عادل علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کرتا ہوں تو یار لوگ کہتے ہیں کہ بولتا ہے پر چپ رہوں بھی تو کیسے!
ملک میں سب سے زیادہ آمدنی, کاروبار, روزگار, ٹیکس, بہتر مستقبل کے مواقع, بہتر علاج و اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے صوبے کا گورنر ملک کے سب سے بڑے شہر میں دو روپے میں روٹی کی فراہمی کے لیے تندور لگانے کا اعلان کرتا ہے تو دوسری جانب ملک کے سب بڑے صوبے جسے حصول اقتدار میں فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے جہاں نہ کسی منتخب حکومت کا وجود ہے نہ نمائندگی بلکہ ایک نگران حکومت کے تحت نظام کو چلایا جا رہا ہے وہاں اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے دو ارب روپے کی نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دی جارہی ہے۔
پانچ سالہ دور حکومت کے چل چلاو کا وقت ہے۔ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرینگی یا ایک آدھ دن قبل اسمبلیاں تحلیل ہونگی یہ ایک الگ بحث ہے مگر جاتے جاتے افسران کو نوازتے جانا افسران کو رشوت دینے کے مترادف ہے۔
ملک میں جہاں مہنگائی کا طوفان ہے یہاں تک کہ پیٹرولیم ایسوسیئیشن نے بھی پیٹرول پمپس بند کرنے کا اعلان کر دیا ہو ایسے میں پنجاب میں افسر شاہی کو مظبوط کرنے کا مطلب کسی سیاسی جماعت کی جانب سے الیکشن میں فوائد اٹھانا ہی ہو سکتا ہے۔
لوگ بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں مگر پندرہ کروڑ مالیت کی سرکاری گاڑی سڑک پر نظر آتی ہے۔
ہمارے سیاستدان سیاسی انجنیئرنگ کا جو الزام اسٹبلشمنٹ پر لگاتے ہیں وہی کام انتظامی انجنیئرنگ کے تحت افسر شاہی کو فروغ دے کر خود کرتے ہیں۔ دنیا ہمارے وزیراعظم کی تقاریر سنتی ہے کہ ہم مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ آئی ایم سے معاہدے کے لیے ہم تن من کا زور لگا رہے ہوتے ہیں دوست ممالک سے قرضے لے کر ہم پھر سے اپنے قرضوں کی اقساط ادا کر رہے ہوتے ہیں مگر مرض اقربا پروری و افسر شاہی ہمارے ہاں سے ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
پروٹوکول کے نام پر حسب حیثیت افسران کے ساتھ بھی ایک قافلہ ہوتا ہے اور سیاستدانوں کے بھی۔ صاحب مسند براجمان ایک گاڑی میں ہوتے ہیں جبکہ پندرہ گاڑیوں کا قافلہ ان کی شان میں اضافہ کرنے کے لیے ساتھ چل رہا ہوتا ہے جس کے اخراجات حکومت ادا کرتی ہے اور حکومت خود کوئی کاروبار نہیں کرتی عوام کے ٹیکسز کے بل بوتے پر ان تمام عیاشیوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ دنیا میں اخراجات کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں قرضے لے کر مالیاتی خساروں کو پورا کیا جاتا ہے۔
یہ زہر قاتل ہے۔
الیکشن کی انجنیئرنگ کے لیے عوام کے پر بوجھ ڈالنا سراسر ناانصافی ہے۔ ہم شاید بھول گئے ہیں کہ جاہ و جلالت کی عادت بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی نگل چکی ہے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی