رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندرا گاندھی کی ہچکچاہٹ نے امریکی صدر کو حیران کرد یا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ بھارتی وزیراعظم تھوڑی دیر کیلئے وائٹ ہاؤس کے ڈانس فلور پر امریکی صدر کے ارد گرد گھوم جاتی۔ اندرا گاندھی نے صدر جانسن کو کہا کہ اس کے مخالفین اس کا جینا حرام کر دیں گے اور وہ عوام میں فوراً غیر مقبول ہو جائے گی۔ جانسن یہ سُن کر 49سالہ اندرا کو دیکھ کر بولا: اس لڑکی کو بھارت میں مشکلات نہیں ہونی چاہئیں۔ ساتھ ہی جانسن نے اعلان کر دیا کہ وہ بھارت کو 30لاکھ ٹن گندم اور 90لاکھ ڈالرز کی فوری امداد دے رہا ہے تاکہ بھارت کے عوام کی خوراک کی ضروریات اور ڈالروں کی کمی پوری ہو سکے۔ یہ اندرا گاندھی کا کامیاب دورہ تھا۔
اندرا نے واشنگٹن سے سیدھی ماسکو کی فلائٹ لی اور وہاں الیکسی کوسیجن (Alexei Kosygin) سے ملاقات کی۔ پھر لندن میں برطانوی وزیراعظم ہیرلڈ وِلسن سے ملی۔ ان دوروں کے بعد جب اندرا بھارت لوٹی تو شور مچ گیا کہ اندرا نے امریکی صدر جانسن سے جو ”ڈیل‘‘ کی ہے‘ اس سے بھارت کا بیڑا غرق ہو جائے گا‘اندرا پر تنقیدی حملے شروع ہو گئے ۔ آخر وہ اس بات پر راضی ہی کیسے ہوئی کہ بھارتی روپے کو ڈالرز کے مقابلے میں کم کیا جائے گا اور امریکہ کی یہ شرط کیسے مان لی گئی کہ امریکہ اور بھارت ایک مشترکہ تعلیم فاونڈیشن بنائیں گے؟ اندرا کو اس بات پر بھی خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے ویتنام پر امریکی جارحیت کو کلین چٹ دے دی ۔ اگرچہ اندرا امریکہ سے واپسی پر اپنے خلاف چلنے والی مہم سے گھبرائی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے ناقدین کے دباؤ تلے آنے سے انکار کر دیا اور جونہی آئی ایم ایف نے اندرا گاندھی حکومت کو بیل آئوٹ پیکیج دینے کی منظوری دی‘ اندرا نے صبح کا انتظار کیے بغیر رات گیارہ بجے ایک ہی جھٹکے میں بھارتی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں 57.5فیصد گرا دیا۔
یہ بھارتی عوام‘ میڈیا اور سیاستدانوں کیلئے بڑا بم شیل تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بھارتی کرنسی کو اتنا گرادیا جائے گا۔ یہ فیصلہ سنانے کیلئے اندرا گاندھی کی آواز آل انڈیا ریڈیو پر ابھری۔ اندرا نے بات شروع کی کہ آج وہ بھارتی عوام سے کھل کر بات کرے گی۔ بھارتی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں گرانا اتنا آسان فیصلہ نہیں تھا‘ ہر قوم کی تاریخ میں ایسے لمحات آتے ہیں جب اس کا امتحان لیا جاتا ہے اور اس کے مستقبل کا تعین اس کے بہادرانہ فیصلوں کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ بھارت کیلئے یہ وہی لمحہ ہے۔ بہت سارے حالات اکٹھے ہوگئے ہیں جس وجہ سے ہمیں یہ مشکل فیصلے کرنا پڑے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ جنگ‘ خوراک کی کمی اور قحط جیسی صورتحال کی وجہ سے بھارتی معیشت سست ہو گئی ہے‘ بلکہ یوں کہہ لیں کہ معاشی گروتھ بالکل رک گئی ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہیں‘ کارخانوں نے مزدورں کو نوکریوں سے نکال دیا ہے۔ چھوٹی صنعتوں اور ایکسپورٹ کو نقصان پہنچا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہر طرف غیریقینی کی سی صورتحال ہے۔ لوگ بہت مشکل میں ہیں۔ ہم نے اپنے تئیں کچھ اقدامات کی کوشش کی لیکن بات نہیں بن سکی۔ بھارت کی معاشی حالت ٹھیک کرنے کیلئے ہمیں بڑی سرجری کی ضرورت تھی۔
اندرا گاندھی نے بھارتی کرنسی کو آئی ایم ایف کے کہنے پر گرانے کے فیصلے سے پہلے کانگریس کے صدر کامراج سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا۔ کامراج کو بھی یہ خبر اندرا کے آل انڈیا ریڈیو سے خطاب کے دوران ملی۔ اندرا نے کامراج کو اس لیے اعتماد میں نہیں لیا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ وہ روپے کی قدر گرانے کے سخت خلاف تھا۔ اندرا کی کابینہ کے کچھ وزرا بھی اس فیصلے کے سخت خلاف تھے۔ اندرا نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ یا اپنی کرنسی کی عزت بچا لیں یا غیرملکی امداد لے لیں‘ جس کی بھارت کو سخت ضرورت تھی۔ اندرا نے جس طرح بھارتی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں گرانے کا فیصلہ کیا‘ اس سے دو باتیں سامنے آئیں‘پہلی یہ کہ اندرا کے اندر ایسے بڑے فیصلے لینے کی صلاحیت موجود تھی چاہے ان فیصلوں سے وہ عوام میں غیر مقبول ہو جائے۔ دوسرے‘ وہ کسی ناقد یا مخالف کے دبائو میں آنے والی نہیں۔ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ سب اندرا کے مخالف ہو گئے۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے اس فیصلے کے خلاف قرارداد پاس کی۔ کامراج‘ جس نے ڈیسائی کے وزیراعظم بننے کا راستہ روک کر اندرا کو وزیراعظم بنوایا تھا‘ نے کہا کہ بڑے باپ کی بیٹی ہے لیکن غلطی چھوٹے آدمی والی کی ہے۔
اندرا کیلئے یہی مسائل کم نہ تھے کہ امریکی امداد بھی تاخیر کا شکار ہو گئی۔ اور جب یہ امداد آنا شروع ہوئی تو بھی اس کی مسلسل ترسیل میں مسائل آرہے تھے۔ اندرا کو اس کی کچن کابینہ‘ جس میں تین چار اہم وزیر اور دو تین قریبی لوگ شامل تھے‘ نے مشورہ دیا کہ اس کیلئے بہتر ہوگا کہ وہ لیفٹ آئیڈیالوجی کی طرف جھکائو ظاہر کرے تاکہ عوام میں اس کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا مل سکے۔ امریکہ پر زبانی حملے شروع کرے‘ اس سے دوستی کا تاثر زائل کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے اندرا کو کانگریس کے اندر موجود سنڈیکیٹ سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ اندرا نے اس نئی پالیسی پر فوراً عمل شروع کیا اور امریکہ کے خلاف پہلا بیان داغتے ہوئے اس کے ویتنام کے کیپٹل ہنوئی پر بمباری کی شدید مذمت کی۔ ساتھ ہی روس کا دورہ کیا اور الیکسی کوسیجن کے ساتھ ایک مشترکہ معاہدے پر دستخط کیے اور امریکی جارحیت کے خلاف سخت بیان بھی جاری کیا۔اندرا کے ان امریکہ مخالف بیانات نے صدر جانسن کو بہت غصہ دلایا ۔ اس نے فوری طور پر حکم دیا کہ بھارت کو امداد مزید سست کر دی جائے۔ بھارت میں امریکی سفیر نے صدر جانسن کو کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ویٹی کن میں پوپ نے بھی ویتنام میں بمباری کی مذمت کی تھی‘ اس معاملے میں اندرا اکیلی نہیں تھی۔ اس پر جانسن نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور پوپ ہم سے گندم مانگنے بھی نہیں آئے تھے۔ اندرا نے امریکہ کے خلاف زبانی جنگ جاری رکھی اور امریکن انڈیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی ختم کرنے پر رضا مندگی ظاہر کر دی۔ لیکن اندرا کو بہت جلد ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
ہزاروں سادھو پارلیمنٹ کے آگے مظاہرے کرنے لگے کہ بھارت میں مسلمانوں کے گائے ذبح کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ گائے کے ذبح کرنے کے مسئلہ نے بہت جلد لوٹ مار اور فسادات کی شکل اختیار کر لی۔ اس موقع پر اندرا نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ She won’t be cowed down by cow savers۔ فسادات دیکھ کر اندرا کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے وزیر داخلہ‘ جس کو وہ سخت ناپسند کرتی تھی‘ فارغ کر دے۔ اندرا نے لیفٹ کی سیاست کی طرف جھکائو کرتے ہی اب کانگریس کی سنڈیکیٹ کے گُرو کامراج کو بھی ہاتھ دکھانے کا فیصلہ کیا ‘جس نے اسے وزیراعظم بنوایا تھا۔ اندرا نے ڈیسائی اور کامراج کے خلاف محاذ کھولنے کا فیصلہ کر لیا اور بیان جاری کیا کہ اب یہ دیکھنا ہے کہ پارٹی کسے وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے اور عوام کسے چاہتے ہیں‘‘۔
اندرا نے وزیراعظم بننے کے بعد عندیہ دے دیا تھا کہ وہ آنے والے برسوں میں کیسے حکمرانی کرے گی۔ اب صدر جانسن سے لے کر کانگریس کی سنڈیکیٹ کے گروز کو ہینڈل کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ اندرا راج نیتی کا کھیل اپنے اصولوں پر کھیلنے لگی۔ اسے اپنے بچپن کے وہ تلخ دن یاد آئے جب اس کا باپ نہرو اور دادا موتی لال جیل میں تھے‘ اور اس کی بیمار ماں کاملہ اپنی ساس اور نندوں کے رحم و کرم پر تھی۔ جو بُرا سلوک اس کی ماں کے ساتھ ہوا تھا وہ اسے جوانی میں ہی قبر تک لے گیا۔ اندرا کے اندر بچپن سے چھپی اذیت پسندی اور سرد مہری نے سر اٹھا لیا۔ بھارت میں بڑا کھیل شروع ہو چکا تھا اور اندرا کے اندر کا سکارپین سب کو ڈسنے کیلئے زہریلا ڈنک تیار کر چکا تھا۔ (جاری)
اندرا نے واشنگٹن سے سیدھی ماسکو کی فلائٹ لی اور وہاں الیکسی کوسیجن (Alexei Kosygin) سے ملاقات کی۔ پھر لندن میں برطانوی وزیراعظم ہیرلڈ وِلسن سے ملی۔ ان دوروں کے بعد جب اندرا بھارت لوٹی تو شور مچ گیا کہ اندرا نے امریکی صدر جانسن سے جو ”ڈیل‘‘ کی ہے‘ اس سے بھارت کا بیڑا غرق ہو جائے گا‘اندرا پر تنقیدی حملے شروع ہو گئے ۔ آخر وہ اس بات پر راضی ہی کیسے ہوئی کہ بھارتی روپے کو ڈالرز کے مقابلے میں کم کیا جائے گا اور امریکہ کی یہ شرط کیسے مان لی گئی کہ امریکہ اور بھارت ایک مشترکہ تعلیم فاونڈیشن بنائیں گے؟ اندرا کو اس بات پر بھی خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے ویتنام پر امریکی جارحیت کو کلین چٹ دے دی ۔ اگرچہ اندرا امریکہ سے واپسی پر اپنے خلاف چلنے والی مہم سے گھبرائی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے ناقدین کے دباؤ تلے آنے سے انکار کر دیا اور جونہی آئی ایم ایف نے اندرا گاندھی حکومت کو بیل آئوٹ پیکیج دینے کی منظوری دی‘ اندرا نے صبح کا انتظار کیے بغیر رات گیارہ بجے ایک ہی جھٹکے میں بھارتی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں 57.5فیصد گرا دیا۔
یہ بھارتی عوام‘ میڈیا اور سیاستدانوں کیلئے بڑا بم شیل تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بھارتی کرنسی کو اتنا گرادیا جائے گا۔ یہ فیصلہ سنانے کیلئے اندرا گاندھی کی آواز آل انڈیا ریڈیو پر ابھری۔ اندرا نے بات شروع کی کہ آج وہ بھارتی عوام سے کھل کر بات کرے گی۔ بھارتی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں گرانا اتنا آسان فیصلہ نہیں تھا‘ ہر قوم کی تاریخ میں ایسے لمحات آتے ہیں جب اس کا امتحان لیا جاتا ہے اور اس کے مستقبل کا تعین اس کے بہادرانہ فیصلوں کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ بھارت کیلئے یہ وہی لمحہ ہے۔ بہت سارے حالات اکٹھے ہوگئے ہیں جس وجہ سے ہمیں یہ مشکل فیصلے کرنا پڑے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ جنگ‘ خوراک کی کمی اور قحط جیسی صورتحال کی وجہ سے بھارتی معیشت سست ہو گئی ہے‘ بلکہ یوں کہہ لیں کہ معاشی گروتھ بالکل رک گئی ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہیں‘ کارخانوں نے مزدورں کو نوکریوں سے نکال دیا ہے۔ چھوٹی صنعتوں اور ایکسپورٹ کو نقصان پہنچا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہر طرف غیریقینی کی سی صورتحال ہے۔ لوگ بہت مشکل میں ہیں۔ ہم نے اپنے تئیں کچھ اقدامات کی کوشش کی لیکن بات نہیں بن سکی۔ بھارت کی معاشی حالت ٹھیک کرنے کیلئے ہمیں بڑی سرجری کی ضرورت تھی۔
اندرا گاندھی نے بھارتی کرنسی کو آئی ایم ایف کے کہنے پر گرانے کے فیصلے سے پہلے کانگریس کے صدر کامراج سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا۔ کامراج کو بھی یہ خبر اندرا کے آل انڈیا ریڈیو سے خطاب کے دوران ملی۔ اندرا نے کامراج کو اس لیے اعتماد میں نہیں لیا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ وہ روپے کی قدر گرانے کے سخت خلاف تھا۔ اندرا کی کابینہ کے کچھ وزرا بھی اس فیصلے کے سخت خلاف تھے۔ اندرا نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ یا اپنی کرنسی کی عزت بچا لیں یا غیرملکی امداد لے لیں‘ جس کی بھارت کو سخت ضرورت تھی۔ اندرا نے جس طرح بھارتی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں گرانے کا فیصلہ کیا‘ اس سے دو باتیں سامنے آئیں‘پہلی یہ کہ اندرا کے اندر ایسے بڑے فیصلے لینے کی صلاحیت موجود تھی چاہے ان فیصلوں سے وہ عوام میں غیر مقبول ہو جائے۔ دوسرے‘ وہ کسی ناقد یا مخالف کے دبائو میں آنے والی نہیں۔ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ سب اندرا کے مخالف ہو گئے۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے اس فیصلے کے خلاف قرارداد پاس کی۔ کامراج‘ جس نے ڈیسائی کے وزیراعظم بننے کا راستہ روک کر اندرا کو وزیراعظم بنوایا تھا‘ نے کہا کہ بڑے باپ کی بیٹی ہے لیکن غلطی چھوٹے آدمی والی کی ہے۔
اندرا کیلئے یہی مسائل کم نہ تھے کہ امریکی امداد بھی تاخیر کا شکار ہو گئی۔ اور جب یہ امداد آنا شروع ہوئی تو بھی اس کی مسلسل ترسیل میں مسائل آرہے تھے۔ اندرا کو اس کی کچن کابینہ‘ جس میں تین چار اہم وزیر اور دو تین قریبی لوگ شامل تھے‘ نے مشورہ دیا کہ اس کیلئے بہتر ہوگا کہ وہ لیفٹ آئیڈیالوجی کی طرف جھکائو ظاہر کرے تاکہ عوام میں اس کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا مل سکے۔ امریکہ پر زبانی حملے شروع کرے‘ اس سے دوستی کا تاثر زائل کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے اندرا کو کانگریس کے اندر موجود سنڈیکیٹ سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔ اندرا نے اس نئی پالیسی پر فوراً عمل شروع کیا اور امریکہ کے خلاف پہلا بیان داغتے ہوئے اس کے ویتنام کے کیپٹل ہنوئی پر بمباری کی شدید مذمت کی۔ ساتھ ہی روس کا دورہ کیا اور الیکسی کوسیجن کے ساتھ ایک مشترکہ معاہدے پر دستخط کیے اور امریکی جارحیت کے خلاف سخت بیان بھی جاری کیا۔اندرا کے ان امریکہ مخالف بیانات نے صدر جانسن کو بہت غصہ دلایا ۔ اس نے فوری طور پر حکم دیا کہ بھارت کو امداد مزید سست کر دی جائے۔ بھارت میں امریکی سفیر نے صدر جانسن کو کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ویٹی کن میں پوپ نے بھی ویتنام میں بمباری کی مذمت کی تھی‘ اس معاملے میں اندرا اکیلی نہیں تھی۔ اس پر جانسن نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور پوپ ہم سے گندم مانگنے بھی نہیں آئے تھے۔ اندرا نے امریکہ کے خلاف زبانی جنگ جاری رکھی اور امریکن انڈیا ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی ختم کرنے پر رضا مندگی ظاہر کر دی۔ لیکن اندرا کو بہت جلد ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
ہزاروں سادھو پارلیمنٹ کے آگے مظاہرے کرنے لگے کہ بھارت میں مسلمانوں کے گائے ذبح کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ گائے کے ذبح کرنے کے مسئلہ نے بہت جلد لوٹ مار اور فسادات کی شکل اختیار کر لی۔ اس موقع پر اندرا نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ She won’t be cowed down by cow savers۔ فسادات دیکھ کر اندرا کو موقع مل گیا کہ وہ اپنے وزیر داخلہ‘ جس کو وہ سخت ناپسند کرتی تھی‘ فارغ کر دے۔ اندرا نے لیفٹ کی سیاست کی طرف جھکائو کرتے ہی اب کانگریس کی سنڈیکیٹ کے گُرو کامراج کو بھی ہاتھ دکھانے کا فیصلہ کیا ‘جس نے اسے وزیراعظم بنوایا تھا۔ اندرا نے ڈیسائی اور کامراج کے خلاف محاذ کھولنے کا فیصلہ کر لیا اور بیان جاری کیا کہ اب یہ دیکھنا ہے کہ پارٹی کسے وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے اور عوام کسے چاہتے ہیں‘‘۔
اندرا نے وزیراعظم بننے کے بعد عندیہ دے دیا تھا کہ وہ آنے والے برسوں میں کیسے حکمرانی کرے گی۔ اب صدر جانسن سے لے کر کانگریس کی سنڈیکیٹ کے گروز کو ہینڈل کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ اندرا راج نیتی کا کھیل اپنے اصولوں پر کھیلنے لگی۔ اسے اپنے بچپن کے وہ تلخ دن یاد آئے جب اس کا باپ نہرو اور دادا موتی لال جیل میں تھے‘ اور اس کی بیمار ماں کاملہ اپنی ساس اور نندوں کے رحم و کرم پر تھی۔ جو بُرا سلوک اس کی ماں کے ساتھ ہوا تھا وہ اسے جوانی میں ہی قبر تک لے گیا۔ اندرا کے اندر بچپن سے چھپی اذیت پسندی اور سرد مہری نے سر اٹھا لیا۔ بھارت میں بڑا کھیل شروع ہو چکا تھا اور اندرا کے اندر کا سکارپین سب کو ڈسنے کیلئے زہریلا ڈنک تیار کر چکا تھا۔ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر