وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ کے فالوئرز کی تعداد ماڈل اور ایکٹر ٹک ٹاکر جنت مرزا کے 23 ملین فینز سے کم ہے یا زیادہ؟ بھلے آپ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں۔ گویا فالوئرز کم ازکم جنت مرزا کے برابر ہوں، ورنہ نہ ہوں۔
معیار اگر یہی بن چکا ہے کہ آپ کے اثر و رسوخ اور مقبولیت کو ٹک ٹاک، فیس بک یا ٹویٹر فالوئرز کے گز سے ہی ناپا جائے گا تو پھر کیوں نہ بات سوشل میڈیا پرسنیلٹی (اس اصطلاح کا مطلب کم از کم میں نہیں جانتا) کھابے لیم سے شروع کی جائے جس کے ٹک ٹاک پر 158 ملین فالوئرز ہیں۔
رقاص چارلی ڈمیلو کے ڈیڑھ سو ملین، گلوکار بیلا پوارچ کے ترانوے ملین، رقاص ایڈیسن رے کے نواسی اور ماربیسٹ کے اکیاسی ملین فالوئرز ہیں۔
فیصلہ اگر فیس بک فالوئنگ سے ہونا ہے تو پھر آپ کو کم ازکم 161 ملین فالورز کے مالک فٹ بالر کرسٹیانو رونالڈو، ایک سو اکیس ملین فالوئرز والی گلوکارہ شکیرہ، ایک سو چودہ ملین فالوئرز میں مقبول اداکار ول سمتھ، ایک سو تیرہ ملین فالوئرز پر شاداں فٹ بالر میسی اور اداکار وین ڈیزل کے ایک سو چھ ملین فالوئرز کو کراس کرنا پڑے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر انسٹا گرام پر فٹ بالر رونالڈو کی طرح آپ کے 510 ملین، گلوکارہ آریانا گرانڈ کے تین سو تینتالیس ملین، گلوکارہ سیلینا گومیز کے تین سو باسٹھ ملین، دی راک نامی پہلوان کے تین سو اکیاون ملین، ماڈل اور انفلوئنسر کم کارڈیشیئن کی طرح تین سو پینتیس ملین فالوئرز نہیں تو پھر آپ پتلی گلی سے نکلنے کا سوچیے۔
اور ٹویٹر پر ایلون مسک کی طرح 130 ملین، کم کارڈیشیئن کی طرح پچھتر ملین، ڈیجیٹل مارکیٹئر گیری وینرچک کی طرح تین ملین اور ملالہ یوسفزئی کی طرح دو ملین فالوئرز نہیں تو پھر آپ نے زندگی میں اب تک آخر کیا کیا؟
اور یو ٹیوبر ہو تو جمی ڈونلڈ سن عرف مسٹر بیسٹ جیسا کہ جس کے 136 ملین سبسکرائبر ہیں یا پھر فیلکس کیلبرگ عرف پؤ ڈائی پائی کی طرح ایک سو گیارہ ملین سبسکرائبر، یا پھر نو سالہ روسی نژاد امریکن بچی انستاسیا ریزنسکایا کی طرح ایک سو چار ملین، یا پھر ڈوڈ پرفیکٹ کی طرح انسٹھ ملین یا پھر جوگا جرمن کی طرح اڑتالیس ملین سبسکرائبر ہوں تب تو کوئی بات ہے، ورنہ کیا بات ہے؟
مطلب یہ کہ اس دنیا کے ہر اونٹ کے اوپر ایک پہاڑ اور ہر پہاڑ کے اوپر ایک آسمان موجود ہے، تو کیا محض سوشل میڈیا پر فالوئرز یا سبسکرائبرز کی تعداد کو مقبولیت یا اثر کا پیمانہ بنانا اور لائکس یا سبسکرپشن یا فالوئنگ کے لیے جان پر کھیلنے سمیت کچھ بھی کر گزرنا یا سکرینچی فینز کی تعداد سامنے رکھ کے کوئی حکمت عملی ترتیب دینا اور پھر اس حکمت عملی پر ٹرول بریگیڈز کی سفارشات کی روشنی میں تکیہ کرنا کتنی عاقلانہ بات ہے؟
آپ کو کوفہ یاد ہے؟ کتنے ہزار فالوئرز جان دینے پر آمادہ تھے۔ جب عبید اللہ ابن زیاد کا فرمان جبر جاری ہوا تو کتنے فالوئرز کھڑے رہے؟ یہ وہی ہزاروں تھے نا جنھوں نے امام کو اپنی وفاداری پر مبنی سینکڑوں خط بھیجے تھے۔ آج کے کوفے کا نام سوشل میڈیا ہے۔
یاد ہے جنرل پرویز مشرف کے فیس بک فالوئرز کی تعداد چار لاکھ تھی۔ جب وہ معزولی کے بعد پہلی بار اس فالوئنگ پر بھروسا کر کے بیرون ملک سے کراچی کے جناح انٹرنیشنل پر لینڈ کیے تو چار لاکھ میں سے ساڑھے چودہ لوگ ہار لیے کھڑے تھے۔
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے ( صغیر ملال )
وہ جو کہتے ہیں کہ اشیا کا اپنا جادو ہے، جس پر یہ جادو چل گیا وہ کہیں کا نہ رہا۔ سوشل میڈیا کیا ہے؟ ورچوئل ریئلٹی ہے نہ؟ ورچوئل ریئلٹی اس کے سوا کیا ہے کہ
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
اب یہ سوچنے میں کیا قباحت ہے کہ خان صاحب کو نو مئی تک لانے میں سوشل میڈیا پر پرستاروں کی تعداد دکھا دکھا کے ان کی رائے پر اثرانداز ہونے والے ’گھیروؤں‘ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
جب 24 گھنٹے آپ کے کانوں میں فالوئرز فالوئرز فالوئرز بجایا جائے تو پھر کوئی بھی انسان اس تکراری عمل کو ٹھوس سچائی سمجھنے لگتا ہے اور یہ ورچوئل الوژن اس کے اہم فیصلوں پر بھی شعوری و لاشعوری طور پر اثرانداز ہونے لگتا ہے۔ یوں کوئی ایک قدم بھی الٹا پڑ جائے تو سب الٹا پڑتا چلا جاتا ہے۔
خان صاحب کے ارد گرد جو حلقہ تھا، نو مئی کے بعد پتہ چلا کہ وہ بھی ورچوئل تھا۔ ووٹ بینک آج بھی باقی ہے۔ چوری کھانے والے مجنوں تو ایک تپتی دوپہر میں ہی پگھل گئے۔ اب ساتھ کھڑے خون دینے والے مجنوں کتنے باقی ہیں؟
صرف خان صاحب ہی کیا، ان کی مقدماتی مشکیں کسنے والے بھی ورچوئل ریئلٹی کے دھوکے میں لت پت ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ایک آدمی کو ہاتھ پاؤں باندھ کے ڈال دیا جائے تو دیگر بھی تیر کی طرح سیدھے ہو کے چار و ناچار قطار میں آ ہی جائیں گے۔
مگر بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ لوگ دن بہ دن بدتمیز ہوتے جا رہے ہیں۔ مقدس اور عام گائے میں تمیز کھوتے جا رہے ہیں۔ زندگی کی سختیاں انھیں اور نڈر بنا رہی ہیں۔ قوم جو کبھی تھی، اس نے اتنی مار سہی کہ اب بس ایک ہجوم کا وجود بچا ہے اور مصیبت یہ ہے کہ یہ ہجوم ورچوئل نہیں اصلی ہے۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت سوشل میڈیا کے بارے میں بہت ہی ان سوشل ہے۔
اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ انھیں یہ تک نہیں معلوم کہ ٹک ٹاک پر جنت مرزا کے زیادہ فالورز ہیں یا عمران خان کے؟
زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے دیوانے آدمی ہیں ( داغ دہلوی)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر