رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ اب تو فی یونٹ شاید پچاس روپے سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔ میں خود بجلی کے بل سے گھبرا گیا ہوں لیکن مجھے کچھ اندازہ ہے کہ بجلی کا یہ بم ہمارے سروں پر کیسے پھٹا ہے۔ آپ جب کسی مسئلے کی وجہ جانتے ہوں تو پھر دو کام ہوتے ہیں‘ آپ کو پورے مسئلے کی سمجھ ہوتی ہے لہٰذا آپ آرام سے خود کو سمجھا لیتے ہیں کہ محترم! رولا ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صبر کریں کیونکہ آپ کو سب علم ہے‘ رولا ڈالنے کا کیا فائدہ۔ اور جب آپ کو معاملے کی سنگینی کا علم نہیں ہوتا تو اس کا آپ پر سخت اثر ہوتا ہے۔ لاعلمی ہر معاملے میں رحمت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات ایک بڑا عذاب بن کر آپ پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ کم از کم بجلی کے مہنگے یونٹس‘ بے تحاشا ٹیکسز کی وجہ سے اس وقت لوگوں کی بُری حالت ہے۔ آپ جتنی بھی کم بجلی استعمال کر لیں پھر بھی آپ کا بل پانچ دس ہزار سے کم نہیں آرہا۔
اس کی ایک بڑی وجہ تو آئی ایم ایف کی وہ شرائط ہیں جن کے تحت اب کم یونٹس والوں کو دی گئی رعایت مزید کم کر دی گئی ہے لہٰذا وہ طبقات جو پہلے بچے ہوئے تھے‘ وہ بھی اب اس مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ گزشتہ تیس برسوں میں بجلی کیوں مہنگی ہوئی۔ ایک دو روپے فی یونٹ سے یہ پچاس روپے فی یونٹ تک کیسے پہنچ گئی۔ یہ وہ دور تھا جب بجلی ابھی دیہات تک نہیں پہنچی تھی۔ پھر 1980ء کی دہائی میں بجلی دیہات تک لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت تک جو بجلی تربیلا ڈیم یا دیگر ایسے سستے ذرائع سے پیدا ہورہی تھی‘ وہ ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے کسی حد تک کافی تھی۔ دیہات میں لوڈشیڈنگ کر کے بھی کام چلا لیا جاتا تھا لیکن جب 1990ء کی دہائی شروع ہوئی تو جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا وہیں زیادہ سے زیادہ دیہات تک بجلی پہنچنے لگی۔ ہر ایم پی اے اور ایم این اے پر عوام کا دباؤ بڑھا کہ ووٹ لینے ہیں تو ہمیں بجلی دیں۔ یوں بجلی ایک بنیادی ضرورت کے بجائے ایک سیاسی رشوت بنتی چلی گئی۔ اس بات کا خیال کیے بغیر کہ بجلی کی کھپت بڑھنے سے مطلوبہ مقدار میں بجلی کہاں سے لائیں گے۔ اس کا ایک حل کالا باغ ڈیم تھا جس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی اور وہ بھی سستی ترین‘ لیکن اس پر خیبرپختونخوا اور سندھ نے اعتراضات اٹھا دیے۔ جہاں ایک وجہ اس علاقے کے لوگوں کے دیگر خدشات تھے وہیں ان دونوں صوبوں کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم پنجاب میں بن گیا تو پھر وہ بھی مرکز سے اس طرح بجلی کی رائلٹی لے گا جیسے خیبرپختونخوا تربیلا ڈیم کی لے رہا تھا جبکہ سندھ کو خطرہ تھا کہ ان کا پانی پنجاب روک لے گا۔ یوں ان دونوں صوبوں کے سیاستدانوں نے دونوں صوبوں کے عوام کو بھڑکایا اور پوری قوم تقسیم ہوئی اور وہ منصوبہ جو کاشتکاری کے علاوہ ہماری مستقبل کی بجلی کی ضروریات پوری کر سکتا تھا‘ وہ بھی لٹک گیا۔ حکمرانوں اور پالیسی میکرز نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ بھی کالا باغ ڈیم کے علاوہ کسی اور ڈیم پر کام نہیں کریں گے۔ چاہتے تو وہ اس وقت دیگر ڈیمز پر کام شروع کر دیتے جہاں سستی بجلی مل سکتی۔ یوں قوم نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ختم کرکے اپنے لیے مہنگی بجلی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کا فی یونٹ تقریبا ًپچاس پیسے فی یونٹ میں پڑنا تھا۔
جب بجلی ہر تک گاؤں پہنچ گئی تو پتہ چلا کہ اب سسٹم میں بجلی ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی رہائشی کالونیوں کے کلچر نے سر اٹھا لیا۔ اب ہر جگہ نئی نئی کالونیاں نظر آنے لگیں۔ زراعت کا کلچر بھی بدلا۔ جو کھیت کبھی کنووں کے پانی سے سیراب ہوتے تھے اب وہاں بجلی کے ٹیوب ویل لگ چکے ہیں‘ جس سے آپ کی زرعی پیداوار تو بڑھ گئی لیکن ساتھ ہی پیداواری لاگت بھی بڑھی۔ جس کھیت کو کبھی بیلوں کی جوڑی مفت میں سیراب کر دیتی تھی‘ اب اس کھیت کو سیراب کرنے کیلئے کسان ہزاروں روپے بل دیتا ہے۔ پھر ہر گھر میں بجلی کے بلب اور پنکھے بھی لگ گئے۔ پھر ٹی وی بھی آ گیا۔ پہلے بجلی گاؤں کے چند گھروں میں آئی۔ اُن میں سے بھی کسی ایک بڑے زمیندار کے پاس ٹی وی ہوتا تھا اور پورا گاؤں اس کے گھر جا کر ٹی وی دیکھتا تھا۔ پھر ہر گھر میں بجلی‘ پنکھا اور ٹی وی آنے لگے۔ یوں بجلی کی کھپت دھیرے دھیرے بڑھنے لگی جبکہ کنڈا سسٹم کی رُوداد اس کے علاوہ ہے۔
اسی طرح پہلے جو خاندان ایک گھر میں رہتا تھا‘ بچے بڑے ہونے پر اسے مزید گھروں کی ضرورت پیش آئی۔ یہی سب کچھ دیہات میں ہوا۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ یوں بزنس مین طبقہ آگے بڑھا اور اس نے آبادی کے اس بڑھتے بم کو گود لے لیا۔ شہروں کے قریب زرعی رقبوں کو خرید کر انہیں رہائشی کالونیوں میں بدل دیا گیا جہاں لوگوں نے بڑی تعداد میں شفٹ ہونا شروع کر دیا۔ ہر رہائشی کالونی کی کامیابی کی بڑی وجہ بجلی اور گیس کا کنکشن تھا۔ یوں دھڑا دھڑ ان رہائشی کالونیوں نے بجلی کے بڑے بڑے ٹرانسفارمرز لگوائے اور بجلی کی کھپت بڑھتی چلی گئی۔ اس دوران اب تقریباً ہر جگہ بجلی کا جال بچھ چکا تھا۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ دیہات یا رہائشی کالونیوں میں اس وجہ سے بجلی کے کنکشن نہ دیں کہ پیچھے سے بجلی کی سپلائی کم ہو رہی تھی۔ اب چونکہ بجلی ایک ووٹ کی شکل بھی اختیار کر چکی تھی لہٰذا ہر الیکشن سے پہلے واپڈا کھمبے لے کر پہنچ جاتا تاکہ حکومتی امیدوار کو وہ کھمبے دکھا کر ووٹ مل سکیں۔ یوں بجلی کا مسئلہ گمبھیر ہوتا چلا گیا لیکن بجلی کہاں سے آئے گی‘ یہ کوئی نہ سوچ رہا تھا۔ اس کا وقتی حل یہ نکالا گیا کہ دیہات میں لوڈ شیڈنگ شروع کی جائے۔ دیہاتی لوگ پہلے بھی کھلی فضا میں رہتے ہیں۔ وہ گرمیاں کھیتوں میں درختوں تلے گزار لیں گے۔ رات کو بھی کھلی فضا میں سو کر گزارہ کر لیں گے‘ جیسے وہ صدیوں سے کرتے آئے ہیں لیکن شہروں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ نہیں کرنی کیونکہ وہاں لوگ حبس اور گرمی برداشت نہیں کر پائیں گے۔
یوں بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے دیہات میں پندرہ پندرہ‘ بیس بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ دیہات سے کبھی احتجاج کی آواز نہ اٹھی اور اگر کبھی کسی مقامی اخبار میں کسی نے ایک آدھ بیان داغ بھی دیا تو اسلام آباد بیٹھے حکمرانوں یا بابوؤں کے کانوں پر اس کا کیا اثر ہونا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے اس بجلی کے مسئلے نے شہروں کا رُخ بھی کر لیا جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور رہائشی منصوبے‘ جہاں کھلی فضا اور زمینوں پر قبضہ کرتے جارہے تھے‘ جس کی وجہ سے گرمی کا اثر مزید تیز ہو رہا تھا‘ وہیں کچی آبادیاں بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھیں جہاں بجلی چوری عروج پر تھی۔ یوں 90ء کی دہائی کے اوائل میں شہروں میں پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر لوڈ شیڈنگ نے سر اٹھایا جس سے ہر طرف شور مچ گیا۔ میڈیا سے منسلک افراد‘ جو دیہات میں ہونے والی لوڈشیڈنگ پر کان بند کیے بیٹھے تھے‘ اب جب انہیں گرمی محسوس ہوئی اور ان کی چیخیں نکلیں تو ساتھ ہی پتہ چلا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ بجلی پیدا کرنے کے نئے یونٹس نہیں لگے‘ نئے ڈیم نہیں بنے جو بجلی پیدا کرتے۔ نیوکلیئر ذرائع سے بھی کم بجلی پیدا ہو رہی تھی۔ وہ بھی ڈیمانڈ اور سپلائی کے اس گیپ کو فل نہیں کر سکتی تھی۔ یوں جیسے کبھی بجلی کے کنکشن سیاسی مسئلہ بن گئے تھے‘ اب لوڈ شیڈنگ اس سے بڑا مسئلہ بن گئی۔ اب بجلی کی ڈیمانڈ تو آسمان تک پہنچ گئی تھی لیکن بجلی لاتے کہاں سے۔ اس کا حل 1994ء میں تلاش کیا گیا جب ایک نیا تجربہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ ایسا تجربہ تھا جس نے آنے والے برسوں میں قوم کی چیخیں نکلوانی تھیں۔ اب جو آپشن حکومت کے پاس تھے‘ وہ تھے لوڈشیڈنگ‘ اندھیرا یا مہنگی بجلی۔ قوم نے ڈیمز کے مسئلے پر لڑ لڑ کر اپنے پاؤں پر ایسا کلہاڑا مارا جس نے آنے والے برسوں میں اسی قوم کا بھٹہ بٹھا دیا۔ (جاری)
اس کی ایک بڑی وجہ تو آئی ایم ایف کی وہ شرائط ہیں جن کے تحت اب کم یونٹس والوں کو دی گئی رعایت مزید کم کر دی گئی ہے لہٰذا وہ طبقات جو پہلے بچے ہوئے تھے‘ وہ بھی اب اس مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ گزشتہ تیس برسوں میں بجلی کیوں مہنگی ہوئی۔ ایک دو روپے فی یونٹ سے یہ پچاس روپے فی یونٹ تک کیسے پہنچ گئی۔ یہ وہ دور تھا جب بجلی ابھی دیہات تک نہیں پہنچی تھی۔ پھر 1980ء کی دہائی میں بجلی دیہات تک لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت تک جو بجلی تربیلا ڈیم یا دیگر ایسے سستے ذرائع سے پیدا ہورہی تھی‘ وہ ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے کسی حد تک کافی تھی۔ دیہات میں لوڈشیڈنگ کر کے بھی کام چلا لیا جاتا تھا لیکن جب 1990ء کی دہائی شروع ہوئی تو جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا وہیں زیادہ سے زیادہ دیہات تک بجلی پہنچنے لگی۔ ہر ایم پی اے اور ایم این اے پر عوام کا دباؤ بڑھا کہ ووٹ لینے ہیں تو ہمیں بجلی دیں۔ یوں بجلی ایک بنیادی ضرورت کے بجائے ایک سیاسی رشوت بنتی چلی گئی۔ اس بات کا خیال کیے بغیر کہ بجلی کی کھپت بڑھنے سے مطلوبہ مقدار میں بجلی کہاں سے لائیں گے۔ اس کا ایک حل کالا باغ ڈیم تھا جس سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی اور وہ بھی سستی ترین‘ لیکن اس پر خیبرپختونخوا اور سندھ نے اعتراضات اٹھا دیے۔ جہاں ایک وجہ اس علاقے کے لوگوں کے دیگر خدشات تھے وہیں ان دونوں صوبوں کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم پنجاب میں بن گیا تو پھر وہ بھی مرکز سے اس طرح بجلی کی رائلٹی لے گا جیسے خیبرپختونخوا تربیلا ڈیم کی لے رہا تھا جبکہ سندھ کو خطرہ تھا کہ ان کا پانی پنجاب روک لے گا۔ یوں ان دونوں صوبوں کے سیاستدانوں نے دونوں صوبوں کے عوام کو بھڑکایا اور پوری قوم تقسیم ہوئی اور وہ منصوبہ جو کاشتکاری کے علاوہ ہماری مستقبل کی بجلی کی ضروریات پوری کر سکتا تھا‘ وہ بھی لٹک گیا۔ حکمرانوں اور پالیسی میکرز نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ بھی کالا باغ ڈیم کے علاوہ کسی اور ڈیم پر کام نہیں کریں گے۔ چاہتے تو وہ اس وقت دیگر ڈیمز پر کام شروع کر دیتے جہاں سستی بجلی مل سکتی۔ یوں قوم نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ختم کرکے اپنے لیے مہنگی بجلی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کا فی یونٹ تقریبا ًپچاس پیسے فی یونٹ میں پڑنا تھا۔
جب بجلی ہر تک گاؤں پہنچ گئی تو پتہ چلا کہ اب سسٹم میں بجلی ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی رہائشی کالونیوں کے کلچر نے سر اٹھا لیا۔ اب ہر جگہ نئی نئی کالونیاں نظر آنے لگیں۔ زراعت کا کلچر بھی بدلا۔ جو کھیت کبھی کنووں کے پانی سے سیراب ہوتے تھے اب وہاں بجلی کے ٹیوب ویل لگ چکے ہیں‘ جس سے آپ کی زرعی پیداوار تو بڑھ گئی لیکن ساتھ ہی پیداواری لاگت بھی بڑھی۔ جس کھیت کو کبھی بیلوں کی جوڑی مفت میں سیراب کر دیتی تھی‘ اب اس کھیت کو سیراب کرنے کیلئے کسان ہزاروں روپے بل دیتا ہے۔ پھر ہر گھر میں بجلی کے بلب اور پنکھے بھی لگ گئے۔ پھر ٹی وی بھی آ گیا۔ پہلے بجلی گاؤں کے چند گھروں میں آئی۔ اُن میں سے بھی کسی ایک بڑے زمیندار کے پاس ٹی وی ہوتا تھا اور پورا گاؤں اس کے گھر جا کر ٹی وی دیکھتا تھا۔ پھر ہر گھر میں بجلی‘ پنکھا اور ٹی وی آنے لگے۔ یوں بجلی کی کھپت دھیرے دھیرے بڑھنے لگی جبکہ کنڈا سسٹم کی رُوداد اس کے علاوہ ہے۔
اسی طرح پہلے جو خاندان ایک گھر میں رہتا تھا‘ بچے بڑے ہونے پر اسے مزید گھروں کی ضرورت پیش آئی۔ یہی سب کچھ دیہات میں ہوا۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ یوں بزنس مین طبقہ آگے بڑھا اور اس نے آبادی کے اس بڑھتے بم کو گود لے لیا۔ شہروں کے قریب زرعی رقبوں کو خرید کر انہیں رہائشی کالونیوں میں بدل دیا گیا جہاں لوگوں نے بڑی تعداد میں شفٹ ہونا شروع کر دیا۔ ہر رہائشی کالونی کی کامیابی کی بڑی وجہ بجلی اور گیس کا کنکشن تھا۔ یوں دھڑا دھڑ ان رہائشی کالونیوں نے بجلی کے بڑے بڑے ٹرانسفارمرز لگوائے اور بجلی کی کھپت بڑھتی چلی گئی۔ اس دوران اب تقریباً ہر جگہ بجلی کا جال بچھ چکا تھا۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ دیہات یا رہائشی کالونیوں میں اس وجہ سے بجلی کے کنکشن نہ دیں کہ پیچھے سے بجلی کی سپلائی کم ہو رہی تھی۔ اب چونکہ بجلی ایک ووٹ کی شکل بھی اختیار کر چکی تھی لہٰذا ہر الیکشن سے پہلے واپڈا کھمبے لے کر پہنچ جاتا تاکہ حکومتی امیدوار کو وہ کھمبے دکھا کر ووٹ مل سکیں۔ یوں بجلی کا مسئلہ گمبھیر ہوتا چلا گیا لیکن بجلی کہاں سے آئے گی‘ یہ کوئی نہ سوچ رہا تھا۔ اس کا وقتی حل یہ نکالا گیا کہ دیہات میں لوڈ شیڈنگ شروع کی جائے۔ دیہاتی لوگ پہلے بھی کھلی فضا میں رہتے ہیں۔ وہ گرمیاں کھیتوں میں درختوں تلے گزار لیں گے۔ رات کو بھی کھلی فضا میں سو کر گزارہ کر لیں گے‘ جیسے وہ صدیوں سے کرتے آئے ہیں لیکن شہروں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ نہیں کرنی کیونکہ وہاں لوگ حبس اور گرمی برداشت نہیں کر پائیں گے۔
یوں بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے دیہات میں پندرہ پندرہ‘ بیس بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ دیہات سے کبھی احتجاج کی آواز نہ اٹھی اور اگر کبھی کسی مقامی اخبار میں کسی نے ایک آدھ بیان داغ بھی دیا تو اسلام آباد بیٹھے حکمرانوں یا بابوؤں کے کانوں پر اس کا کیا اثر ہونا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے اس بجلی کے مسئلے نے شہروں کا رُخ بھی کر لیا جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور رہائشی منصوبے‘ جہاں کھلی فضا اور زمینوں پر قبضہ کرتے جارہے تھے‘ جس کی وجہ سے گرمی کا اثر مزید تیز ہو رہا تھا‘ وہیں کچی آبادیاں بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھیں جہاں بجلی چوری عروج پر تھی۔ یوں 90ء کی دہائی کے اوائل میں شہروں میں پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر لوڈ شیڈنگ نے سر اٹھایا جس سے ہر طرف شور مچ گیا۔ میڈیا سے منسلک افراد‘ جو دیہات میں ہونے والی لوڈشیڈنگ پر کان بند کیے بیٹھے تھے‘ اب جب انہیں گرمی محسوس ہوئی اور ان کی چیخیں نکلیں تو ساتھ ہی پتہ چلا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ بجلی پیدا کرنے کے نئے یونٹس نہیں لگے‘ نئے ڈیم نہیں بنے جو بجلی پیدا کرتے۔ نیوکلیئر ذرائع سے بھی کم بجلی پیدا ہو رہی تھی۔ وہ بھی ڈیمانڈ اور سپلائی کے اس گیپ کو فل نہیں کر سکتی تھی۔ یوں جیسے کبھی بجلی کے کنکشن سیاسی مسئلہ بن گئے تھے‘ اب لوڈ شیڈنگ اس سے بڑا مسئلہ بن گئی۔ اب بجلی کی ڈیمانڈ تو آسمان تک پہنچ گئی تھی لیکن بجلی لاتے کہاں سے۔ اس کا حل 1994ء میں تلاش کیا گیا جب ایک نیا تجربہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ ایسا تجربہ تھا جس نے آنے والے برسوں میں قوم کی چیخیں نکلوانی تھیں۔ اب جو آپشن حکومت کے پاس تھے‘ وہ تھے لوڈشیڈنگ‘ اندھیرا یا مہنگی بجلی۔ قوم نے ڈیمز کے مسئلے پر لڑ لڑ کر اپنے پاؤں پر ایسا کلہاڑا مارا جس نے آنے والے برسوں میں اسی قوم کا بھٹہ بٹھا دیا۔ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر