رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کیوں اس ملک میں بجلی کا مسئلہ حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ڈھونڈا گیا کہ اب پانی یا ڈیمز کے بجائے تیل ‘ گیس یا کوئلے پر بجلی بنائی جائے گی۔ مان لیا گیس اور کوئلے پر بجلی سستی بنتی ہوگی اور ایل این جی امپورٹ کے پیچھے بھی یہی کہانی تھی کہ اس کے ذریعے پاور پلانٹس سے سستی بجلی پیدا ہوگی ‘ لیکن جب آپ گیس اور کوئلہ امپورٹ کررہے تھے تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے بجلی پیدا کرنے کے لاگت نہیں بڑھے گی؟ کسی نے نہیں سوچا کہ آخر کار کوئلے اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی بھی اتنی مہنگی ہو جائے گی جتنی تیل سے پیدا ہونے والی مہنگی تھی۔
اس ملک کے ساتھ یہ بھی ظلم ہوا کہ بعض پاور پلانٹس کے ساتھ ایسے حیران کن معاہدے کیے گئے کہ انہیں فیول بھی خرید کر حکومت پاکستان دے گی اور پھر اگر ان کی پیدا کی گئی بجلی استعمال نہ ہوئی تو ادائیگی بھی پوری کی جائے گی اور ریٹ بھی ڈالروں میں لگے گا۔یوں پاور پلانٹس نے اربوں نہیں بلکہ کھربوں کمائے۔ آپ جتنی بھی سستی بجلی پیدا کر لیتے اس کا فی یونٹ ریٹ ڈالرز سے ہی جڑا تھا‘ لہٰذا جب تک ڈالر کا ریٹ نواز شریف کی تیسری حکومت میں اسحاق ڈار نے ایک سو روپے پر قابو کئے رکھا تو بجلی کے ریٹس کنٹرول میں رہے اور مہنگی بجلی کا شور نہیں مچا۔ اگرچہ بلوں میں کبھی کبھار اضافہ ہوتا تھا جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں اوپر جاتی تھیں‘ لیکن فرق زیادہ نہیں تھا ‘لہٰذا فی یونٹ ریٹ کم رہا‘ کیونکہ جب بجلی کو ڈالر کے ساتھ روپے میں convert کیا جاتا تو ریٹ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ بھارت میں بجلی کا فی یونٹ پانچ سے چھ روپے تک ہے کیونکہ وہاں پاور پلانٹ اس طرح نہیں لگائے گئے جنہیں ڈالروں میں ریٹ دیاجاتا ہو۔ بھارت میں ڈالر ستر‘ اسی روپے پر ہونے کی وجہ سے مہنگائی نے لوگوں کو اتنا Hit نہیں کیا جتنا ہم پر اس کا اثر ہوا۔یوں گیس سے چلنے والے پاور یونٹس بھی بہت جلد بجلی مہنگی پیدا کرنے لگے اور ایک دن عمران خان کے وزیر انرجی عمر ایوب خان نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ گیس پر بننے والی بجلی کا ریٹ بھی چودہ روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا ہے جبکہ تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کا بیس‘ پچیس روپے تک تھا۔ یوں گیس اور تیل سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت کا فرق کم رہ گیا تھا۔ اس کا مطلب بڑا واضح تھا کہ جو یہ سوچ کر گیس منگوائی گئی تھی کہ اس سے انرجی کی ضروریات پیدا ہوں گی اور سستی ہوں گی وہ Mythبھی اب ٹوٹنے والی تھی۔
اب ایک اور بڑا سوال پیدا ہوا کہ پاکستان کے اپنے تیل اور گیس کے ذخائر کہاں گئے؟ 2013ء سے پہلے تک تو ہم گیس میں خودکفیل تھے اور ہم نے ملک کے کونے کونے میں سی این جی سٹیشن کھول کر‘ ہر گاڑی میں سی این جی کٹ لگا کر اس میں گیس بھرنا شروع کر دی تھی۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ گیس بہت قیمتی چیز ہے جسے کارخانوں میں استعمال کر کے کم لاگت کے ساتھ ایکسپورٹ بڑھانی چاہیے تاکہ ہم زیادہ ڈالر کمائیں اور ساتھ ہی اس گیس کو پاور پلانٹس میں استعمال کر کے سستی بجلی پیدا کی جائے اور جن پاور پلانٹس کو فیول امپورٹ کر کے چلایا جارہا تھا انہیں مہنگی بجلی پیدا کرنے سے روکا جائے۔ ہم اتنے سیانے نکلے کہ ساری لوکل گیس ہم نے گاڑیوں میں بھر کر سڑکوں پر اڑا دی اور اب ہم گیس کی کمی پوری کرنے کے لیے ایران‘ ترکمانستان پہنچ گئے۔ساتھ ہی ہم نے قطر سے گیس کا سودا کیا اور یوں ڈالروں میں پہلی دفعہ گیس آنا شروع ہوگئی۔ جب ایل این جی گیس ڈالروں میں آئے گی تو ریٹ بھی ڈالروں میں ہوگا۔ ڈالر اوپر جائے گا تو گیس یا بجلی کا ریٹ بھی اوپر جائے گا۔ ہم سب کی چیخیں اس وقت نکلنا شروع ہوئیں جب نواز شریف کے بعد 2018 ء میں پہلے نگران حکومت نے ڈالر کا ریٹ ایک سو دس سے ایک سو چوبیس کیا اور عمران خان دور میں یہ ریٹ بڑھتے بڑھتے پہلے ایک سو چالیس پھر ایک سو پچاس ‘ پھر ایک سو ساٹھ اور جب خان صاحب گئے تو یہ ریٹ 188 تک تھا‘ لیکن پھر 282 پر سیٹل ہوا۔ اٹھارہ ماہ بعد شہباز شریف حکومت اس ڈالر کو 282 پر چھوڑ کر گئی جبکہ نگران حکومت کے پہلے دو تین ہفتوں میں ڈالر تین سو روپے سے بڑھ چکا ہے۔ اب بتائیں جب آپ کا فیول‘ ایل این جی ‘ کوئلہ سب کچھ امپورٹ ہو کر ڈالروں میں آرہا ہے اور بجلی کا فی یونٹ ریٹ بھی ڈالر کے ریٹ پر طے ہے تو آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ بجلی کا جو ریٹ 2018ء میں تھا جب ڈالر ایک سو روپے کا تھا‘ وہ 2023ء میں بھی وہی ہونا چاہئے جبکہ ڈالر تین سو روپے سے بھی بڑھ چکا ہے؟
اگر آپ کو یاد ہو تو 2013ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں صدر زرداری کے ایک قریبی وزیر دوست جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹرتھے‘ نے سی این جی سٹیشنز کے لائسنسوں کی بھرمار کر دی۔ حالانکہ کچھ عرصہ پہلے پالیسی بنائی گئی تھی کہ اب مزید سی این جی سٹیشن ملک میں نہیں لگیں گے کیونکہ لوکل گیس کم ہورہی تھی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں اس میڈیکل ڈاکٹر نے یہ سب کام مفت میں سرانجام دیا ہو گا؟ وہی بات کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا۔ اپنے ملک کی قیمتی گیس گاڑیوں میں اُڑا دی اور اب ڈالروں میں باہر سے خریدی جارہی ہے اور ڈالر ہمارے پاس نہیں ہیں۔
اس سے بڑا ظلم نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں ہوا جب شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی جوڑی نے ملک میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کے لیے عالمی کمپنیوں کو لائسنس دینے کی رفتار کم کر دی‘ بلکہ کسی حد تک ختم ہی کر دی۔ یوں پرانے ذخائر ہم ختم کرتے گئے اور نئے ذخائر ڈھونڈنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ شاہد خاقان عباسی اور ہمنوا قطر سے گیس کی ڈیل کرچکے تھے۔ پاور پلانٹس کو فیول سپلائی کرنے والوں کو بھی لوکل ذخائر میں دلچسپی کم تھی کیونکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں مال بنا رہی تھیں۔ اگر لوکل طور پر گیس اور تیل کے ذخائر تلاش کئے جاتے تو آپ امپورٹ بل سے بچ جاتے۔ آپ کے ڈالرز بچ جاتے جو آپ باہر سے مانگ کر لاتے ہیں تاکہ امپورٹ بل کی ادائیگیاں کر سکیں۔ آپ کی بجلی مہنگی پیدانہ ہوتی کیونکہ آپ جو اِن پاور پلانٹس کو گیس سپلائی کررہے ہوتے وہ روپوں میں خریدی جاتی اور روپوں میں ہی بجلی پیدا ہوتی۔یوں جان بوجھ کر نئی گیس اور تیل تلاش نہ کیا گیا۔وجہ وہی تھی کہ اب ساری حکومت اور بیوروکریسی پیسہ بنانے میں مصروف تھی اور پیسہ اب پاور پلانٹس میں تھا۔
ایک بھارتی تاجر نے جب بجلی گھروں کو ملنے والے ڈالروں میں ریٹس اور Capacity Chargesاور ان پلانٹس کو ملنے والی رعایتوں پر میرا ٹی وی پروگرام سنا تو اُس نے مجھے میسج کیا اور بولا کہ جو لوٹ مار آپ کے ہاں مچی ہوئی ہے ایسا تو انڈیا میں سوچا تک نہیں جاسکتا۔ وہ کہنے لگا: مجھے بھی پاکستان میں ایسی سرمایہ کاری کی اجازت لے دیں۔ آپ کے بزنس مین سیاستدانوں کے ساتھ مل کر گھربیٹھے حکومت اور لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ وہ بولا: اتنا بڑا پرافٹ دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہے جو آپ کے پاور پلانٹس اونرز حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کما رہے ہیں۔ انہوں نے آپ کے ہاں تو اَـــنی مچائی ہوئی ہے۔ـ جب میں نے ایک دفعہ وہ سٹوری کی کہ دو پرائیویٹ پارٹیوں کے دو ایل این جی ٹرمینلز روزانہ کے پانچ لاکھ ڈالرز پندرہ برس تک لیں گے چاہے وہ استعمال ہوں یا نہیں تو اس انڈین دوست نے کہا کہ آپ لوگ جلد دلوالیہ ہو جائیں گے۔ یہ آپ لوگ کیسے ڈیلیں کررہے ہیں؟جو کام چند ارب روپے کا ہے اس پر آپ ڈیڑھ ارب ڈالرز پرافٹ ان دو پارٹیوں کو دے رہے ہیں۔ آپ لوگ پاگل تو نہیں ہوگئے؟(جاری)
اس ملک کے ساتھ یہ بھی ظلم ہوا کہ بعض پاور پلانٹس کے ساتھ ایسے حیران کن معاہدے کیے گئے کہ انہیں فیول بھی خرید کر حکومت پاکستان دے گی اور پھر اگر ان کی پیدا کی گئی بجلی استعمال نہ ہوئی تو ادائیگی بھی پوری کی جائے گی اور ریٹ بھی ڈالروں میں لگے گا۔یوں پاور پلانٹس نے اربوں نہیں بلکہ کھربوں کمائے۔ آپ جتنی بھی سستی بجلی پیدا کر لیتے اس کا فی یونٹ ریٹ ڈالرز سے ہی جڑا تھا‘ لہٰذا جب تک ڈالر کا ریٹ نواز شریف کی تیسری حکومت میں اسحاق ڈار نے ایک سو روپے پر قابو کئے رکھا تو بجلی کے ریٹس کنٹرول میں رہے اور مہنگی بجلی کا شور نہیں مچا۔ اگرچہ بلوں میں کبھی کبھار اضافہ ہوتا تھا جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں اوپر جاتی تھیں‘ لیکن فرق زیادہ نہیں تھا ‘لہٰذا فی یونٹ ریٹ کم رہا‘ کیونکہ جب بجلی کو ڈالر کے ساتھ روپے میں convert کیا جاتا تو ریٹ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ بھارت میں بجلی کا فی یونٹ پانچ سے چھ روپے تک ہے کیونکہ وہاں پاور پلانٹ اس طرح نہیں لگائے گئے جنہیں ڈالروں میں ریٹ دیاجاتا ہو۔ بھارت میں ڈالر ستر‘ اسی روپے پر ہونے کی وجہ سے مہنگائی نے لوگوں کو اتنا Hit نہیں کیا جتنا ہم پر اس کا اثر ہوا۔یوں گیس سے چلنے والے پاور یونٹس بھی بہت جلد بجلی مہنگی پیدا کرنے لگے اور ایک دن عمران خان کے وزیر انرجی عمر ایوب خان نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ گیس پر بننے والی بجلی کا ریٹ بھی چودہ روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا ہے جبکہ تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کا بیس‘ پچیس روپے تک تھا۔ یوں گیس اور تیل سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت کا فرق کم رہ گیا تھا۔ اس کا مطلب بڑا واضح تھا کہ جو یہ سوچ کر گیس منگوائی گئی تھی کہ اس سے انرجی کی ضروریات پیدا ہوں گی اور سستی ہوں گی وہ Mythبھی اب ٹوٹنے والی تھی۔
اب ایک اور بڑا سوال پیدا ہوا کہ پاکستان کے اپنے تیل اور گیس کے ذخائر کہاں گئے؟ 2013ء سے پہلے تک تو ہم گیس میں خودکفیل تھے اور ہم نے ملک کے کونے کونے میں سی این جی سٹیشن کھول کر‘ ہر گاڑی میں سی این جی کٹ لگا کر اس میں گیس بھرنا شروع کر دی تھی۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ گیس بہت قیمتی چیز ہے جسے کارخانوں میں استعمال کر کے کم لاگت کے ساتھ ایکسپورٹ بڑھانی چاہیے تاکہ ہم زیادہ ڈالر کمائیں اور ساتھ ہی اس گیس کو پاور پلانٹس میں استعمال کر کے سستی بجلی پیدا کی جائے اور جن پاور پلانٹس کو فیول امپورٹ کر کے چلایا جارہا تھا انہیں مہنگی بجلی پیدا کرنے سے روکا جائے۔ ہم اتنے سیانے نکلے کہ ساری لوکل گیس ہم نے گاڑیوں میں بھر کر سڑکوں پر اڑا دی اور اب ہم گیس کی کمی پوری کرنے کے لیے ایران‘ ترکمانستان پہنچ گئے۔ساتھ ہی ہم نے قطر سے گیس کا سودا کیا اور یوں ڈالروں میں پہلی دفعہ گیس آنا شروع ہوگئی۔ جب ایل این جی گیس ڈالروں میں آئے گی تو ریٹ بھی ڈالروں میں ہوگا۔ ڈالر اوپر جائے گا تو گیس یا بجلی کا ریٹ بھی اوپر جائے گا۔ ہم سب کی چیخیں اس وقت نکلنا شروع ہوئیں جب نواز شریف کے بعد 2018 ء میں پہلے نگران حکومت نے ڈالر کا ریٹ ایک سو دس سے ایک سو چوبیس کیا اور عمران خان دور میں یہ ریٹ بڑھتے بڑھتے پہلے ایک سو چالیس پھر ایک سو پچاس ‘ پھر ایک سو ساٹھ اور جب خان صاحب گئے تو یہ ریٹ 188 تک تھا‘ لیکن پھر 282 پر سیٹل ہوا۔ اٹھارہ ماہ بعد شہباز شریف حکومت اس ڈالر کو 282 پر چھوڑ کر گئی جبکہ نگران حکومت کے پہلے دو تین ہفتوں میں ڈالر تین سو روپے سے بڑھ چکا ہے۔ اب بتائیں جب آپ کا فیول‘ ایل این جی ‘ کوئلہ سب کچھ امپورٹ ہو کر ڈالروں میں آرہا ہے اور بجلی کا فی یونٹ ریٹ بھی ڈالر کے ریٹ پر طے ہے تو آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ بجلی کا جو ریٹ 2018ء میں تھا جب ڈالر ایک سو روپے کا تھا‘ وہ 2023ء میں بھی وہی ہونا چاہئے جبکہ ڈالر تین سو روپے سے بھی بڑھ چکا ہے؟
اگر آپ کو یاد ہو تو 2013ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں صدر زرداری کے ایک قریبی وزیر دوست جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹرتھے‘ نے سی این جی سٹیشنز کے لائسنسوں کی بھرمار کر دی۔ حالانکہ کچھ عرصہ پہلے پالیسی بنائی گئی تھی کہ اب مزید سی این جی سٹیشن ملک میں نہیں لگیں گے کیونکہ لوکل گیس کم ہورہی تھی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں اس میڈیکل ڈاکٹر نے یہ سب کام مفت میں سرانجام دیا ہو گا؟ وہی بات کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا۔ اپنے ملک کی قیمتی گیس گاڑیوں میں اُڑا دی اور اب ڈالروں میں باہر سے خریدی جارہی ہے اور ڈالر ہمارے پاس نہیں ہیں۔
اس سے بڑا ظلم نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں ہوا جب شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی جوڑی نے ملک میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کے لیے عالمی کمپنیوں کو لائسنس دینے کی رفتار کم کر دی‘ بلکہ کسی حد تک ختم ہی کر دی۔ یوں پرانے ذخائر ہم ختم کرتے گئے اور نئے ذخائر ڈھونڈنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ شاہد خاقان عباسی اور ہمنوا قطر سے گیس کی ڈیل کرچکے تھے۔ پاور پلانٹس کو فیول سپلائی کرنے والوں کو بھی لوکل ذخائر میں دلچسپی کم تھی کیونکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں مال بنا رہی تھیں۔ اگر لوکل طور پر گیس اور تیل کے ذخائر تلاش کئے جاتے تو آپ امپورٹ بل سے بچ جاتے۔ آپ کے ڈالرز بچ جاتے جو آپ باہر سے مانگ کر لاتے ہیں تاکہ امپورٹ بل کی ادائیگیاں کر سکیں۔ آپ کی بجلی مہنگی پیدانہ ہوتی کیونکہ آپ جو اِن پاور پلانٹس کو گیس سپلائی کررہے ہوتے وہ روپوں میں خریدی جاتی اور روپوں میں ہی بجلی پیدا ہوتی۔یوں جان بوجھ کر نئی گیس اور تیل تلاش نہ کیا گیا۔وجہ وہی تھی کہ اب ساری حکومت اور بیوروکریسی پیسہ بنانے میں مصروف تھی اور پیسہ اب پاور پلانٹس میں تھا۔
ایک بھارتی تاجر نے جب بجلی گھروں کو ملنے والے ڈالروں میں ریٹس اور Capacity Chargesاور ان پلانٹس کو ملنے والی رعایتوں پر میرا ٹی وی پروگرام سنا تو اُس نے مجھے میسج کیا اور بولا کہ جو لوٹ مار آپ کے ہاں مچی ہوئی ہے ایسا تو انڈیا میں سوچا تک نہیں جاسکتا۔ وہ کہنے لگا: مجھے بھی پاکستان میں ایسی سرمایہ کاری کی اجازت لے دیں۔ آپ کے بزنس مین سیاستدانوں کے ساتھ مل کر گھربیٹھے حکومت اور لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ وہ بولا: اتنا بڑا پرافٹ دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہے جو آپ کے پاور پلانٹس اونرز حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کما رہے ہیں۔ انہوں نے آپ کے ہاں تو اَـــنی مچائی ہوئی ہے۔ـ جب میں نے ایک دفعہ وہ سٹوری کی کہ دو پرائیویٹ پارٹیوں کے دو ایل این جی ٹرمینلز روزانہ کے پانچ لاکھ ڈالرز پندرہ برس تک لیں گے چاہے وہ استعمال ہوں یا نہیں تو اس انڈین دوست نے کہا کہ آپ لوگ جلد دلوالیہ ہو جائیں گے۔ یہ آپ لوگ کیسے ڈیلیں کررہے ہیں؟جو کام چند ارب روپے کا ہے اس پر آپ ڈیڑھ ارب ڈالرز پرافٹ ان دو پارٹیوں کو دے رہے ہیں۔ آپ لوگ پاگل تو نہیں ہوگئے؟(جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر