب‘ ہیں جن کے پیروں کے نشان اقتدار کا پتہ دیتے ہیں۔ کھوجی ان کی کھوج میں رہتے ہیں اور ہر انتخاب سے پہلے ان کی چال شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی جھولی میں یہ آ گریں وہ سکندر مگر یہ اشارے بنا جھولی میں گرتے بھی نہیں۔
خاص ہیں ترکیب میں یہ ’الیکٹیبلز‘ جن کو عرف عام میں لوٹا اور شائستہ زُبان میں موقع پرست کہا جاتا ہے۔ جن کا نظریہ اقتدار اور بیانیہ ’انحصار‘ ہے۔
یہی وہ خاص ترکیب ہے جو ہر سیاسی جماعت اپنی انتخابی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہتی ہے اور اقتدار کے حصول کا پہلا مرحلہ یہی قرار پاتا ہے۔ بلوچستان میں 2013 میں ن لیگ کا حصہ بننے والے الیکٹیبلز 2018 کے انتخابات سے قبل ہی تب پیپلز پارٹی کی مدد سے ن لیگ سے الگ ہوئے جبکہ اٹھارہ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بجائے تحریک انصاف کے حصے آئے۔ جنوبی پنجاب کے معروف ’الیکٹیبلز‘ کو بھی تحریک انصاف کے حوالے کر دیا گیا۔ بلوچستان شروع سے ہی ’مقتدر‘ حلقوں کی انتخابی جنت ہے جبکہ تاثر ہے کہ اس جنت کا ٹکٹ بھی طاقتور حلقوں سے ہی ملتا ہے۔
اس بار بھی بلوچستان سے درجن بھر ’الیکٹیبلز‘ ن لیگ کا حصہ بننے کو تیار ہیں جبکہ سندھ میں ایسی ہی ’چائنہ کٹنگ‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی مخالف محاذ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ بظاہر کوشش ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو پہلے سے کم نشستیں حاصل ہوں اور ایک مضبوط اپوزیشن بھی سندھ میں دستیاب رہے۔ اب اس نظرِ کرم کی وجہ محض ن لیگ کو کامیاب کرنا ہے یا پیپلز پارٹی کی سندھ میں واضح اکثریت کو توڑنا اس بارے خدوخال تا حال غیر واضح ہیں۔
اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اُن کی خاموشی اک پیغام بنتی جا رہی ہے۔ اس ’خاموشی‘ کی ایک زبان بھی ہے اور شاید قیمت بھی۔۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی انتخابی اتحاد کا حصہ بننا پیپلز پارٹی کے لیے ایک اہم کارڈ ثابت ہو سکتا ہے جو طاقتور حلقوں کو کسی صورت قبول نہ ہو گا تاہم پیپلز پارٹی ابھی ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔
ن لیگ ’آنکھ کا تارا‘ ہے اور چاند اپنے محور سے ہٹ کر تارے کے گرد گھوم رہا ہے۔ طاقت کے اس محور میں ضرورت سب سے بڑی ایجاد ہے۔ ن لیگ نے فی الحال سیاست میں ’نظریہ ضرورت‘ کو ہی ڈھال بنا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے الیکٹیبلز سے ابتداء ہو رہی ہے۔
پنجاب کی سیاسی مجبوریوں کے باعث ’روایتی الیکٹیبلز‘ سے مُنھ موڑا گیا جو اب استحکام پاکستان کا حصہ ہیں تاہم جن حلقوں میں الیکٹیبلز مضبوط ہیں وہاں اب بھی اُسی نظریہ ضرورت سے کام لیا جائے گا جس سے ماضی میں تحریک انصاف نے فائدہ اُٹھایا تھا اور پھر ایک صفحے کی وہ حکومت تشکیل دی تھی جو بمشکل ساڑھے تین برس چلی۔
دوسری جانب ن لیگ تحریک انصاف کے تتر بتر ہونے اور عمران خان کے سیاست سے غائب ہونے کا فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔ ایسے میں کیا تحریک انصاف کے لیے انتخابی کھلاڑی، حلقے کی سیاست میں سرگرم کارکنوں، انتخاب کے دن وسائل یہاں تک کہ پولنگ ایجنٹ جیسے لوازمات دستیاب ہوں گے؟ تحریک انصاف کے لیے نا صرف یہ بڑا چیلنج ہے بلکہ اصل امتحان بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر