نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسرائیل سے لاہور براستہ آن لائن قرضہ کمپنیاں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور شہری و مذہبی آزادیاں سلب کئے جانے پر ’’دبنگ‘‘ موقف پر حیران ہوتے اور اعتراضات اٹھاتے دوستوں و سوشل میڈیا صارفین پر مجھے حیرانی ہورہی ہے۔

اسرائیلی موقف پر مرضی کی تفسیر بیان کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ صرف سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہی تو نہیں۔

ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہ رائے بھی رہی ہے بلکہ اب بھی ہے کہ دنیا میں دو ہی مملکتیں مذہب کے نام پر بنی ہیں پاکستان اور اسرائیل۔ یہ اور بات ہے کہ ہم قیام پاکستان کا باعث بنے بٹوارے کو دو قومی نظریہ کی عملی تعبیر کے طور پر پیش کرتے اٹھلاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اس کے حق میں 75برسوں سے دفتر سیاہ کرتے جارہے ہیں لیکن جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو ارض مقدس سے نکالے گئے یہودیوں کی واپسی اور ریاست سازی کے عمل میں اپنائے گئے طریقہ کار پر اعتراضات اٹھانے لگتے ہیں۔ فلسطینیوں کے بنیادی شہری اور ریاستی حقوق ہمیں چین نہیں لینے دیتے۔

خیر ہم ان سطور میں تاریخی بحث چھیڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہمیں تو انسانی حقوق کونسل میں اسرائیلی نمائندہ کی دھواں دھار تقریر پر بات کرنی ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ وہ تقریر چونکہ اسرائیل کی نمائندہ خاتون نے کی ہے اس لئے اسے "آدھی گواہی” کے تناظر میں پوری بات نہ سمجھا جائے بس آدھی گواہی کے طور پر ہی لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ آدھی گواہی پر تو مقدمہ بن سکتا ہے نہ فیصلہ دیا جاسکتا ہے۔ البتہ جس معاملے میں اسرائیلی موقف سامنے آیا ہے اس سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ اسرائیل نے بھی اپنے خلاف پاکستانیوں کے دیرینہ موقف اور پروپیگنڈے کا خم ٹھونک کر جواب دینے کی حکمت عملی اپنالی ہے۔

اپنے قیام کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیلی ریاست نے پاکستان کی سیاسی صورتحال کے پس منظر میں ایک موقف اپنایا نہ صرف اپنایا بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کیا۔

اس وقت پاکستان میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی 9مئی کے واقعات کے بعد قانونی کارروائیوں کا سامنا کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بیرون ملک حامی اور خود پارٹی نے عالمی سطح پر جن لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کی ہیں دونوں پچھلے ایک سال سے پاکستانی نظام، پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے بعد کے واقعات، مقدمات اور 9 مئی کے بعد کی صورتحال کو انتقامی کارروائیوں کے طور پر پیش کررہے ہیں۔

ہماری دانست میں اسرائیلی موقف کو عمران خان کی برطانوی یہودی خاندان سے سابقہ رشتہ داری کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اس کے سیاسی پہلوئوں کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت پاکستان کے خلاف عالمی مہم کی روشنی میں دیکھنا ہوگا البتہ اس معاملے کا یہ ایک پہلو ضروری ہے کہ عمران خان کی ایک اتحادی جماعت ایم ڈبلیو ایم جو پاکستان میں اسرائیل یا یوں کہہ لیجئے صہیونی دشمن جماعت کی شناخت رکھتی ہے اس کا موقف ابھی نہیں آیا۔

دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسرائیلی موقف کو اپنی انقلابی جدوجہد اور عمران کی قیادت کے لئے تائید ایزدی کے طور پر لیتی ہے یا اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر۔

بظاہر تو یہ تحریک انصاف کی سیاسی کامیابی ہے کہ پاکستان میں ناانصافیوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے اس کا جو موقف ہے اسرائیلی ریاست کا موقف بھی بالکل ویسا ہی ہے۔ بہرحال اس معاملے میں جذباتی ہونے کی بجائے دلیل کے ساتھ جواب دیا جانا چاہیے۔

یہ کہنا کہ اسرائیل کو کوئی حق نہیں پاکستان کے بارے میں ایسی باتیں کرنے کا تو ہم بھی 75برسوں سے اسرائیل کو اٹھتے بیٹھتے آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ دنیا بھر کی ریاستیں عالمی اور علاقائی صورتحال پر اپنی آراء دیتی ہیں۔

بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اسرائیلی ریاست کے حالیہ بیان کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا تو پھر یہ تسلیم کرنے میں کیا ہرج ہے کہ پی ٹی آئی کی بیرون ملک منظم لابنگ نے وہ کچھ حاصل کرلیا جس کا تصور بھی محال ہے۔

اس کے جواب میں واہی تباہی اور جذباتیت کے مظاہروں کی بجائے ٹھوس دلائل کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔

ہم آگے بڑھتے ہیں۔

پچھلے دو دن سے سوشل میڈیا پر راولپنڈی میں آن لائن قرضہ دینے والی کمپنیوں کے استحصال کا شکار ایک شہری مسعود کی خودکشی پر سوشل میڈیا صارفین احتجاج کررہے ہیں اس شہری نے کسی قرضہ دینے والی کمپنی سے 22ہزار روپے قرض لیا تھا۔ کمپنی کے نمائندوں نے اس کی زندگی اجیرن کردی۔ بتایا تو یہی جارہا ہے کہ وہ قرض کی رقم سے زیادہ سود ادا کرچکا تھا، کچھ قرض کی اقساط بھی۔ حقیقت کیا ہے اس بارے ایف آئی اے کو کسی تاخیر کے بغیر تحقیقات کرنی چاہئیں۔

آن لائن قرضہ دینے والی کمپنیوں کی ’’کُتی سوئی‘‘ ہوئی ہے۔ پچھلے تین ساڑھے تین برسوں سے یہ کاروبار عروج پر ہے۔ اس سے پہلے لاہور میں بھی پچھلے برس ایک شہری خودکشی کرچکا تب بتایا گیا تھا کہ اس نے کسی کمپنی سے 5 ہزار روپے قرضہ لیا تھا جو بڑھتے بڑھتے 45 ہزار روپے ہوگیا۔

سوشل میڈیا صارفین میں سے فوری ضرورت کے خواہش مند آن لائن کمپنیوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں جن کے ویڈیو اشتہارات کی سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر بھرمار رہتی ہے۔

یہ کمپنیاں 5 ہزار سے 50ہزار اور 1 لاکھ روپے تک فوری بلاضمانت قرضے دینے کی پیشکش کرتی ہیں۔ کہا یہی جاتا ہے کہ صرف اپنے شناخت کارڈ کے آن لائن اندراج پر فوری قرضہ حاصل کریں قرضہ لینے والے کی شناختی معلومات تک رسائی کیسے حاصل کی جاتی ہے اس کی تحقیق کرنا ایف آئی اے کا کام ہے۔

کیا ہم امید کریں کہ راولپنڈی میں آن لائن قرضہ دینے والی ایک کمپنی کے اوچھے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے تنگ آکر خودکشی کرنے والے شہری مسعود کے معاملے کو حکومت ٹیسٹ کیس کے طور پر لے گی اور فوری تحقیقات کرائے گی ثانیاً یہ کہ ان فراڈ کمپنیوں کا فوری بندوبست ہونا چاہیے۔

 

لاہور میں جاری احتجاج

 

اب آیئے لاہور میں جاری سرکاری ملازمین اور بزرگ پنشنروں کے اس احتجاج پر بات کرتے ہیں جو گزشتہ تین چار دن سے جاری ہے۔ یہ احتجاج پنجاب حکومت کے خلاف ہورہا ہے۔

وجہ احتجاج یہ ہے کہ دوسرے صوبوں اور وفاق نے تنخواہوں میں 35فیصد اور پنشن میں ساڑھے 17فیصد اضافہ کیا جبکہ پنجاب میں تنخواہوں میں 30 اور پنشن میں 5 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا۔

بدترین مہنگائی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ پنجاب کے سرکاری ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں اور پنشنروں کا کیا قصور ہے۔

چلیں لاہور والے پنشنر تو داتا صاحب اور کربلا گامے شاہ سے لنگر لے آئیں گے (گو اس کے لئے بھی روزانہ کرایہ آمدورفت ضرورت ہے) دوسرے شہروں والے کیا کریں گے؟

پنجاب کی نگران حکومت نے 30فیصد تنخواہیں اور 5فیصد پنشن بڑھاتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ پنجاب کے پاس وسائل کی کمی ہے کیسے کمی ہے یہ تو بتایا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دوسرے تین صوبوں کے پاس آسمان سے وسائل اترتے ہیں کیا انہوں نے بھی تو وفاق کی طرح تنخواہوں میں 35 اور پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیا۔

پنجاب حکومت کا رویہ نہ صرف غیرذمہ دارانہ بلکہ غیرانسانی بھی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا جو رویہ اپنے میڈیا ہائوس کے ملازمین کے ساتھ رہا ہے وہی وہ سرکاری ملازمین کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔

اس پر ستم یہ ہے کہ چونکہ وزیراعلیٰ ایک بڑے میڈیا ہائوس کے مالک ہیں دوسرے تمام میڈیا ہائوس خصوصاً ٹی وی چینل لاہور میں کئی دن سے جاری سرکاری ملازمین اور پنشنروں کے احتجاج کا بلیک آئوٹ کئے ہوئے ہیں۔

میں دستیاب اطلاعات کی تصدیق کے بعد یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ اس احتجاج کی خبروں کی نشرواشاعت رکوانے کےلئے نگران وزیراعلیٰ اور نگران وزیر اطلاعات نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صحافی عموماً یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تو خبر کی آنکھ کان اور زبان ہیں پھر لاہور کی یہ سب سے بڑی خبر آنکھ کان اور زبان سے کیوں محروم ہے؟

یہ بھی پڑھیں:

About The Author