وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ جہاں آباد کے شاعر نے تو ’میر کیا سادہ ہیں۔ ‘ کے آب دار ٹکڑے میں اپنی تہ دار شکست تسلیم کر لی تھی لیکن یہاں اشارہ دلی والے میر صاحب کی طرف نہیں۔ ہمارے ہم عصر حامد میر صاحب کا ذکر ہے۔ حامد میر صف اول کی صحافت میں 36 سالہ پیشہ ورانہ تجربہ ہی نہیں رکھتے، تاریخ کا مطالعہ بھی ان کی جولاں گاہ ہے۔ خبر اور تاریخی شعور کے اس گہرے چشمے سے سیاسی حرکیات کا فہم و ادراک کشید کرتے ہیں۔ حامد میر اور آپ کا نیاز مند ماہ و سال کے اعتبار سے ہم عمر ہیں۔ افتاد طبع میں فرق ہو تو ہو، ملکی معاملات کے حتمی تجزیے میں اختلاف رائے کم کم ہی ہوتا ہے اور آج بھی نہیں ہے۔ بس یہ ہوا کہ برادر عزیز کے حالیہ کالم میں ایک جملے پر نظر ٹھہر گئی۔ لکھا کہ ’پاکستان بدل چکا ہے۔ ‘ فوری ردعمل میں فیض صاحب یاد آئے۔ ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یونہی پذیرائی/ جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی۔ پھر کہیں سے ناصر کاظمی کی آواز کان میں آئی، ’ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے / ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر‘ ۔ حافظے کے گرد آلود ملبے سے شریف کنجاہی دھیان میں آئے، ’خورے اوس ویلے نوں ساڈیاں پرتن چا تقدیراں / بدلن جیون چالے‘ (شاید وہ وقت آنے تک ہماری تقدیر بدل جائے، ہمارے طور طریقے بدل جائیں۔ ) سندھو کی موجوں پر خوابوں کی نیا کھینے والے شیخ ایاز کی بازگشت گونجی، ’بارشیں ہوں گی / رہ ہستی سے دھل جائے گی دھول / اور گہرے سرخ پھول / جب کھلیں گے، تب ملیں گے‘ ۔ حامد میر کی رائے اپنی جگہ، مجھے باور نہیں ہوتا کہ پاکستان بدل گیا ہے۔ کم از کم اس رنگ میں نہیں بدلا، قافلہ درد جس کی آرزو لے کر چلا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف منی پلانٹ کی بالشت بھر بیل تھی جسے اپریل 1996 میں ایک گملے میں لگا کر گرین ہاؤس کے کونے میں رکھ چھوڑا تھا۔ اواخر 2006 ءمیں مشرف آمریت پر وہ مرحلہ آ گیا جہاں آمر کی ذاتی خواہشات اور ادارے کے دائمی مفادات میں ناگزیر خلیج نمودار ہوتی ہے۔ ہم نے یہ مرحلہ 1969 کے موسم سرما میں دیکھ رکھا ہے۔ دسمبر 1971 میں اسی کشمکش نے یحییٰ خان کو ریسٹ ہاؤس کی حفاظتی نظربندی تک پہنچایا تھا۔ 1988 کے موسم گرما میں یہی تمثیل کھیلی گئی۔ مارچ 2007 میں تین بنیادی محرکات پس پشت کارفرما تھے، چناب فارمولا، میثاق جمہوریت اور پرویز مشرف کے آئندہ صدارتی عزائم۔ دسمبر 2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے میثاق جمہوریت کی شہر پناہ منہدم ہو گئی۔ لال مسجد آپریشن اور عدلیہ بحالی تحریک تو دست اعجاز کی ہنرمندی کا اظہار تھے۔ مارچ 2009 کا معاہدہ بھوربن سبوتاژ ہو گیا۔ نومبر 2008 کے بمبئی حملے کارگل آپریشن کی باردگر رونمائی تھے۔ دوبئی میں این آر او پر مذاکرات کرنے والے ہی نے این آر او کو حرف دشنام میں بدل دیا۔
میثاق جمہوریت کی مفاہمت کو مک مکا کا مجرمانہ نام دیا گیا۔ اس کے باوجود جمہوری قوتوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم سے دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کیا تو میمو گیٹ کی دھول اڑائی گئی۔ 2013 کے انتخابی نتائج کو روز اول ہی سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ میاں نواز شریف بھلے نام نہیں لیں لیکن 2014 کے دھرنوں کی لوح پر مشاہد اللہ خان کا نام لکھا ہے۔ 2014 میں جو نالے کھنچ نہیں سکے وہ اکتوبر 2016 میں دم ہوئے۔ اب تو ہدایت کار نے ڈان لیکس کی حقیقت بیان کر دی ہے۔ 14 اپریل 2022 کو میجر جنرل بابر افتخار نے جن خوبصورت ارادوں کا اظہار کیا تھا، ان پر وقت کی دھول جم گئی ہے۔ قومی ذرائع ابلاغ پر 9 مئی کے واقعات کو جو بھی رنگ دیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ یو نائٹیڈ فروٹ کمپنی کے اہلکاروں میں باہم رستاخیز کے آخری معرکے میں پراجیکٹ عمران کا سیاسی روپ حتمی طور پر دم توڑ گیا۔ عمران خان جیل میں ہیں۔ ان کی پارٹی کے رہنما نیپال کی ترائیوں میں نکل گئے ہیں۔ تاہم ان میں کوئی رانی جھانسی ہے اور نہ کوئی تانتیا ٹوپے۔
21 اکتوبر کو میاں نواز شریف کی آمد اور مینار پاکستان پر جلسہ خوش آئند سہی لیکن قومی تاریخ میں رائے عامہ کے دو دھارے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں انتخابی مسابقت اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ سیاسی منظر پر عمران خان کی جماعت بھلے منہدم ہو چکی ہے، عوام کے ایک معتدبہ حصے میں ان کی حمایت موجود ہے۔ قوم کے اس سیاسی اظہار کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ پردوں کی اوٹ میں شراکت اقتدار کی غیر دستوری، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی مشق جاری رہے۔ اس سے آئندہ سیاسی بندوبست مستحکم نہیں ہو سکے گا۔ ملکی معیشت پائیدار بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکے گی۔ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بحال نہیں ہو سکے گا۔ عوام کی تائید میاں نواز شریف کو ملے یا کسی دوسری سیاسی طاقت کو، ایک منقسم پارلیمنٹ معیشت، خارجہ امور اور آئینی گرہوں پر بنیادی فیصلے نہیں کر سکے گی۔ بلوچستان کو سیاسی عمل کے ذریعے قومی دھارے میں واپس لانا ممکن نہیں ہو گا۔ مغربی سرحد پر دہشت گردی سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔
انتخابات کا انعقاد بے حد ضروری ہے لیکن اس عمل کی شفافیت سے 2018 کی پرچھائیاں ہٹانا ضروری ہے۔ ان دنوں ذرائع ابلاغ میں پریس کانفرنسوں کی بے معنی مشق سے 1930 کی دہائی کے ماسکو ٹرائل، مشرقی پاکستان میں 1971 کے موسم خزاں میں ضمنی انتخابات اور بنوں میں قانون شکن عناصر کے نرغے میں کھڑے بیالوجی کے استاد پروفیسر شیر علی کے حلفیہ بیان کی کیفیت جھلکتی ہے۔ 21 اکتوبر کو میاں نواز شریف کے خطاب میں بہت سے خوش کن اشارے تھے لیکن اس کے پیچھے اس عوامی ابھار کی دھڑکن سنائی نہیں دی جو ہم نے 10 اپریل 1986 اور 18 اکتوبر 2007 کو محسوس کی تھی۔ حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان بدل چکا۔ شاید ایسا ہی ہو مگر یہ وہ تبدیلی نہیں جس سے فروغ گلشن اور صوت ہزار کا موسم نمودار ہوتا ہے۔ ابھی بے انت رات کے اندھیرے میں اندر کا دیا جلانے کی رت ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر