وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1947 میں بیرونی حکمرانوں کی رخصتی کے بعد ہمارے ملک کا بنیادی المیہ عوام اور ریاست میں ایسا نامیاتی اور جمہوری تعلق پیدا کرنے میں ناکامی رہا ہے جس میں عوام کو ریاست پر اعتماد ہو کہ انہیں معاشی وسائل کی تقسیم پر فیصلہ سازی میں بامعنی طور پر شریک کیا جائے گا، وفاق کی اکائیوں کو ان اصولوں کے تحت حقوق مل سکیں گے جن کا ان سے مطالبہ پاکستان کے دوران وعدہ کیا گیا تھا۔ انہیں قانون کے مطابق انصاف تک رسائی مل سکے گی۔ نیز ریاست شہریوں کے معاشی مفادات کا تحفظ کرے گی تاکہ ان کا معیار زندگی بہتر بنایا جا سکے۔ ابتدائی برسوں ہی میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ یہ تمام توقعات زمین بوس ہو گئیں۔
پاکستان کے ابتدائی پچیس برس دو مسئلوں کی نذر ہو گئے۔ دستور سازی اور ملک کے مشرقی اور مغربی حصے میں سیاسی اقتدار کی قابل عمل تقسیم۔ اس کشمکش میں ریاستی اداروں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سیاسی عمل میں تعطل آ گیا اور بالآخر مشرقی پاکستان نے خونریز کشمکش کے بعد ایک الگ مملکت قائم کر لی۔ بنگلہ دیش کا قیام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہی نہیں تھا، 1947 میں قائم ہونے والے ریاستی بندوبست کی بدترین ناکامی بھی تھا۔ ملک کی 56 فیصد آبادی اور ایک تہائی رقبہ جاتا رہا۔ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی جنس پٹ سن ہاتھ سے نکل گئی۔ جو ملک بیک وقت جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے دو اہم جغرافیائی منطقوں پر محیط تھا وہ جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے مختلف النوع منطقوں میں گھر گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پاکستانی عوام کے خلاف بدترین ریاستی جرم تھا۔ اس سانحے سے ٹھیک سات برس بعد ایک نئی فوجی آمریت کے مفادات کو تقویت دینے کے لیے قوم کے خلاف دوسرا بدترین جرم کیا گیا۔ افغان معاملات میں پاکستان کا ملوث ہونا ایک ایسی دلدل میں اترنے کا نقطہ آغاز تھا جو آج تک قوم کے گلے سے ایک بھاری پتھر کی طرح بندھا ہے۔
غیر پیداواری مالی امداد کے عوض بیرونی مفادات کی آبیاری کے تسلسل سے قطع نظر پاکستانی فیصلہ سازوں نے پاکستان اور افغانستان کے تشکیلی عناصر میں بنیادی فرق کو نظرانداز کر دیا۔ پاکستان ایک دستوری سمجھوتے کے نتیجے میں وجود میں آنے والی مختلف لسانی، مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی اکائیوں کا ایسا وفاق تھا جو اپنے قیام کے بعد سے مذہبی شناخت کے بل پر مشترکہ اجتماعی شناخت تشکیل دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ دوسری طرف افغانستان دوسری عالمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والے عالمی بندوبست کے حاشیے پر ایک ایسی ریاست تھا جس کا بنیادی مسئلہ نسلی اور قبائلی مفادات میں قابل عمل توازن قائم کرنا تھا۔ پاکستان میں دستوری سیاست کے خدوخال موجود تھے جن کا بنیادی طریقہ کار سیاسی مکالمہ ہوتا ہے۔ سیاسی مکالمے میں اختلاف اور سمجھوتے کے عناصر موجود ہوتے ہیں۔ نسلی اور قبائلی اختلافات میں وسیع تر معاشی مفادات اور اجتماعی سمجھوتے کا امکان مفقود ہوتا ہے۔ 70ء کی دہائی کے آخر میں پاکستان نے افغان معاملات میں دخل اندازی کا فیصلہ کیا تو قابل سمجھوتہ مکالمے اور ناقابل عبور قبائلی اختلافات کے اس بنیادی سیاسی فرق کو نظر انداز کر دیا گیا۔
پاکستانی مقتدرہ اور افغان متحارب قوتوں کے درمیان مقاصد کے چند در چند اختلافات پائے جاتے تھے۔ پاکستانی قیادت کو اندیشہ تھا کہ اسے سوویت یونین اور افغانستان کی طرف سے مغرب میں اور بھارت کی طرف سے مشرق میں دو طرفہ جنگ میں نہ الجھنا پڑے۔ اگرچہ مغربی محاذ پر جارحیت کا امکان بہت کم تھا لیکن پختون اور بلوچ قوم پرستوں کی درپردہ مدد کا خدشہ موجود تھا۔ دسمبر 1979 کے فوراً بعد محتاط اندازے کے مطابق چار لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے جنہیں نقل و حمل کی خاصی آزادی میسر تھی۔ بعد ازاں ایک مرحلے پر یہ تعداد 35 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان مہاجرین کی بدولت پاکستان کو انسانی بنیادوں پر مالی امداد کی توقع بھی تھی اور ان مہاجرین کی مدد سے افغانستان میں درپردہ مداخلت میں بھی سہولت تھی۔ افغان صورت حال جنرل ضیاالحق کی آمریت کے لیے طوالت کی ضمانت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1988 کے ابتدا میں وزیراعظم جونیجو نے جنیوا معاہدے پر دستخط کا ارادہ کیا تو ضیاالحق نے اسے براہ راست اپنے شخصی اقتدار پر حملہ تصور کرتے ہوئے 13 مارچ 1988ء کو اس وقت کے نائب وزیر خارجہ زین نورانی کی کابینہ کے اجلاس میں ناقابل اشاعت الفاظ میں تواضع کی تھی۔ ضیاالحق ایک طرف سوویت افواج کی واپسی کے باوجود افغانستان میں مداخلت جاری رکھتے ہوئے عالم اسلام کا نام نہاد رہنما بننا چاہتے تھے، دوسری طرف ان کی خواہش تھی کہ کابل میں اپنے زیر اثر گروہوں کی حکومت قائم کر کے افغانستان کو عملی طور پر پاکستان کی ذیلی ریاست میں بدل دیا جائے۔
ضیاالحق سمیت پاکستانی فیصلہ ساز افغان گروہوں کی قبائلی نفسیات اور باہم اختلافات کی نوعیت سے قطعی ناآشنا تھے۔ سوویت وزیر خارجہ شیورناڈزے نے جنیوا معاہدے کے بعد پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ اب وہ بھی خود کو افغان معاملات سے الگ کر لے۔ فروری 1989 میں سوویت انخلا کے بعد امریکا سمیت مغربی ممالک کا سرد جنگ کے دوران سب سے بڑا خفیہ آپریشن بھی اپنے اہداف کو پہنچ چکا تھا۔ تاہم پاکستان 80ء کی دہائی میں جس سیاسی اور سماجی نقشے کا اسیر ہو چکا تھا اور پاکستان میں افغان جنگ سے وابستہ معاشی مفادات ایسی وسعت اختیار کر چکے تھے کہ پاکستان درپردہ مسلح حکمت عملی کو اپنا قیمتی اثاثہ تصور کر رہا تھا۔
مارچ 1989 میں جلال آباد پر حملہ شروع ہوا جسے نجیب حکومت نے مئی 89ء تک مکمل شکست دے دی۔ اس دوران مشرقی یورپ اور سوویت یونین میں تبدیلیوں کے بعد اپریل 1992 میں نجیب اللہ مستعفی ہو گئے اور افغانستان خانہ جنگی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا۔ پاکستان کی زیر سرپرستی معاہدہ پشاور کامیاب ہو سکا اور نہ افغان عبوری حکومت موثر بندوبست قائم کر سکی۔ حتیٰ کہ ستمبر 1994 میں طالبان نمودار ہو گئے اور 1996ء میں کابل پر قبضہ کر لیا۔
(جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر