ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی زندگی میں ایک اور موڑ تب آیا جب ثانیہ اور امثال نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن کچھ ہی ہفتوں میں اس تعلق کی بدصورتی سامنے آ گئی۔ امثال کی محبت اپنی جگہ مگر اس کے گھر والوں کو ثانیہ کے رہن سہن پر سخت اعتراض تھا۔ اس کے سگریٹ پینے، گھر سے باہر نکلنے اور ملنے ملانے پر پابندی تھی۔ والدہ اور بہنیں تو بدسلوکی کرتی ہی تھیں، امثال کا رویہ ”ایک گال پہ بوسہ ایک گال پہ تھپڑ“ جیسا تھا۔
یہ شادی کچھ عرصہ چلنے کے بعد علیحدگی پر ختم ہو گئی۔ اور ثانیہ امثال اور اس کے خاندان کو یوں یاد کرتی ہے :
”اس کے گھر والوں کے نزدیک میں انسان نہیں تھی، شادیاں کرنے والی، داشتہ، بچے چھوڑنے والی اور شوہر چھوڑنے والی ایک ایسی عورت جس نے ایک اور عورت کا بیٹا اور دوسری کا بھائی چھین لیا تھا۔
اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی میں اس گھر تک نہیں پہنچ سکی جسے اپنا کہہ سکوں۔ میں نے کتنے گھر بدلے ہیں، کتنے بستر بدلے ہیں، کتنے ہی لوگوں کو اپنا کہا ہے، کتنے مردوں میں اپنے شوہر کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب تک وہ مرد نہیں ملا جو میرا ہو، ہر مرد شوہر بنتے ہی بدل جاتا ہے۔ یہ باقاعدہ شادی بڑی مہنگی ہوتی ہے آدمی کی ہڈیوں سے رس تک نچوڑ لیتی ہے۔ عورت اپنا سب کچھ دے کر بھی اپنے آپ کو خرید نہیں سکتی، واپس آنے کے لیے میں دہکتے ہوئے ان دنوں پر ماتم کرتی ہوئی آئی ہوں جن میں ہر دن سو سو سال کا تھا۔ ”
ثانیہ شادی ختم ہونے کے بعد بہت منتشر نظر آتی ہے۔ اس کا ہر جملہ ایک سوال ہے، اپنے آپ سے بھی اور ہر اس شخص سے بھی جو اسے ملتا ہے۔ ثانیہ مدیحہ کو بتاتی ہے کہ اس کا نفسیاتی علاج ہو رہا ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ کہتی ہے :
”جو عورت مردوں کے بنائے ہوئے سانچوں سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے اس کے بارے میں سارے مرد یہاں تک کہ عورتیں بھی کہنا شروع کر دیتی ہیں کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے بس کولہو کے بیل کی طرح چلتی رہو، چکی کے پاٹوں میں گندم کی طرح پستی رہو چپ چاپ تو ٹھیک۔
عورت کیا ہے؟ کیا عورت اس لیے عورت ہے کہ اس کے جسم کی بناوٹ مرد سے مختلف ہے؟ اس کے جسم کا ایک حصہ کوکھ کہلاتا ہے جس میں وہ مرد کا نطفہ محفوظ کرتی ہے یا اس کے سینے پر دو ابھار ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ اس نطفے کی پرورش کی ابتدا کرتی ہے اور ان ابھاروں کی وجہ سے مرد کو خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔
کیا عورت بس اتنی ہی انسان ہے؟ کیا اس کی روح نہیں ہوتی؟ کیا وہ مردوں کی طرح انسان نہیں ہوتی؟ بس جنسی لذت اور بچے پیدا کرنے کی ایک مشین ہوتی ہے صرف حکم بجا لانے والا روبوٹ ہوتی ہے ”
ہمیں علم نہیں کہ ثانیہ مریض تھی، یا اس کو ملنے والے وہ لوگ جنہوں نے اسے وہ زندگی گزارنے پر مجبور کیا جس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ وہ ایک چھوٹی بچی نوعمری اور معصومیت سے بھرے بچپن میں زندگی کے تیرہویں برس کو ویسے ہی جی رہی تھی جیسے لوئر کلاس کی بچیاں اپنے آپ سے بے خبر زندگی گزارتی ہیں۔
ثانیہ پانچ بہنوں میں تیسری، ایک کوچوان کی بیٹی تھی جو کرائے کا تانگہ گھوڑا چلاتا تھا۔ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ رشید کوچوان کو اپنی بیٹیاں بچپن میں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں لیکن پہلی دو بیٹیوں کی شادی نے اس کی کایا کلپ کر دی۔ کبری اور صغری کی شادی اس نے بیس ہزار کے عوض کی اور تب جانا کہ بیٹی تو اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ چرس اور شراب پی کر شیدا کوچوان بیٹیوں کے گن گاتے نہ تھکتا۔
ثانیہ تیرہ برس کی تھی جب اس کے باپ نے پیسے لے کر اس کا رشتہ بھی طے کر دیا۔ ثانیہ کی ماں کی یہ بات وہ سننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ لکڑی کچی ہے بوجھ پڑا تو ٹوٹ سکتی ہے۔ وہ تو ساری بات بازار کی روشنی میں کر رہا تھا اور بازار میں کچی لکڑی کا بھاؤ زیادہ تھا۔ سوکھ گئی تو خود بھی آگ پکڑ سکتی ہے پھر کہاں کی لکڑی اور کہاں کے دام!
ایک رات پچھلے کمرے سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے روئی دھنکی جا رہی ہو۔ جوں جوں روئی دھنکنے کی آواز بلند ہو رہی تھی، ثانیہ کی ماں گھٹی گھٹی چیخیں بھی باہر تک آ رہی تھیں۔
ثانیہ کا باپ چیخ رہا تھا، تو کیا سمجھتی ہے کہ اگر تو نہیں مانے گی تو میں رک جاؤں گا اب شادی اسی مہینے میں ہو گی۔
اور اماں سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی، شیدے، خدا کے خوف سے ڈر، ثانیہ اس قابل نہیں، کچھ ہو گیا تو کیا کرے گا؟ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔
نہیں دکھانا میں نے کسی کو منہ۔ ہو گا وہی جو میں چاہوں گا۔
نہیں مانوں گی تیری میں اس معاملے میں، نہیں ملاؤں گی تیری ہاں میں ہاں، تجھے لالچ ہو گیا ہے۔
ابا کی جوتی چلنے کی آواز آنے لگی۔ جیسے روئی دھنکی جا رہی ہو۔ جیسے جیسے آواز تیز ہوتی، اماں درد بھرے لہجے میں نہیں نہیں کہہ رہی تھی اور ابا اپنی بات کہے جا رہا تھا۔
”پاؤں کی جوتی ہوتی ہے عورت اور میں نے تجھے سر چڑھا لیا۔ اوپر تلے پانچ بیٹیاں پیدا کیں تو بھی میں نے کچھ نہیں کہا۔ میں زبان دے چکا ہوں کل وہ آئیں گے ان کے سامنے کوئی الٹی سیدھی بات کی تو ہڈی پسلی ایک کر دوں گا“
ثانیہ کا باپ ثانیہ کی قیمت شادی کے نام پر وصول کر چکا تھا اس لیے ماں کی کوئی بات سننے پہ تیار نہیں ہوا۔ وہی ہوا جو باپ نے چاہا کہ ثانیہ کی شادی تیرہ برس کی عمر میں کر دی گئی۔ اس کے شوہر کی یہ دوسری شادی تھی۔
شادی کی پہلی رات ہی شوہر نے اس بے رحمی سے ازدواجی تعلق قائم کیا کہ تیرہ برس کی ننھی بچی بے ہوش ہو گئی اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔
اور بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی۔ ازدواجی معاملات میں ارشد جنسی مریض تھا۔ کمرہ بند کرتے ہی وہ اس پر ٹوٹ پڑتا، اسے جگہ جگہ سے چومتا چاٹتا اور کبھی کبھی اتنے زور سے نوچتا کہ درد اور اذیت کے مارے اس کے آنسو نکل آتے۔ ثانیہ کو جتنی تکلیف ہوتی، وہ اتنا ہی خوش ہوتا۔ ساری رات جب تک وہ بالکل تھک نہ جاتا، اور ثانیہ کو ادھ موئی نہ کر دیتا، یہ کھیل جاری رہتا۔ ہر بار ارشد نئی ترکیبیں آزماتا۔
جب وہ دوپہر میں گھر کھانا کھانے آتا، اس وقت بھی وہ کھانا بعد میں کھاتا، پہلے اسے کھینچ کر کمرے میں لے جاتا، اپنے ساتھ اسے نہلاتا، دانتوں سے نوچتا، اور پھر تھک ہار کر دکان پہ چلا جاتا۔
جب وہ حاملہ ہوئی تو اس نے نوچنا کھسوٹنا تو بند کر دیا لیکن سارے کپڑے اتروا کر کمرے میں ٹہلاتا اور غیر فطری طرز مباشرت سے خواہش پر اصرار کرتا۔
اس میں کچھ وقفہ زچگی کی وجہ سے آیا لیکن ڈلیوری کے بعد وہ ثانیہ پہ کسی بھوکے کی طرح ٹوٹ پڑا اس کی آنکھیں جنسی شدت سے باہر کو ابلی پڑ رہی تھیں۔ وہ اسے بری طرح روند نا چاہتا تھا۔
آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ ثانیہ کا جسم اس جنسی بھوک کا عادی بن گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ شاید مرد عورت کے بیچ تعلق ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب وہ ان باتوں پہ کوئی اعتراض نہ کرتی جن سے اسے تکلیف ہوتی تھی۔ مسلسل جنسی تشدد نے اس کی ذہنی حالت تبدیل کر دی، اسے ایسا لگتا تھا کہ اس کے جسم میں کوئی آگ ہے اور جی چاہتا ہے کہ یہ آگ ہر وقت جلتی رہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر