دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علی سیٹھی کی مبینہ گے میرج۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نجم سیٹھی کے بیٹے گلوکار علی سیٹھی کی اپنے ایک دوست لڑکے سلمان طور سے مبینہ شادی کی خبریں سوشل میڈیا پر گرم ہیں۔ پاکستان میں ٹوئٹر کے ٹرینڈز میں بھی یہ خبر شامل رہی ۔
یاد رہے کہ گلوکار علی سیٹھی سینئر صحافی، اینکر نجم سیٹھی کے صاحبزادے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ علی سیٹھی نے ہاورڈ یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ہے جس میں ان کے میجر سبجیکٹس ساوتھ ایشین اسٹڈیز تھے۔ تاہم پچھلے چند برسوں سے علی سیٹھی گلوکاری اور موسیقی کی طرف آئے اور ان کا ایک گانا پسوڑی عالمگیر شہرت حاصل کر چکا ہے، اس گانے کو نہ صرف بالی وڈ بلکہ ہالی وڈ کے کئی فنکاروں نے بھی گایا۔
سلمان طور کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کی عمر چالیس سال ہے، وہ نیویارک میں مقیم ہے اور پینٹنگز بناتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کی پینٹنگز میں جنوبی ایشیائی فیملیز کے رہن سہن کو موضوع بنایا جاتا ہے۔
بھارتی میگزین انڈیا ٹوڈے اور بعض دیگر سائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ سلمان طور اور علی سیٹھی کئی برسوں سے گہرے دوست ہیں اور بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ سلمان طور نے علی سیٹھی کی ایک سے زائد پینٹنگز بھی بنائیں۔ سوشل میڈیا سائٹس کے مطابق ان کی پہلی ملاقات آج سے انیس سال پہلے لندن میں ہوئی تھی، چند سال پہلے جب وہ دوبارہ ملے تو اس منظر کو سلمان طور نے اپنی ایک پینٹنگ میں دو بغلگیر ہوتے نوجوانوں کی صورت میں دکھایا۔
سلمان طور نے پچھلے سال نیویارکر میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کی ’’گے آئیڈنٹٹی‘‘ کو ان کے والدین تسلیم نہیں کرتے تھے، جبکہ وہ پندرہ سال کی عمر میں انہیں بتا رہا تھا۔
تاہم سلمان طور کے مطابق اب اس کے والدین اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں۔ اسی انٹرویو مین پینٹر سلمان طور نے بتایا تھا کہ اس کی زندگی میں اس سے محبت کرنے والا آ چکا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے کہا ہے کہ اگر یہ شادی کی خبر درست ہے تو یہ کسی پاکستانی شوبز سیلیبریٹی کی پہلی اوپن گے میرج ہوگی ۔
ابھی فریقین (معلوم نہیں کسے خاوند کہا جائے اور کسے بیوی) میں سے کسی نے اس شادی کو کنفرم نہیں کیا ہے۔ تاہم آج صبح ہی سے یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ ہے، ٹوئٹر پر بے شمار ٹوئٹس اس بارے میں آ چکے ہیں۔
یہ تحریر لکھنے سے پہلے میں نے علی سیٹھی کے ٹوئٹر ہینڈل کو چیک کیا تو اس میں اگرچہ علی سیٹھی کا چھ گھنٹے پہلے کیا گیا ایک ٹوئٹ موجود تھا، تاہم اس نے اس شادی کی تردید نہیں کی۔ حالانکہ جس قدر شور مچا ہے، اگر ایسا واقعہ نہ ہوا ہوتا تو یقینی طورپر تردید کر دی جاتی، اس کے لئے ایک سطری ٹوئٹ ہی کافی تھا۔ نجم سیٹھی صاحب کا بھی آخری ٹوئٹ دو دن پرانا ہے۔ یہ سب کچھ اس افسوسناک خبر کو تقویت پہنچا رہا ہے۔
سچی بات ہے کہ ایسی خبروں پر دل دکھی ہوتا ہے۔
ہماری تو سمجھ سے باہر ہے کہ ایسا کس طرح کر لیتے ہیں۔
میرا گمان ہے کہ نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ جگنو محسن بھی اندر سے اس پر دکھی ہی ہوں گے ۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بیٹے کی شادی ہو، بہو گھر آئے ، بچے ہوں، گھرانہ پھلے پھولے ۔
میرا نہیں خیال کہ نجم سیٹھی یا ان کی اہلیہ یہ چاہتی ہوں گی کہ ان کا بیٹا غیر فطری تعلق بنائے اور اسے باقاعدہ شادی کا روپ دے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ جس لبرلزم کے یہ داعی اور پرچارک ہیں، وہ انہیں اپنے بچوں کے معاملات میں بھی دخل دینے سے روکتا ہے۔
لبرل ازم کا سادہ اصول ہے کہ آپ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دے سکتے، وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرگزرے ، اسے اپنی پسند اور خیالات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ۔
ہمارا لبرل ازم سے یہی بنیادی اختلاف ہے۔ اہل مذہب اور ظاہر ہے جب ہم پاکستانی تناظر میں بات کر رہے ہیں تو مراد مسلمان ہی ہیں، مسلمانوں کا نظریہ ہے کہ انہیں اپنی مرضی اور اپنے فلسفوں، تصورات سے زیادہ اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ کے بتائے گئے احکامات اور طریقوں پر عمل کرنا ہے۔
تو صاحبو ، بنیادی فیصلہ ایک ہی کرنا ہے۔
آپ نے خدا کی بنائی ہوئی دنیا اور اس کے بتائے گئے طریقوں پر چلنا ہے
یا
آپ نے انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا اور ان کے من پسند طریقوں اور قوانین پر چلنا ہے۔؟
کوئی مذہبی شخص خواہ وہ عام زندگی میں زیادہ اچھا پریکٹسنگ مسلمان نہیں، وہ بھی ان بنیادی تصورات سے انحراف پسند نہیں کرے گا۔
باقی یہ سب بچکانہ اور فضول باتیں ہیں کہ فلاں کی جبلت ہی ایسی ہے ۔ اس کی فطرت اور جبلت میں اپنی جنس کے لوگوں سے جسمانی تعلق (سیکس)کی خواہش تھی تو اس نے ایسا کیا وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب غلط ہے۔ یہ غیر فطری تعلق اور غیر فطری خواہش ہے۔ اس کا نفسیاتی علاج ہوتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو ہارمون تھراپی بھی۔
یہ اپنی مرضی کا لائف سٹائل اپنانا یا کوئی دوسری صنف اپنانا نہیں بلکہ اس کے پیچھے دراصل مریضانہ جنسی خواہشات ہی پوشیدہ ہیں۔ اس کی اصلاح کرنی چاہیے، حوصلہ افزائی نہیں۔
انسان کی جبلت میں تو بہت کچھ ہے، سب کچھ حاصل کرنے کی ہوس، ہر چیز پر قبضہ کرنے کی حرص، اندھی منافع خوری، لذات زندگی میں ڈوب جانا وغیرہ وغیرہ۔ ہم انسان اپنی ان خامیوں پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خود کو گروم کرتے ہیں۔ اپنی لالچ، ندیدے پن، خود غرضی، گھٹیا پن، کم ظرفی وغیرہ کی اصلاح کرتے ہیں۔
تاریخ انسانی کے ہر دور میں کچھ نہ کچھ ایسی خرابیاں رہی ہیں، ممنوعہ چیزوں کی طرف کچھ لوگ اٹریکٹ ہوتے رہے، ان کی حوصلہ شکنی ہوتی رہی ہے۔ محرم رشتوں سے جسمانی تعلق، غیر فطری جسمانی تعلق اور ایک ہی جنس میں مریضانہ جنسی محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب غلط ہیں اور انہیں پانچ سات ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ کے ہر دور میں رد کیا گیا، روکا گیا ہے، اس کے خلاف بیرئر بنائے گئے ہیں۔
افسوس کہ پچھلے دس پندرہ برسوں میں یہ سب بیرئرز توڑنے کی کوشش جاری ہے۔ جن مغربی قوتوں نے یلغار کر کے بھارتی سماج کو تسخیر کر لیا، انہیں یہی تکلیف ہے کہ پاکستانی سماج یا بعض دیگر مسلم ممالک اور غریب پسماندہ افریقی ممالک اس کے خلاف کیوں مزاحمت کر رہے ہیں؟
ہم سب کو اس کی غیر مشروط مذمت کرنا ہوگی، اس یلغار کو روکنا ہوگا۔
پاکستان میں گے میرج قانونی طور پر ایک جرم ہے۔ اگر علی سیٹھی کی یہ غیر فطری شادی کنفرم ہوگئی تو وہ پاکستانی قانون کے تحت قابل سزا مجرم ہوگا۔ ہمارا سماج تو خیر پہلے ہی اس قسم کی خرافات اور مریضانہ گھٹیا ترین حرکات کو رد کر چکا ہے۔
ہمارے لبرلز طبقے کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان کا لبرلزم ان کے بچوں کو کس طرف لے جا رہا ہے؟ یوں چلتا رہا تو ان کی اگلی نسلیں تباہ وبرباد ہوجائیں گی۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author