محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایوسی، ڈپریشن اپنی جگہ مگر پچھلے ڈیڈھ برسوں میں عوام کے ایک بہت بڑے حصے کے لئے اپنی زندگی کا پہیہ چلانا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں یہ اب لازمی ہوگیا ہے کہ جس کسی کے پاس تھوڑے سے بھی وسائل ہیں، وہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے اور اس کی مشکل کم کرنے کی کوشش کرے۔
اس حوالے سے اب تخلیقی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مشکلات ہیں، مگر آج بھی ایسے بہت سے ہیں جن کے اخراجات تھوڑی بہت کتربیونت کے بعد مینیج ہو رہے ہیں یعنی جب وہ اپنے اخراجات کی فہرست پر نظرثانی کرتے ہیں تو چند ایک چیزیں با آسانی نکالی جا سکتی ہیں۔ اپنی ماہانہ گروسری لسٹ میں سے کوشش کر کے چار پانچ ہزار کی بچت کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم کوشش کریں تواپنے اخراجات کم کر کے، اپنے پیر چادر کے اندر کر کے اور چادر تھوڑی چھوٹی کر کے کچھ نہ کچھ رقم الگ کی جا سکتی ہے۔ اس سے ان کی مدد کریں جو آپ کے قریب ہیں، مگر ان کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ آئیڈیا لاہور کی ایک نیک دل خاتون نے فیس بک پر ان باکس میسج کے ذریعے دیا۔
مسز رضوان نامی خاتون کا کہنا ہے کہ پچھلے تین ماہ سے وہ اپنی ماہانہ خریداری (گروسری اور دیگر شاپنگ وغیرہ)کی فہرست پر سختی سے نظرثانی کر کے کچھ نہ کچھ رقم بچا لیتی ہیں۔ جن چیزوں کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے، انہیں لینا چھوڑ دیا ہے۔ خاتون نے مثال دی کہ پہلے میں اپنے بچوں کے لئے ایک معروف کمپنی کے نگٹس اور چکن پیٹیز لے لیا کرتی تھی، چیز سلائس بھی لے لیتی تاکہ بچوں کو برگر بنا کر سکول لنچ میں دے سکوں۔ اب گھر میں نگٹس اورکباب بنا لیتی ہوں، چیز(پنیر)کے سلائس نہیں لیتی،جبکہ کئی اور امپورٹڈ چیزیں بھی کٹ کر دی ہیں۔نوٹیلا چاکلیٹ وغیرہ کے بجائے بچو ں کو شکروالے پراٹھے سے متعارف کرایا ہے،پراٹھے پر تھوڑا دیسی گھی اور ایک چمچ دیسی شکر ڈالنے سے بھی کام چل رہا ہے۔ اسی طرح کے کئی اور کٹ لگائے ہیں۔ جو پیسے بچے ، ان سے اپنی ملازمہ کو بیس کلو آٹے کا ایک تھیلا اور پانچ لٹر کوکنگ آئل لے دئیے۔ ایک اور جاننے والے سفید پوش گھرانے میںکسی بہانے سے کچھ راشن بھجوا دیا۔
ان خاتون نے تجویز دی ہے کہ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اپنے ماہانہ اخراجات سے دو تین، چار یا پانچ ہزار روپے بچا سکتے ہیں۔ ان پیسوں سے اگر وہ اپنے قریبی جاننے والے سفید پوش گھرانوں میں اگر صرف راشن ہی ڈلوا دیں ، کسی ایسے طریقے سے کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔اگر گھر میں آٹا ہو، گھی ہو تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مسز رضوان کی ایک تجویز یہ ہے کہ آلو اور پیاز آج کل اسی یا نوے روپے کلو مل رہے ہیں، لیکن اگر سبزی منڈی یا ماڈل بازار وغیرہ سے لیں توتھوڑے سستے مل جائیں گے۔ ان کے خیال میں اپنے جاننے والے سفید پوش گھرانوں یا ملازمہ ،مالی، درزی، بنکوں اور دکانوں کے باہر معمولی رقم پر کام کرنے والے گارڈز وغیرہ کو اگر پانچ پانچ کلو پیاز، آلو اور تھوڑا لہسن ،ادرک وغیرہ ہی بھجوا دیں تو ان کی اچھی خاصی مدد ہوجائے گی۔ گھر میں آلو رکھے ہوں تو آرام سے اچھی خاصی فیملی کا کھانا بن جاتا ہے۔
ہمارے ایک دوست خاصے عرصے سے دو چار گھرانوں میں ہر ایک دو ماہ کے بعد دس کلو چاول کا تھیلا بھجوا دیتے ہیں یانئی فصل آنے پر اپنے سفید پوش عزیز واقارب کے ہاں چاول کا ایک توڑا (چالیس یا پچاس کلو) بطور تحفہ بھجوا دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر گھر میں چاول ہی ہوں تو اچھی خاصی بڑی فیملی کے لئے بھی آسانی سے کام چل سکتا ہے۔ دال چاول یا سادہ تڑکے والے چاول ہی بن جائیں۔
اسی طرح ان کی ایک اور عادت ہے کہ اپنے قریبی رشتے داروں کے گھر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ہر سال جب امتحانات کے بعد نئی کلاسز شروع ہوں تو یہ بہت سی کاپیاں، پینسلیں ، پین وغیرہ خریدلیتے ہیں اور رشتے داروں کے بچوں کو بطور انعام تحائف دے دیتے ہیں۔ یہ خیال ذہن میں ہوتا ہے کہ سٹیشنری بھی سینکڑوں روپے کی آتی ہے، ان کے والدین کی کچھ مدد ہوجائے گی۔
یہ درست کہ معاشی مسائل بہت زیادہ ہوچکے ہیں، لوگوں میں مایوسی اور ناامیدی جھلک اور چھلک رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ سسٹم کی بہتری کے لئے ہم ضرور بات کریں، اپنا ووٹ بھی اپنی دانست میں بہترین لوگوں کو ڈالیں، مزید پرامن جمہوری جدوجہد بھی کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ سب سے اہم کام مگر انسانوں کو بچانا ہے اور اس شدید مشکل وقت میں لوگوں کی بھوک مٹانا اور ان کے سروائیول کو یقینی بنانا ہے۔ ہمیں اپنے حصے کا یہ کام کرنا چاہیے۔
اگر ہم تھوڑی کوشش سے اپنے اخراجات میں معمولی سا کٹ بھی لگا لیں تو ان دو تین چار ہزار سے بھی کسی نہ کسی گھرانے کی مدد ہوسکے گی۔ اس رقم کو حقیر نہ سمجھیں۔ اس چڑیا کو تصور میں لے آئیں جو حکایات کے مطابق اپنی چونچ میں چند قطرے بھر کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لئے بھڑکائی آگ بجھانے آئی تھی اور اس کا یہ کام قادر مطلق کو بہت پسند آیا۔ یہ مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا وقت نہیں بلکہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کا وقت ہے۔
اس حوالے سے اب تخلیقی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مشکلات ہیں، مگر آج بھی ایسے بہت سے ہیں جن کے اخراجات تھوڑی بہت کتربیونت کے بعد مینیج ہو رہے ہیں یعنی جب وہ اپنے اخراجات کی فہرست پر نظرثانی کرتے ہیں تو چند ایک چیزیں با آسانی نکالی جا سکتی ہیں۔ اپنی ماہانہ گروسری لسٹ میں سے کوشش کر کے چار پانچ ہزار کی بچت کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم کوشش کریں تواپنے اخراجات کم کر کے، اپنے پیر چادر کے اندر کر کے اور چادر تھوڑی چھوٹی کر کے کچھ نہ کچھ رقم الگ کی جا سکتی ہے۔ اس سے ان کی مدد کریں جو آپ کے قریب ہیں، مگر ان کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ آئیڈیا لاہور کی ایک نیک دل خاتون نے فیس بک پر ان باکس میسج کے ذریعے دیا۔
مسز رضوان نامی خاتون کا کہنا ہے کہ پچھلے تین ماہ سے وہ اپنی ماہانہ خریداری (گروسری اور دیگر شاپنگ وغیرہ)کی فہرست پر سختی سے نظرثانی کر کے کچھ نہ کچھ رقم بچا لیتی ہیں۔ جن چیزوں کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے، انہیں لینا چھوڑ دیا ہے۔ خاتون نے مثال دی کہ پہلے میں اپنے بچوں کے لئے ایک معروف کمپنی کے نگٹس اور چکن پیٹیز لے لیا کرتی تھی، چیز سلائس بھی لے لیتی تاکہ بچوں کو برگر بنا کر سکول لنچ میں دے سکوں۔ اب گھر میں نگٹس اورکباب بنا لیتی ہوں، چیز(پنیر)کے سلائس نہیں لیتی،جبکہ کئی اور امپورٹڈ چیزیں بھی کٹ کر دی ہیں۔نوٹیلا چاکلیٹ وغیرہ کے بجائے بچو ں کو شکروالے پراٹھے سے متعارف کرایا ہے،پراٹھے پر تھوڑا دیسی گھی اور ایک چمچ دیسی شکر ڈالنے سے بھی کام چل رہا ہے۔ اسی طرح کے کئی اور کٹ لگائے ہیں۔ جو پیسے بچے ، ان سے اپنی ملازمہ کو بیس کلو آٹے کا ایک تھیلا اور پانچ لٹر کوکنگ آئل لے دئیے۔ ایک اور جاننے والے سفید پوش گھرانے میںکسی بہانے سے کچھ راشن بھجوا دیا۔
ان خاتون نے تجویز دی ہے کہ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اپنے ماہانہ اخراجات سے دو تین، چار یا پانچ ہزار روپے بچا سکتے ہیں۔ ان پیسوں سے اگر وہ اپنے قریبی جاننے والے سفید پوش گھرانوں میں اگر صرف راشن ہی ڈلوا دیں ، کسی ایسے طریقے سے کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔اگر گھر میں آٹا ہو، گھی ہو تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مسز رضوان کی ایک تجویز یہ ہے کہ آلو اور پیاز آج کل اسی یا نوے روپے کلو مل رہے ہیں، لیکن اگر سبزی منڈی یا ماڈل بازار وغیرہ سے لیں توتھوڑے سستے مل جائیں گے۔ ان کے خیال میں اپنے جاننے والے سفید پوش گھرانوں یا ملازمہ ،مالی، درزی، بنکوں اور دکانوں کے باہر معمولی رقم پر کام کرنے والے گارڈز وغیرہ کو اگر پانچ پانچ کلو پیاز، آلو اور تھوڑا لہسن ،ادرک وغیرہ ہی بھجوا دیں تو ان کی اچھی خاصی مدد ہوجائے گی۔ گھر میں آلو رکھے ہوں تو آرام سے اچھی خاصی فیملی کا کھانا بن جاتا ہے۔
ہمارے ایک دوست خاصے عرصے سے دو چار گھرانوں میں ہر ایک دو ماہ کے بعد دس کلو چاول کا تھیلا بھجوا دیتے ہیں یانئی فصل آنے پر اپنے سفید پوش عزیز واقارب کے ہاں چاول کا ایک توڑا (چالیس یا پچاس کلو) بطور تحفہ بھجوا دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر گھر میں چاول ہی ہوں تو اچھی خاصی بڑی فیملی کے لئے بھی آسانی سے کام چل سکتا ہے۔ دال چاول یا سادہ تڑکے والے چاول ہی بن جائیں۔
اسی طرح ان کی ایک اور عادت ہے کہ اپنے قریبی رشتے داروں کے گھر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ہر سال جب امتحانات کے بعد نئی کلاسز شروع ہوں تو یہ بہت سی کاپیاں، پینسلیں ، پین وغیرہ خریدلیتے ہیں اور رشتے داروں کے بچوں کو بطور انعام تحائف دے دیتے ہیں۔ یہ خیال ذہن میں ہوتا ہے کہ سٹیشنری بھی سینکڑوں روپے کی آتی ہے، ان کے والدین کی کچھ مدد ہوجائے گی۔
یہ درست کہ معاشی مسائل بہت زیادہ ہوچکے ہیں، لوگوں میں مایوسی اور ناامیدی جھلک اور چھلک رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ سسٹم کی بہتری کے لئے ہم ضرور بات کریں، اپنا ووٹ بھی اپنی دانست میں بہترین لوگوں کو ڈالیں، مزید پرامن جمہوری جدوجہد بھی کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ سب سے اہم کام مگر انسانوں کو بچانا ہے اور اس شدید مشکل وقت میں لوگوں کی بھوک مٹانا اور ان کے سروائیول کو یقینی بنانا ہے۔ ہمیں اپنے حصے کا یہ کام کرنا چاہیے۔
اگر ہم تھوڑی کوشش سے اپنے اخراجات میں معمولی سا کٹ بھی لگا لیں تو ان دو تین چار ہزار سے بھی کسی نہ کسی گھرانے کی مدد ہوسکے گی۔ اس رقم کو حقیر نہ سمجھیں۔ اس چڑیا کو تصور میں لے آئیں جو حکایات کے مطابق اپنی چونچ میں چند قطرے بھر کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لئے بھڑکائی آگ بجھانے آئی تھی اور اس کا یہ کام قادر مطلق کو بہت پسند آیا۔ یہ مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا وقت نہیں بلکہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کا وقت ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر