نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

با ادب با ملاحظہ ہوشیار !۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سرکاری خزانے کی بے دردی سے لوٹ مار ہو ، خوشامدی درباری، محلاتی سازشیں ہوں، انصاف کی فراہمی میں پسند نا پسند کی بنیاد پر ہو ، غریب کی مفلسی کی کسی کو فکر نہ ہو، بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی دور حاضر کے حکمران کا تذکرہ ہو رہا ہے لیکن یہ حقیقت دراصل کلاسک ڈراما سیریل’’ با ادب با ملاحظہ ہوشیار ‘‘ ہے۔ شاہکار ڈرامہ سیریل کے ہدایت کار حیدر امام رضوی تھے جنہوں نے ڈرامے میں بادشاہ کی کہانی کو پیش تو کیا لیکن بادشاہ جابر الدولہ کوئی نسل در نسل بادشاہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا شاطر وزیر ہوتا ہے جو چند لالچی اور مفاد پرست وزیروں کے ساتھ مل کر اقتدا رحاصل کرتا ہے۔ اس ڈرامے میں محلوں میں پنپنے والی سازشوں اور حالات و واقعات کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ۔ اطہر شاہ خان جیدی کے لکھے اس ڈرامے کو لگ بھگ 30 سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھی اس ڈرامے کو دیکھیں تو مکالمات اور ڈرامائی مناظر آج کے ماحول کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔ اس ڈرامے میں عام لوگوں کیلئے تفریح اور ہنسی مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں لیکن سنجیدہ ، باشعور اور پڑھے لکھے افراد کیلئے اس ڈرامے میں عقلوں پر دستک دینے کا سارا سامان موجود ہے۔ اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا، نگران وزیر اعظم کے حوالے سے بہت سے امیدواروں کی شیروانیاں الماریوں میں لٹکی رہ گئیں، جو نام سامنے آ رہے تھے تو اس موقع پر میں نے دوستوں کے سامنے یہ کہا تھا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ تمام نام آئوٹ ہو جائیں اور ایک ایسا نام سامنے آئے جو کہ موجودہ لسٹ میں شامل نہ ہو۔ میں نجومی تو نہیں البتہ میں نے یہ بات اس بناء پر کی تھی کہ پاکستان کی سیاست میں اکثر انہونیاں ہوتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) والے خود کو دلاسے تو دے رہے ہیں لیکن نگران وزیر اعظم کی تقرری سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پی ڈی ایم کی بھی نہیں مانی گئی ، البتہ آئندہ وزیر اعظم نواز شریف یا آئندہ وزیر اعظم بلاول بھٹو ، فی الحال دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کے مصداق سبھی اپنی اپنی جگہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ بہرحال فیصلے اوپر سے ہوتے ہیں۔مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے پر گارنٹی مل چکی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نوازشریف کی عدالتوں سے بریت طے ہے اور اُن کے لیے زیرو رسک ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی پر اسلام آباد میں ان کا بھر پور استقبال اور پریڈ گرائونڈ میں جلسہ کا شیڈول تیار کیا ہے، بعد ازاں نواز شریف بذریعہ جی ٹی روڈ ریلی کی صورت میں لاہور آئیں گے اور مختلف مقامات پر خطاب بھی کرینگے جبکہ لاہور پہنچ کر بھی بڑا عوامی جلسہ ہوگا ۔ اس سلسلے میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کو خصوصی ٹاسک سونپ دیا گیا ہے، ذرائع بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے شیڈول میں نواز شریف کی واپسی لاہور ائیر پورٹ پر ہو گی جہاں ان کا تاریخی استقبال کیا جائے گا اور پھر لیگی قائد داتا دربار پر بھی حاضری دیں گے ۔لندن میں صحافی نے نواز شریف سے سوال کیا کہ آپ کے پاکستان جانے کی خبریں گرم ہیں ؟ جس پر نواز شریف نے کہا کہ بس جی دعا ہے کہ ہم بھی پاکستان جائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ پاکستان سے باہر کیوں گئے؟ لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یاسمین راشدہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں مگر ان کا علاج جیل میں ہو رہا ہے، کیا نواز شریف اس سے زیادہ علیل تھے؟ ایک طرف سیاستدانوں کی سیاسی کارستانیوں کا ہم ذکر کر رہے تھے تو دوسری طرف نگران حکومت کی جانب سے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے جو کہ غریب عوام پر ظلم کے مترادف ہے۔اس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا براہ راست مہنگائی سے تعلق ہے کہ اس کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو مہنگائی خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان ریلوے نے مسافر ٹرینوں کے کرایوں میں دس فیصد جبکہ مال گاڑیوں کے کرایوں میں پانچ فیصد اضافہ کر دیا ہے، ادھر آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ آنرز فیڈریشن نے کرایوں میں اضافے کر دیا ہے۔ صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں تقریباً 10روپے فی یونٹ اضافے کے دوران پہلے ہی اپنی بقا کی جدوجہد کرنے والی صنعت پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ برداشت نہیں کر سکتی۔ حالیہ اضافہ موجودہ مہنگائی کے دبائوکو مزید بڑھا دے گا، اس سے بنیادی اشیائے ضروریہ اور اشیا ء سازی کے اخراجات میں اضافہ ہوگا، 50 فیصد صنعتی یونٹ پہلے ہی کام بند کر چکے جبکہ باقی بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، خدشہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد باقی 50 فیصد صنعتیں بھی بند ہو جائیں گی اور بیروزگاری مزید بڑھے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں گزشتہ مالی سال کے دوران سالانہ بنیادوں پر 10.26 فیصد کمی ہوئی۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران مسلسل 10ویں مہینے پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی، اس کی بنیادی وجہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداوار میں سست روی ہے۔ مالی سال 2023 ء میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی بڑی تعداد میں بے روزگاری میں اضافے سے ظاہر ہوتی ہے۔ آج ڈالر بے قابو ہو کر 300 سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2023ء میںبیرونی سرمایہ کاری میں 77 فیصد کمی ہوئی جبکہ ملک میں تعمیراتی سریے کی فی ٹن قیمت میں 10 ہزار روپے اضافہ ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان نے پوری قوم کو خوفزدہ کر دیا ہے، نگران حکومت تاریخ میں اپنا نام بنانا چاہتی ہے تو تمام محکموں کے سرکاری اخراجات میں کمی جائے ، بڑے افسران کو پٹرول کی مفت فراہمی بند کی جائے اور ایک بھی بجلی کا یونٹ کسی کیلئے فری نہیں ہونا چاہئے ، بہت ضروری ہو چکا ہے کہ غریب کو ختم کرنے کی بجائے غربت کا خاتمہ کیا جائے۔

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author