دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بزنس کلاس؟ ایہہ میں کتھے آ گئی؟ قسط نمبر تین!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

آج سے پہلے ہم ہمیشہ دائیں طرف ہی جاتے تھے، قطار میں سے نکل کر بائیں طرف مڑے تو کن اکھیوں سے دوسری طرف جانے والوں کو دیکھا۔ اف، چھوٹی سی سیٹ میں آٹھ گھنٹے، گھٹنے موڑ کر بیٹھیں گے یہ۔ بی بی، آج سے پہلے تم بھی ایسا ہی کرتی ہو، دل نے گھرکا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ائرلائن کے کاؤنٹر پہ ایک دبلی پتلی معصوم شکل والی لڑکی ہمارا پاسپورٹ لے کر کافی دیر الٹتی پلٹتی رہی۔ پھر پوچھنے لگی، کیا تمہارے پاس شینگن ویزا ہے؟ ہمیں ہنسی آ گئی، جھلی نہ ہو تو۔ بغیر شینگن ویزا کے کیا ہم جھک مارنے یہاں آ پہنچے ہیں؟ ارے بٹیا رانی یورپ کی طرف ڈنکی لگانے کا کوئی شوق نہیں۔ بالی عمریا ہوتی تو بات بھی تھی، اب اس عمر میں یورپ کی سڑکوں پہ غیر قانونی تارک وطن بننے سے تو بہتر ہے کہ قرض کی مے پی کر ہی فاقہ مستی میں رنگ بھرنے کی کوشش کریں۔ شینگن ویزا نکال کر اس کے سامنے کیا۔ لیکن کیا ہے کہ کبھی کبھار تاؤ کھا کر ہم جھکی بڑھیا بن جاتے ہیں سو ساتھ ہی سوال داغ دیا، تمہارا کیا خیال ہے شینگن کے بغیر ہم بھلا یہاں آتے؟ بہت آتے ہیں۔ وہ مسکرائی۔ ہائے، کیا کریں؟ تمہیں کیا پتہ کہ ہمارے ملکوں میں یورپ جا کر مزدوری کرنے کا بخار کس قدر عام ہے۔

 

کافی دیر وہ کمپیوٹر پہ کھٹ پٹ کرتی رہی، پھر فون اٹھایا اور دھیمی آواز میں کچھ بات کرنے لگی۔ کچھ دیر پہلے جو تاؤ ہم نے کھایا تھا اب وہ اشتعال میں بدل رہا تھا۔ کیا کرنا چاہتی ہے یہ آخر؟ ضرور کام نہیں آتا اسے۔ اناڑی کو بٹھا دیا۔ سفر کے آغاز میں ہی برا شگون۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ اگر وہ ٹیلی پیتھی جانتی تو ہمارے خیالات جان کر کبھی وہ نہ کرتی جو وہ کر رہی تھی۔ سامان؟ اس نے پوچھا ہم نے ہینڈ کیری بڑھا دیا۔ بس یہی۔ اس نے حیرانی سے پوچھا۔ ہاں، اجازت نہیں تھی۔ وہ مزید حیران ہوئی لیکن یہ سوچ کر چپ رہی کہ بڑھیا خبطی نظر آتی ہے۔ یہ رہا تمہارا بورڈنگ پاس۔ میں نے تمہیں بزنس کلاس میں ٹرانسفر کر دیا ہے۔ واؤ۔ کیا بات ہے۔ بٹیا رانی۔ جی چاہ رہا ہے تمہارا منہ چوم لیں۔ تم نے شاید ہمارا چہرہ پڑھ لیا کہ ہم کس قدر نڈھال ہیں اور نیند کے مارے بے حال بھی۔ شکریہ ادا کیا اور آگے بڑھے۔

بزنس کلاس کا بورڈنگ ہاتھ میں پکڑ کر گردن تھوڑی سی تن گئی تھی اور ہم باقی سب مسافروں کو نخوت سے دیکھ رہے تھے۔ سکیورٹی سے گزرنے لگے تو اس نے کہا آپ کے ذمے کچھ قرض واجب الادا ہے، پہلے وہ تو ادا کر دیجیے۔ ہائیں بھیا کب قرض لیا ہم نے تم سے؟ قرض۔ مطلب ٹریفک چالان۔ بیڑا غرق ہو ہمارے دائیں پاؤں کا۔ جب ایکسلیٹر سے گلے ملتا ہے تو ایسی گھٹ کے جپھی ڈالتا ہے کہ گاڑی ایک سو چالیس پہ دوڑنے لگتی ہے۔ ایک سو پینتیس کی سپیڈ پہ سڑک پہ لگے کیمرے کو آپ خوبصورت لگنے لگتے ہیں اور وہ ٹھک سے تصویر کھینچ لیتا ہے۔ ایک تصویر کی قیمت ہے دس ریال یعنی مبلغ ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے۔ اس بار ہماری دو تصویریں کھنچی تھیں سو بیس ریال ادا کیے اور ہمارا قرض ادا ہوا۔

 

بزنس کلاس کا بورڈنگ پاس ہاتھ میں تھا۔ سوچا آج ہم بھی بزنس لاؤنج میں ویسے جائیں گے جیسے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ لاپروا نظر آنے کی ایکٹنگ جیسے ائرپورٹ پہ بس آپ ہی آپ ہوں، چال میں کچھ لٹک مٹک، ائر پوڈز کان میں، میوزک سنتے ہوئے ہلتا ہوا سر، خوشبوؤں سے مہکتا ہوا سراپا، برینڈڈ جوتے کپڑے اور بیگ۔ ہائے بیڑہ غرق، نہ کپڑے برینڈڈ ہیں نہ بیگ۔ جوتے ضرور نائیکی کے ہیں مگر پرانے۔ گھر سے نکلتے ہوئے جلدی میں پرفیوم بھی نہیں چھڑکا۔ چلو بی بی، اب ایسے ہی گزارہ کرو۔ سمجھ جائیں گے لاؤنج والے بھی کہ تم مفتے والی ہو۔ بزنس لاؤنج کی ریسیپشن پہ بیٹھی فلیپینو نرس آنکھیں میچتے ہوئے ہمیں دیکھا۔ یا شاید ہماری اوور سینسیٹوٹی ذہن میں بیج بو چکی تھی کہ سب ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اچھا بھئی دیکھ لو جی بھر کے۔ ائرلائن نے فیور کی ہے، تمہاری جیب سے تو کچھ نہیں نکلا نا۔

لاؤنج میں اس انواع و اقسام کے کھانے تھے کہ شک ہونے لگا کیا بزنس کلاس میں سفر کرنے والے گھر سے بھوکے آتے ہیں؟ خیر ہم کچھ نہیں کھا سکتے تھے کہ ہدایت نامے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ ائرپورٹ اور جہاز کے اندر ہم ماسک نہیں اتاریں گے۔ بھانت بھانت کے لوگ، نہ جانے سانس میں کیا کچھ لیے پھرتے ہیں۔ سو ہماری اولاد کا کہنا یہ ہے کہ بیمار ہونے سے بہتر ہے کہ اپنی سانس میں کسی کی سانس ملنے نہ دیں۔ سو بیٹھے رہے حسرت جاناں لیے ہوئے۔ کے مصداق دیکھتے رہے۔ فلائٹ اناؤنس ہوئی تو بزنس کلاس والوں کو پہلے بلایا گیا۔ پچیس تیس لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے، بورڈنگ پاس چیک کرنے والوں کے چہرے پہ ضرورت سے زیادہ مسکراہٹ اور لہجے میں مصنوعی حد تک شیرینی تھی۔ جہاز تک جانے کے لیے بڑی راہداری آگے چل کر دو شاخہ ہو جاتی تھی۔ غریب کلاس والے دائیں ہاتھ اور امیر بائیں ہاتھ۔

آج سے پہلے ہم ہمیشہ دائیں طرف ہی جاتے تھے، قطار میں سے نکل کر بائیں طرف مڑے تو کن اکھیوں سے دوسری طرف جانے والوں کو دیکھا۔ اف، چھوٹی سی سیٹ میں آٹھ گھنٹے، گھٹنے موڑ کر بیٹھیں گے یہ۔ بی بی، آج سے پہلے تم بھی ایسا ہی کرتی ہو، دل نے گھرکا۔ آج کیوں اتنی رقیق القلب ہو رہی ہو؟ جہاز کے دروازے پر ائر ہوسٹس اس تپاک سے ملی کہ پتہ نہیں کب کے بچھڑے آج یہاں آ کر ملے۔ بزنس کلاس میں ہر مسافر کے لیے علیحدہ کیبن نما سیٹ، سامنے ٹی وی، ٹی وی کے نیچے ایک دراز میں نرم ملائم ریشمی کمبل اور چھوٹی چھوٹی کریموں کی شیشیوں سے بھرا ایک بیگ۔ سیٹ کی سائیڈ پر ایک پینل تھا جس پہ اشاروں کے ساتھ لگے بٹن بتاتے تھے کہ کون سا بٹن دبانے پہ سیٹ آرام کرسی بنے گی اور کس سے پورا بستر۔ ابھی ہم بٹنوں کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ ائر ہوسٹس نے شیریں لہجے میں پوچھا، آپ کیا پینا پسند کریں گی؟ یہ کہتے ہوئے ایک کارڈ ہمارے سامنے لہرایا جس پہ مشروبات کے نام لکھے تھے۔ ہم نے ایک نظر اس کارڈ پر ڈالی، دوسری ائر ہوسٹس پر اور دھیرے سے کہا کچھ نہیں۔ وہ سمجھی شاید ہماری طبیعت خراب ہے، گھبرا کر بولی، آپ ٹھیک ہیں نا؟ بھولی بی بی، ہم نہ صرف ٹھیک ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ٹھیک ٹھاک کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ پر اس کو کیا سمجھاتے بس اشارے سے کہہ دیا، ہاں ہاں، فکر نہ کرو تم۔ کیا کہتے کہ حکم حاکم ہے، فلائٹ میں چہرے سے ماسک نہیں اترے گا۔ ہماری طرف سے مایوس ہو کر وہ دوسروں کی طرف مڑ گئی۔

 

بائیں طرف کے کیبن میں ایک سفید فام بابا جی بیٹھے تھے، کھانسی جنہیں چین نہیں لینے دیتی تھی مگر مفت کی مے وہ کیوں نہ پیتے؟ سو کبھی شیمپین منگواتے تو کبھی وائن۔ اللہ اللہ۔ دائیں طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہاں بھی یہی عالم تھا۔ ارے بھئی جہاز جلدی اڑاؤ، ہم اس عالم رنگ و بو میں چین کی نیند سونا چاہتے ہیں، اور کچھ نہیں تو بستر کا فائدہ تو اٹھائیں۔ جہاز نے ٹیکسی کی، فضا میں بلند ہوا اور لیجیے ہم ہوئے دراز بستر پہ۔ اوڑھا ریشمی کمبل، دعائیں دیں کاؤنٹر والی لڑکی کو اور ہو گئے انٹا غفیل۔ بیچ بیچ میں آنکھ چھری کانٹوں کی ٹکا ٹک سے کھلتی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو لوگ باگ سات گھنٹے یا کھاتے رہے یا پیتے رہے۔ کمال کی بیبیاں تھیں کہ کسی کے ماتھے پہ ہلکا سا بل بھی نہ پڑا۔ ہمیں رہ رہ کر پیچھے بیٹھے لوگ یاد آتے رہے جن کے سامنے کھانا یوں پٹخا جاتا ہے کہ لو کھاؤ مرو۔ چائے یا کافی دوسری بار مانگ لی جائے تو ایک تیوری چڑھا کر جواب ملتا ہے، ابھی جہاز کو جھٹکے لگ رہے ہیں، تسی آرام نال بوو (آپ آرام سے بیٹھیں)۔ ہائے ہائے غریب لوگ۔ اور آج ہم ان سے دور ریشمی کمبل میں لپٹے، ٹانگیں دراز کیے نرم تکیے پر سر رکھے خراٹے بھر رہے تھے۔ صبح ہونے والی تھی جب ایک ائر ہوسٹس نے آ کر پوچھا، ناشتہ لاؤں۔ نہیں۔ تم نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا۔ ہمارا جواب سن کر اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ ہماری کھوپڑی کا ڈھکن اتار کر جھانک کر دیکھے کہ اندر کچھ ہے بھی کہ نہیں؟ جہاز لینڈنگ پوزیشن بنا رہا تھا۔ ہم نے بستر سیدھا کیا، بیلٹ باندھی اور فرینکفرٹ اترنے کے لیے تیار ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author