سپریم کورٹ نظرثانی قانون کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 خلاف قانون قرار
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 کالعدم قرار
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ
جسٹس منیب اختر نے اضافی نوٹ تحریر کیا ، سپریم کورٹ
پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا،سپریم کورٹ
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی قانونی حیثیت نہیں ،سپریم کورٹ
ریویو آف ججمنٹس ایکٹ اختیارسے تجاوزکرکے بنایا گیا،سپریم کورٹ
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا
سپریم کورٹ نے6 ساعتوں کےبعد19جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا
اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اخترسپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے
پارلیمنٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 منظور کیا تھا
پارلیمنٹ نے ایکٹ کے ذریعے لارجر بینچ کے سامنے نظرثانی اپیل کا حق دیا تھا
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ سے متعلق 15صفحات پرمشتمل فیصلہ جاری
ہم نے آئین کا تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے، سپریم کورٹ
کسی بھی قانون کو کالعدم قراردینے کے اختیار کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہے، سپریم کورٹ
قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں، فیصلہ
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ آئین سے واضح طور پر متصادم ہے، سپریم کورٹ
یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے، سپریم کورٹ
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کو اسطرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو، عدالت
اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب اُمڈ آئے گا، فیصلہ
سائلین عدالت سے رجوع کریں گے کی بات کو سامنے رکھے بغیر جو فیصلے دیئے گئے ان پر عملدرآمد بھی ہوچکا، فیصلہ
پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی،عدالت
طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے،تحریری فیصلہ
کوئی شک نہیں کہ مجوزہ قانون کا مقصد آرٹیکل 184/3 کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا ، عدالت
یہ سوال کہ پارلیمنٹ بینچز کی تشکیل سے متعلق قانون بنا سکتی ہے؟جواب نفی میں ہوگا،عدالت
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے تفصیلی فیصلے میں 5 رکنی لارجر بینچ کا حوالہ دے دیا
5رکنی لارجر بینچ طے کر چکا ہے کہ بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کو ہے،عدالت
سپریم کورٹ قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتی، عدالت
آئین واضح کر چکا ہے تمام فریقین عدالتی فیصلوں پر عمل کے پابند ہونگے، تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرایکٹ کی 7 شقیں
شق 1،سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرزایکٹ2023 کہلائےگا
شق2،سپریم کورٹ کادائرہ اختیارمفاد عامہ کےمقدمات کی نظر ثانی کےلیےبڑھایاگیا
شق3،نظرثانی کی سماعت کرنےوالےبینچ میں ججزکی تعداد مرکزی کیس سےزیادہ ہوگی
شق 4،نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کرسکےگا
شق 5،ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کےپچھلےتمام مقدمات پرہوگا
شق6، متاثرہ فریق ایکٹ کےاطلاق کے60دن میں اپیل دائرکرسکےگا
شق7،ایکٹ کا اطلاق ملتےجلتےقانون،ضابطےیاعدالتی نظیرکےباوجود ہرصورت ہو
ماہرین قانون کی رائے
سپریم کورٹ نے صرف دیکھنا تھا کہ قانونی تھایا نہیں،جسٹس (ر) شائق عثمانی
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ قانون تو بن گیا تھا،جسٹس (ر) شائق عثمانی
ایکٹ کالعدم ہونے کے بعد حکومت صرف نظرثانی میں جاسکتی ہے ،شائق عثمانی
پارلیمنٹ کی جانب سے منظور قانون پر سپریم کورٹ کالعدم قراردے سکتی ہے،شائق عثمانی
پارلیمان کے اختیار میں باربار مداخلت کی روایت اچھی نہیں ،ا عظم نذیر تارڑ
تاثر جاتا ہے کہ پارلیمان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھایا گیا، اعظم نذیر تارڑ
آئین میں طریقہ کار واضح ہے کہ اداروں نے کیسے چلناہے، اعظم نذیر تارڑ
قانون بارکونسلز اور بارایسوسی ایشنز کا دیرینہ مطالبہ تھا، اعظم نذیر تارڑ
نواز شریف کیس پر اس عدالتی فیصلے کاکوئی اثر نہیں پڑیگا، اعظم نذیر تارڑ
سیاست میں حصہ لینا ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، اعظم نذیر تارڑ
نواز شریف کیس پر اس عدالتی فیصلے کاکوئی اثر نہیں پڑیگا، اعظم نذیر تارڑ
سیاست میں حصہ لینا ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، اعظم نذیر تارڑ
قانون سازی کے بعد سیاست میں حصہ لینےکےسب اہل ہوچکےہیں، اعظم نذیر تارڑ
اس مداخلت سے ادارے مضبوط نہیں کمزور ہونگے، اعظم نذیر تارڑ
سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دی جاسکتی ہے، اعظم نذیر تارڑ
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ