دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا وطن سے محبت ثابت کرنے کے لیے جنگ ضروری ہوتی ہے||رضوان ظفر گورمانی

ہماری اس ماضی پرست روش کا لامحالہ نتیجہ دشمن سازی ہے اور دشمن ساز قوم انسان کش ہوتی ہے اور انسان کشی کی جو روایتیں ہم آج کل قائم کر رہے ہیں وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات آریز بلوچ کے ساتھ یوٹیوب ویڈیوز دیکھ رہا تھا کہ ”تو سلامت وطن تا قیامت وطن“ نامی اک ملی نغمہ نظر آیا آریز نے فوراً سے پہلے اسے پلے کر دیا اس کے بعد اگلا اک گھنٹہ ہم نے یہ بندے مٹی کے بندے، کبھی پرچم میں لپٹے ہیں، اے وطن تیرا اشارہ آ گیا، اللہ و اکبر، لعل میرے کی جوانی اور اسی قسم کے مزید ملی نغمے سنے میرے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ آریز نے نہ صرف یہ گانے سن رکھے تھے بلکہ وہ انڈیا کو دشمن قرار دے کر اس کو سبق سکھانے کی بات کر رہا تھا اور اک بات ان تمام ویڈیوز میں آرمی فوج اسلحہ جنگ و جدل کو فوکس کیا گیا تھا میں نے آریز سے پوچھا آپ کو کس نے کہا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے بولا سکول میں ٹیچر نے بتایا وہ ہم سے پریڈ بھی کراتی ہیں میں نے آریز کو سمجھایا کہ وطن سے محبت کا اظہار کسی کو مار کر نہیں ہوتا دوست بنا کر دل جیت کر محبت پھیلا کر اپنے ہم وطنوں کی مدد کر کے ان کی زندگیوں کو بہتر بنا کر بھی کیا جا سکتا ہے ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے سائنسدان ڈاکٹر کھلاڑی انجینئیر ٹیچر بن کر بھی آپ ملک کی خدمت کر سکتے ہو اور لڑائی اور جنگ اچھی نہیں ہوتی دنیا میں دو عالمی جنگیں ہو چکی ہیں کروڑوں افراد مارے گئے جن میں بچے بھی شامل تھے لیکن پھر انہیں احساس ہو گیا کہ سرحدوں پر لڑنے والے تمام ویر بہادر جوانوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں وہ کسی کے بچے ہوتے ہیں اور ان کے بھی بچے ہوتے ہیں بس وہ دن اور آج کا دن دونوں طرف کے مارے جانے والے لاکھوں انسانوں کی روحوں سے معافی مانگ کر انہوں نے اک ساتھ نئے سفر کا آغاز کیا ایسا سفر جس میں ہم سفر کی جان لینے کی بجائے ہم سفر پر جان چھڑکنے کی روایت کا آغاز ہوا

اک وقت تھا جب اسلحہ سازی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی جنگیں اتنی ایڈوانس اور مہلک نہیں تھیں کہ اک بٹن سے اک سیکنڈ میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جائیں پھر انسان نے ترقی کی تعلیم نے شعور و سوچ کو تبدیل کیا انسان کو احساس ہوا کہ ملک کو ترقی کرنی ہے شہریوں کو اچھا معیار زندگی دینا ہے تو اپنی قوت پیسہ وقت اور انسانوں کو دشمنی اور جنگوں میں ضائع کرنے کی بجائے صنعت و حرفت کھیل و فنون لطیفہ پر توجہ دینی ہو گی

مگر محسوس ہوتا ہے کہ ہم آج بھی اسی دور میں زندہ ہیں جس کو ہمارے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے ہمارے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ غزنوی نے سترہ حملے کیے ایوبی نے صلیبی جنگیں لڑیں محمد قاسم نے سترہ سال میں سندھ فتح کیا یہ مسلمانوں کے ہیرو ہیں ہم بطور قوم ہی نہیں بطور ریاست بھی اسی سلطانی دور میں زندہ ہیں جہاں بادشاہ ہی عقل کل ہوتا تھا، سپہ سالار ہی مرد جری ہوتا تھا دوسرے ملکوں کو فتح کرنا ریاست کا مقصد ہوا کرتا تھا، تب ریاست کے لیے عوام کا مطلب رعایا اور رعایا کا مطلب اس کے لشکر کی نرسری تھا، ویسے تو ساری دنیا میں ہر بادشاہ کا یہی مقصد تھا پھر وہ جاپان ہو چین ہو یونان ہو فرانس ہو یا ہندوستان لیکن ہمارے خطے میں آج بھی ذہنی تربیت کان میں اذان سے شروع ہو کر بغیر معنی سمجھے قرآن پڑھنے سے ہوتی ہوئی اللہ اکبر کے نعروں میں میدان جنگ پر دشمن کو تہہ و بالا کرنے پر ختم ہوتی ہے جسمانی تربیت تب بھی شمشیر زنی اور گھڑ سواری سے ہوتی ہوئی سامان حرب کے ساتھ انسانوں کی گردنیں کاٹنے پر ختم ہوتی تھی آج بھی ہمارے ہاں اسلحہ مرد کا زیور قرار دیا جاتا ہے، تب بھی فنون حرب کو مرد کی شان سمجھا جاتا تھا آج بھی اپنی مردانگی دکھانے کے لیے ایک عدد دشمن کا ہونا لازم ہے

بھلے انسان نے ترقی کر لی جدید دنیا میں ہاتھ میں تلوار اور سر قلم کرنے کے مہارت کی بجائے ہاتھ میں قلم اور مہارت کے شعبے فنون حرب کی جگہ فنون مفیدہ و لطیفہ ہو گئے، مرد کی زیبائش و آرائش اس کے اسلحے کی بجائے اس کی ڈگریوں سے ہونے لگی عورت و مرد کی تفریق کی جگہ عورت کی برابری نے لے لی عورت نے باندی غلام جنس سے انسان کا درجہ حاصل کیا وہ کچن سے نکل کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچی مرد کے شانہ بشانہ ہوئی اپنی تعلیم و صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے خاندان اپنے باپ اپنے بھائی اپنے شوہر کا سہارا بنی دنیا بھر میں جسم پر تسلط کی بجائے ذہنوں کی فتح مقصد حیات ٹھہرا، میدان جنگ کی جگہ لیبارٹری اور لائبریری مشق گاہ بنیں، زمین کی تہہ اور آسمان کی وسعتیں تسخیر کرنا ہدف ہوا دوسرے ملکوں کو دشمن کی جگہ مفید دوست کی نظر سے دیکھا جانے لگا لشکر بھیجنے کی بجائے سفیر جنگی پڑاؤ کی جگہ سفارت خانے نے لے لی دشمن سازی کی بجائے دوست یابی روش بنی مگر افسوس ہم آج بھی ماضی کے ایستادہ میناروں کی اوٹ سے حال کی اس روش پر دو حرف بھیجتے ہوئے زہرآلود نگاہوں سے دنیا کو گھور رہے ہیں آج بھی ہماری دوشیزاؤں کے خوابوں کا شہزادہ سینے پر تمغے اور میڈل سجائے وردی پوش نوجوان ہے آج بھی ہمارے بچوں کا ہیرو سینے پر بم باندھ کر دشمن کے چھکے چھڑانے والا وہ مجاہد ہے جس کی بہادری سے نہ صرف وہ خود بلکہ اس کے ساتھ اس کا خاندان بھی شہید جاتا ہے صرف یہی نہیں اس کی بہادری کا شکار بننے والا دشمن اور اس دشمن کے ساتھ ساتھ اس کا بھی پورا خاندان جہنم واصل ہو جاتا ہے

ہماری اس ماضی پرست روش کا لامحالہ نتیجہ دشمن سازی ہے اور دشمن ساز قوم انسان کش ہوتی ہے اور انسان کشی کی جو روایتیں ہم آج کل قائم کر رہے ہیں وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں

سب کو پتا ہے کہ اک وقت تھا جب جرمنی اور فرانس کی لڑائی نے بھی پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا تھا امریکہ اور جاپان کی دشمن سازی سے بھی کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے تھے مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ آج جرمنی اور فرانس کے درمیان بسیں چلتی ہیں آپ فرانس میں ٹرین کا ٹکٹ خریدیں اور ٹرین آپ کو جرمنی کے سٹیشن پر اتارتی ہے درمیان میں کب سرحد آئی کب گئی معلوم ہی نہیں پڑتا آج امریکہ و جاپان کے مابین ہونے والا کاروبار دنیا بھر کے کسی بھی دو ممالک کے درمیان ہونے والے کاروبار میں سب سے اوپر ہے وہی امریکہ جس نے کچھ عرصہ قبل جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے تھے آج جاپان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے امریکی معیشت اس وقت جاپان کی مرہون منت ہے جاپان جب چاہے امریکہ کی چوہدراہٹ کو ریت کی دیوار ثابت کر سکتا ہے یہ سب احساس کی بدولت ہوا کہ ادراک کہ سرحد کے اس پار اور اس پار دونوں انسان ہیں ان کے رشتے ہیں یہ کسی کے خاندان کے کفیل ہیں کسی باپ کا سہارا ہیں کسی ماں کے جگر کا ٹکڑا ہیں

جس دن ہم لوگوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ سرحدوں پر مورچہ بند ان جوانوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں اس دن نہ تو بھارت کو لائن آف کنٹرول پر شیل گرانے اور بلوچستان میں دخل اندازی کرنے کی ضرورت ہو گی نہ ہی ہمارے آرمی چیف کو ایسا بیان دینا پڑے گا کہ تمہیں چن چن کر ماریں گے تمہاری گولیاں ختم ہو جائیں گی ہمارے جوانوں کی چھاتیاں ختم نہیں ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں:

ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

رضوان ظفر گورمانی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author