اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر عارف علوی نے پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ آرمی ایکٹ میں ترامیم سمیت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری بارے متنازعہ ٹویٹ کے ذریعے جس آئینی بحران کو انگیخت دے کر مملکت کو بے یقینی کی تاریکی میں دھکیل دیا، یہ 14 اگست 2014 میں شروع ہونے والی اس تحریک کا کلائمکس ہے جس نے محض تین سالوں کے اندر پھلتے پھولتے آئینی نظام کو تارپیڈو کر کے پورے انتظامی ڈھانچہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا یعنی خان کو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچانے کے لئے جس طرح کی پرتشدد اور ماورائے قانون کارروائیوں کا سہارا لیا گیا تھا اسی طرح خان کی اقتدار سے بے دخلی بھی آئین و قانون کی تلبیس اور پرتشدد کارروائیوں کو وجود دینے کا وسیلہ بنی، فرق صرف اتنا ہے کہ خان کے ساتھ مل کر بعض قوتیں جس وقت نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور 2018 کے انتخابات کو مینیج کر رہی تھیں تو تب انہیں عالمی قوتوں پشت پناہی حاصل تھی لیکن آج خان کے سیاسی زوال کے اسباب مہیا کرتے وقت انہیں مغربی طاقتوں کی ناراضگی کے علاوہ عالمی میڈیا کی شدید ترین مزاحمت درپیش ہے۔
تاریخی دلچسپی کے لئے یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ پچھلے پون صدی میں یہاں سویلین حکومتیں بنانے، گرانے میں عالمی طاقتوں کی آشیرواد شامل رہی اسی لئے یک طرفہ بیانیہ کی گونج میں ایسے تمام آپریشن یک طرفہ بخیر خوبی سرانجام پائے، اب پہلی بار مغربی ممالک اور عالمی میڈیا ہمارے داخلی سیاسی نظام کے تغیر و تبدل کے خلاف سفارتی اور ابلاغی مزاحمت پہ کمر بستہ دکھائی دیا۔ حیرت انگیز طور پہ مغربی اشرافیہ خان پراجیکٹ کی غیرفطری تخلیق اور اسی کی ناکامیوں کو زیر بحث لائے بغیر حالات کی الٹ پھیر کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی خان کی مقبولیت کو لے کر مقتدرہ پہ اثر انداز ہونے والے بیانیہ کی جگالی میں مشغول ہے۔
صدر علوی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ”میرا خدا گواہ ہے، سرکاری راز ترمیمی بل اور آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں، تاہم وہ یہ نہیں بتا سکے کہ انہیں متذکرہ بالا قوانین پہ کیا اعتراض تھا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت یا تو صدر پارلیمنٹ کی طرف سے بھجوائے گئے بل پہ دستخط کر کے منظور یا پھر تحریری اعتراضات لگا کر دس دن کے اندر واپس کریں گے بصورت دیگر صدر کو بھیجا گیا بل از خود قانون بن جائے گا۔
تاہم، صدر عذر پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عملہ سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے لیکن مجھے آج پتہ چلا کہ عملہ نے میری مرضی کے برعکس میرے حکم کو مجروح کیا، اسی تنازعہ کے پیش نظر صدر نے اپنے سیکریٹری وقار احمد کی خدمات اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو سرنڈر کر کے بظاہر اس قضیہ کی ذمہ داری سیکریٹری کے سر تھوپ دی مگر گریڈ بائیس کے آفیسر وقار احمد خان نے چارج چھوڑنے کی بجائے صدر کو لکھے گئے خط میں انہیں بھیجے جانے والی ان تحریری یاد دہانیوں کے ڈائری نمبرز تک جاری کر دیے، جن کے تحت صدر علوی کو بار بار بتایا گیا کہ مجوزہ بلوں پہ اگر دس دنوں کے اندر اعتراضات لگا کر واپس نہ بھیجا تو یہ از خود قانون بن جائیں گے۔
صدر علوی کے اقدام نے جہاں وزارت قانون و انصاف اور صدارتی دفتر کے درمیان سیاسی محاذ آرائی کو جنم دیا، وہاں اسی جدلیات نے نگراں حکومت کے علاوہ خود صدر ڈاکٹر علوی کے مستقبل کو بھی شدید تشویش سے گہنا دیا، بدھ کے دن وزارت قانون کے حکام نے صدر علوی سے ملاقات کر کے انہیں اس پیش دستی کے عواقب بتائے۔ یہ تنازعہ اس وقت بھڑک اٹھا جب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے ہفتہ کے روز مسٹر خان کے قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت سفارتی سائفر کے افشاں کی پاداش میں گرفتار کر لیا۔
مسٹر خان بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا نام ایف آئی اے کی جانب سے چاک کی گئی ایف آئی آر میں درج خفیہ سرکاری معلومات کو افشا کرنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر مذموم مقاصد اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال کر کے ریاستی سلامتی کو گزند پہنچانے والوں میں شامل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں، صدر کی پیش دستی ملک کے قانونی نظام کے لئے دھچکا اور جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک کو نئے آئینی بحران میں ڈالنے کی شعوری کوشش کے مترادف ہے، عملہ کو دوش دینے کی بجائے صدر کے منصب کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے اعمال کی ذمہ داری خود قبول کرتے اور دفتری اہلکاروں کے تبادلوں کی بجائے اپنی چین آف کمانڈ میں شامل افراد کو جواب دہ ٹھہرانے کے لئے معاملہ کی انکوائری کرا کے ابہام دور کرتے مگر افسوس، صدر نے سہل انگاری سے کام لے کر بائیس گریڈ کے اس اعلی آفیسر کا کیریر داؤ پہ لگا دیا جس کی ریٹائرمنٹ میں فقط آٹھ ماہ باقی ہیں۔
علوی نے اپنے ٹویٹ میں جن قوانین کو متنازع ظاہر کیا، وہ مملکت یا اس کی مسلح افواج کی سلامتی اور مفادات کے لیے نقصان دہ معلومات کو ظاہر کرنے کو مجرمانہ عمل قرار دیتے ہوئے ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی سرکوبی کے لئے خفیہ ایجنسیوں کو چھاپے اور ملزموں کو حراست میں لینے کا اختیار دیتے ہیں۔ حیرت ہے صدر علوی کی جماعت پی ٹی آئی نے ایوان بالا (سینٹ) میں تو ان قوانین کی منظوری کے خلاف کوئی موثر مزاحمت نہ کر سکی لیکن قانون بن جانے کے بعد اسے مسترد کر دیا۔
پیپلز پارٹی نے بھی پارلیمان میں متذکرہ قوانین منظور کرانے کی خاطر پوری پارلیمانی قوت جھونک دی لیکن اقتدار سے علیحدگی کے بعد پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے صدر علوی کے غیر متوقع اعلان کو سراہا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے لکھا، عارف علوی نے وہ کر دکھایا جو پچھلی دہائی میں کوئی نہیں کر سکا، ایٹم بم پھوڑ کر بہت سوں کو فوری طور پر تباہ کرنے کے علاوہ اس ٹویٹ کی مہلک شعاعیں آنے والے سالوں میں بھی ہلاک و معذور کرتی رہیں گی“ ۔
واضح رہے کہ صدر عارف علوی کے ٹویٹ سے تین دن قبل آصف علی زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم نے ایوان صدر میں عارف علوی سے پون گھنٹے کی ملاقات کی، اس سے یہی تاثر ملا کہ پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم کے علاوہ اسٹبلشمنٹ سے بھی مایوس ہے، اس کی ظاہری وجہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ منظور قادر کاکا کی انٹی کرپشن پولیس کے ہاتھوں گرفتاری بتائی گئی، تاہم پیپلز پارٹی کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ متوقع عام انتخابات میں انہیں ویسی سہولت نہیں ملے گی جیسی 2018 کے عام انتخابات میں ملی تھی۔
چنانچہ پیپلز پارٹی اب سیاسی عمل کے ذریعے خود کو خان کے قریب کر کے اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر لڑنے کی خواہشمند دکھائی دیتی ہے، اسی تناظر میں آصف علی زرداری کے قریب سمجھے جانے والے بڑے میڈیا گروپ کے نامور اینکر متذکرہ قوانین کی مخالفت کے ذریعے پی ٹی آئی والوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے علاوہ حکومت سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ انہیں اٹک جیل کے قیدی نمبر 804 سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔ ذرائع کے مطابق جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سندھ میں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابی اتحاد بنانے کا تہیہ کر لیا، اگر مجوزہ انتخابی الائنس بن گیا تو پیپلز پارٹی کے لئے چوتھی بار سندھ میں حکومت بنانے کا امکان معدوم ہو جائے گا۔
خان، اس وقت توشہ خانہ کیس میں جرم ثابت ہونے کے باعث اٹک جیل میں قید کاٹ رہے ہیں، ان کی جماعت (پی ٹی آئی) خان کا سیاسی مستقبل بچانے کی خاطر عالمی سطح کی سفارتی کوششوں کے علاوہ مقتدرہ کے خلاف ایسی مزاحمت تحریک چلانے میں سرگرداں ہے جس میں آئینی بحران پیدا کر کے ریاست کو جھکنے پہ مجبور کرنے کی مساعی شامل ہے، صدر علوی کی تازہ پیش دستی کو اسی تناظر میں دیکھا گیا کیونکہ قبل ازیں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد روکنے کے لئے آئین سے فراڈ کے علاوہ خان کے وفادار ساتھیوں نے قومی اسمبلی سے مستعفی اور پنجاب و خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کو توڑ کر حکمراں اشرافیہ کو قبل از وقت انتخابی اکھاڑا تک کھینچ لانے کی جسارت کی تھی لیکن مخالف اتحاد کی کہنہ مشق قیادت ان کی تمام چالوں کو ناکام بنا کر انہیں احتساب کے اس کٹہرے تک کھنچ لائی جس سے بچنے کی خاطر وہ وقت سے پہلے نئے انتخابات کے لئے میدان سجانے کو بیتاب تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان
اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان
پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان
افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان
عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر