نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حقیقی جمہوریت! !۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری دی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان کی آبادی 24کروڑ 10لاکھ تک پہنچ گئی ہے، ادھر ادارہ شماریات کی جانب سے ساتویں مردم شماری کے نتائج کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ایک بات یہ بھی ہے کہ ساتویں مردم شماری کے نتائج پر وسیب کے علاوہ سندھ ، بلوچستان کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کر دوں گا ، اس کے بعد نگران حکومت آئے گی اور الیکشن ہوں گے جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51کے تحت عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعدانتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ نئی مردم شماری کے گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد آئین کے آرٹیکل 15 (1) کے سب سیکشن 5 کے تحت الیکشن کمیشن از سر نو حلقہ بندیاں کرانے کا قانونی طور پر پابند ہے اور حلقہ بندیوں کا کام 120دن میں ہونا ہے۔ بد قسمتی سے ملک میں عدم اعتماد اور بے یقینی کی فضاء قائم ہے، اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت سے نکلنے کا واحد حل بروقت صاف اور شفاف انتخابات ہیں، اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے ، سیاسی جماعتوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔بیرونی سرمایہ کاری، سی پیک و دیگر بڑے منصوبوں میں پیش رفت خوش آئند مگر جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا، معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا یہ کہنا درست ہے کہ خانہ شماری کی آڑ میں الیکشن کا التواء نا قابل قبول ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اتحادی جماعتیں مہنگائی اور مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے عوام میں جانے سے گریزاں ہیں۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جس نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہر روز بجلی و پٹرول بم گرائے جا رہے ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں وقت پر انتخابات نظر نہیں آرہے، اس میں تاخیر سے ملک کو مزید معاشی نقصان پہنچے گا۔ سیاسی جماعتیں اپنا منشور لے کر عوام میں جائیں جسے مینڈیٹ ملے تسلیم کرکے نظام کو آگے بڑھایا جائے اور سیاسی جمود توڑا جائے۔ شفاف انتخابات کیلئے ضروری ہے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن اور نگران حکومت غیر جانبدار ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر بھی انگلیاں اُٹھ چکی ہیں، الیکشن کمیشن کس طرح اپنی غیر جانبداری ظاہر کرتا ہے یا کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرتا ہے، یہ اُس کی اپنی کارکردگی پر منحصر ہے، ملکی صورتحال روز بروزبد تر ہوتی جا رہی ہے۔ باجوڑ کے بم دھماکے نے صورتحال کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے علاوہ بلوچستان میں بدترین دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، بد امنی کی لہر پر قابو نہ پایا گیا تو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بے یقینی کی صورتحال، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معاشی صورتحال بہتر نہیں ہو گی، ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کیلئے حقیقی جمہوریت کی طرف جانا ہو گا اور اس سلسلے میں پہلا قدم بروقت، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کراناہوں گے۔ اگر انتخابی عمل اور نتائج پر سوال اٹھے تو اس کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ فیئر پلے ہونا چاہئے، عوام کو اپنے ووٹ کی آزادی ہو، جسے وہ منتخب کریں اسے مینڈیٹ دے کر سیاسی نظام کو آگے بڑھایا جائے۔یہ بھی دیکھئے کہ جماعت اسلامی تو کیا الیکشن پر سب سے بڑی اتحادی جماعت کے رہنما فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی نئی مردم شماری کے تحت انتخاب کرانے کے بیان کے بعد انتخابات وقت پر ہونے کے متعلق شکوک و شبہات گہرے ہونے لگے ہیں۔ حکمران یہ توکہتے ہیں کہ چین کے ساتھ سی پیک منصوبے کا فیز ٹو، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کے ساتھ گوادر و دیگر منصوبے ایسے ہیں کہ پاکستان معاشی طاقتوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے مگر اس کا صحیح معنوں میں فائدہ تب ہو گا جب ملک میں سیاسی استحکام ہو گا۔ یہ بات سب کو سمجھنی پڑے گی کہ سی پیک سمیت تمام اہم منصوبہ جات پاکستان کو گوادر، بلوچستان کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں مگر بلوچستان اب بھی رو رہا ہے۔ وسیب سمیت تمام محروم خطے نا انصافی کی دوہائیاں دے رہے ہیں، ان کی فریاد کون سنے گا؟ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی بھی لاہور میں بنائی جا رہی ہے؟ حکمرانوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ یہ نام ہی ایسا ہے جو معدنی دولت سے مالا مال مگر معاشی اعتبار سے تباہ حال بلوچستان کو اشتعال دلانے کیلئے ہی کافی ہے کہ یونیورسٹی گوادر کے نام سے ہے اور بنائی لاہور میں جا رہی ہے مگر ہمارے عاقبت نہ اندیش حکمرانوں کو کبھی ان باتوں کا احساس نہیں۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا بھی اسی طرح استحصال ہوا اور وہ اسی طرح چیختے چلاتے رہے جیسے سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لوگ چلا رہے ہیں۔ الیکشن کی باتیں بہت ہو رہی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں گزشتہ ایک برس کی کارکردگی و مشکل حالات کے باعث انتخابات میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی، ایک تجربہ تحریک انصاف کی صورت میں کیا گیا ، اب وہی تجربہ دوبارہ دہرایا جا رہا ہے۔ پہلے نوازشریف کو پیچھے کرنے کیلئے عمران خان کو لایا گیا، اب عمران خان کو پیچھے کرنے کیلئے پھر (ن) لیگ کو تخت پر بٹھایا گیا ۔ الیکٹک ایبل پی ڈی ایم میں جا رہے ہیں جس جماعت سے انہیں خطرہ ہے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حکومت اور عسکری قیادت مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے کام کر رہی ہیں، ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی طرف جانا چاہئے تاکہ سیاسی استحکام لا کر معاملات کو بہتر کیا جا سکے۔ ملک کو حقیقی جمہوریت کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی بے راہ روی ترک کرنا ہو گی ورنہ پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کبھی درست نہ ہو سکیں گے۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author