نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سراب ،سائے اور جمہوریت!!۔۔۔||عاصمہ شیرازی

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائبرڈ دور کے تخلیق کار جنرل بھی پسِ زندان ہوتے مگر یہ نہ کبھی ہوا نہ ہی ہو سکے گا تاہم عمران خان گرفتار ہو گئے۔ عوام نے بظاہر کسی طرح کا ردعمل نہیں دیا۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتہ ہی نہیں چلا کہ کب چُپ چاپ جمہوریت نے سمجھوتہ کر لیا۔ ہاتھوں سے ایسی گرہیں لگا دی گئی ہیں جو اب دانتوں سے بھی نہ کُھلیں گی۔ ذمہ دار کون ہے اور قصوروار کون؟ اب یہ سوال بے معنی ہے۔

عجب صورتحال ہے، آئین ہے بھی اور نہیں بھی، پارلیمنٹ ہے بھی اور نہیں بھی، قوانین ہیں مگر نامعلوم، ہم ایسے ہائبرڈ ہوئے ہیں کہ بظاہر جمہوریت میں ہیں لیکن آمریت نما جمہوریت، آزادی رائے کا دور ہے مگر رائے پابند۔ تھوڑی سی جموریت کا تڑکا اور تھوڑا سا آئین، تھوڑی سی آزادی رائے اور تھوڑا سا اظہار، بس اب اِسی پر گُزارا ہے۔

پارلیمنٹ میں دہائی دیتے رضا ربانی یا عرفان صدیقی اپنی آئینی جبلت سے مجبور ہیں اور اپنی حجت تمام کر رہے ہیں جانتے ہوئے بھی کہ جس تہتر کے آئین کی وہ بات کرتے تھے پہلے وہ ہائبرڈ دور کی تخلیق میں، پھر تریسٹھ اے کی تشریح میں اور اب ’نظریہ ضرورت‘ کی تعبیر میں گھٹنوں کے بل آ چکا ہے۔

آئین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر آئین بوڑھا ہو رہا ہے۔ اب پچھتاوا کہیں یا مداوا، احساس کہیں یا انداز مگر کسی طور قدرے معصومیت کے ساتھ بلاول بھٹو نے ’گذشتہ پندرہ ماہ میں ہم اداروں کو اُن کے دائرے میں نہیں لا سکے‘ کے ایک جملے میں بات مکمل کی، مگر یہ کیسے ہوا اس کا ادراک کب ہوا۔ اس کے لیے یا الفاظ کم تھے یا اظہار کا سلیقہ نہ تھا۔

عمران خان کی توشہ خانہ میں گرفتاری اور سزا نوشتہ دیوار تھی بالکل اُسی طرح جس طرح نواز شریف کی سزا۔ توشہ خانہ کی رسیدیں بھی نہ ملی جس طرح اقامہ کی تنخواہ نہ ملی۔ انتخابات سے پہلے نواز شریف جیل گئے اور اب عمران خان مگر یہاں ابھی یہ معلوم نہیں کہ انتخابات ہوں گے تو کب ہوں گے۔

عجب دوراہا ہے کہ معیشت کے تقاضے اپنی جگہ حقیقت اور انتخابات کی صورت انتخابی اتھل پتھل اپنی جگہ جواز، آئینی تقاضے بھی ضروری اور انتخابی مجبوریاں بھی، عمران خان کے خلاف قانونی کاروائی بھی اہم اور سیاسی استحکام کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔

گذشتہ چند ماہ میں سیاست کے نام پر جس طاقت کا استعمال ہوا اور انصاف کے نام پر جس طرح عدالتی ریلیف ملے اُس نے فسطائی رجحان پر مائل کیا جس کا حتمی نتیجہ غیر اعلانیہ آمریت ہی ہو سکتا تھا، جواز بہت سے تھے لہٰذا ہائبرڈ کو پلس اور کپتان کو مائنس کیا گیا۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ عمران خان نے جس نظام سے فائدہ اٹھایا اُسی نظام نے اُن کے ہاتھ باندھے۔ ہائبرڈ دور میں طاقت پانے والی فسطائیت کو کس طرح روکا جاتا اس کے لیے نہ تو قوانین موجود اور نہ ہی آئین اجازت دیتا ہے، قانونی ضروریات اور آئینی حاجات مقبولیت کے پہناوے میں جمہوریت کو ہی نگل گئیں۔

شخصیت پرستی کے خاتمے کے لیے فردِ واحد کو ایک بار پھر سامنے آنا پڑا، یہی وہ جواز تھا جس نے فسطائیت کے مقابلے پر آمریت کو لاکھڑا کیا۔ کچھ عرصہ قبل اسی قلم سے لکھا تھا کہ ہم ایسے دور میں ہیں جہاں آمریت اور فسطائیت میں سے کسی ایک کو چُننا پڑے گا۔

اس پورے معاملے میں سیاسی اور جمہوری جماعتیں محض حیران نگاہوں سے نظام کا انتقام دیکھتی رہیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ جس طاقت کے ساتھ اُنھیں بے اعتبار کیا گیا اور جس اختیار کے ساتھ اُنھیں بے سہارا کیا گیا اُس کا خمیازہ اُن کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی بھگتنا پڑا۔ دیوار سے لگی سیاسی جماعتیں محض اپنے تشخص کے لیے بے بس رہیں اور تبدیلی کے منہ زور گھوڑے نے جمہوری اور سیاسی اقدار روند ڈالیں۔

غلطی کہاں ہوئی؟ کیا اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتیں اور اہم راہنما خود سے آنکھیں چار کر کے یہ سوال ڈھونڈ سکتے ہیں؟ غلطی پیپلز پارٹی کو غیر اہم بنا کر ہوئی، ن لیگ کو رسوا کر کے ہوئی یا تحریک انصاف کو اثاثہ بنا کر سرزد ہوئی؟ غلطی جنرل باجوہ کو متفقہ قانون سازی کے ذریعے توسیع دے کر ہوئی یا ووٹ کو عزت دیتے دیتے ’سمجھوتے‘ پر ہوئی؟

ستم ظریفی کہ جس لمحے ووٹ کو عزت دینے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا اُسی لمحے جنرل باجوہ سے خاموش سمجھوتہ بھی کیا جا رہا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل باجوہ تب بھی اور شاید آخری وقت تک کسی اور ’معاہدے‘ کے پابند رہے، آخری وقت تک اسلام آباد کے بڑے گھر میں خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے اور شاید ایک بار پھر مارشل لا لگ چکا ہوتا۔ اس کی گواہی ہو سکتا ہے کسی وقت موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی آن دا ریکارڈ لے آئیں جن کی بروقت مداخلت نے کھیل کا پانسہ پلٹا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائبرڈ دور کے تخلیق کار جنرل بھی پسِ زندان ہوتے مگر یہ نہ کبھی ہوا نہ ہی ہو سکے گا تاہم عمران خان گرفتار ہو گئے۔ عوام نے بظاہر کسی طرح کا ردعمل نہیں دیا۔

شہباز حکومت شمار میں آنے کے لیے جاتے جاتے نئی مردم شماری کا جواز لے آئی ہے، انتخابات کم از کم مارچ تک دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومت کی کنجی آئندہ دو دنوں میں ’نگرانوں‘ کے ہاتھ ہو گی پھر ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ وہ نیا دور جس کی ’نئی قدریں‘ ہوں گی، جس کا ’نیا نام‘ ہو گا؟ سیاست پھر وہیں کھڑی ہے جہاں ہر دس سال بعد آ کھڑی ہوتی ہے؟ خدا کرے اب کی بار سب خدشے غلط ثابت ہوں۔

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author