ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتویں قسط
ثانیہ اب تک جتنے مردوں سے ملی ہے اس کی روشنی میں اس کے پاس مرد کو پرکھنے کی ایک ہی میزان ہے کہ وہ مرد و عورت کے درمیان جنسی کشش پہ ہر کسی کو تولتی ہے۔ اس کے مطابق وہ انور سن رائے کو مرد سمجھنے سے انکاری ہے۔ اس کے خیال میں انور سن رائے جنسی طور پہ کمزور شخص ہے اور اسی لئے ثانیہ کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جو جنسی کشش کا گھائل ہو جانے والا مرد کرتا ہے۔ وہ مدیحہ کے بارے میں فکر مند ہے کہ وہ نا اہل شوہر کے ساتھ کیسے گزارا کرے گی۔
وہ خود کہتی ہے :
’میں نے دیکھا ہے، سب رشتے بکواس ہیں۔ مرد صرف مرد ہوتا ہے اور عورت صرف عورت۔ جب تک داؤ نہیں چلتا، رشتے بنے رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے، مرد مرد بن جاتا ہے اور عورت عورت بن جاتی ہے۔ اور ہر مرد عورت سے کھیلتا ہے جب تک اس کا دل چاہتا ہے وہ عورت سے کھیلتا ہے اور جب اس کا دل بھر جاتا ہے وہ کسی اور کی طرف چل دیتا ہے۔ اس لئے اب میں عورت نہیں رہنا چاہتی، میں مرد بننا چاہتی ہوں، میں مردوں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتی ہوں۔ بڑا ادھار نکلتا ہے میرا اور اپنا سب ادھار وصول کرنا چاہتی ہوں۔ ‘
یہاں پہ قاری کے ذہن میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہے اس کے ماضی میں جس کی کڑواہٹ اس کے ہر لفظ میں بھری ہے؟ وہ کیا آگ ہے جو اسے دھیرے دھیرے جلا کر راکھ کر رہی ہے؟
ثانیہ کے زہر بھرے جملوں کی شہرت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ لیکن ثانیہ اور نبیل کے تعلقات میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اس کی وجہ نبیل کی بے روزگاری کے علاوہ اس کی حد درجہ غیر ذمہ داری بھی ہے۔
ثانیہ کے حمل نے اس مردہ ہوتے ہوئے رشتے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ ثانیہ حاملہ ہو کر نبیل سے اپنی محبت کا ثبوت دیتی ہے۔ ثانیہ کو کما کر لانا پڑتا ہے، اس بات کی نبیل کو کوئی پروا نہیں، وہ یا تو کتابیں پڑھتا رہتا ہے یا دوستوں کو ملنے کے لئے چلا جاتا ہے۔ ثانیہ اسے ملازمت تلاش کرنے کو کہتی ہے لیکن نبیل اس کا بھی الٹا جواب دیتا ہے۔ ثانیہ کے لئے کمانا تو دور کی بات وہ اپنے خرچے کے لئے پیسے بھی ثانیہ سے مانگتا ہے۔
حاملہ ہونے سے ثانیہ خوش بھی ہے اور اداس بھی۔ اسے پہلے شوہر سے ہونے والے بچوں کی یاد ستاتی ہے اور وہ اکثر روتی ہے۔
ایک شام جب ثانیہ کو درد زہ اٹھتا ہے اور وہ نبیل کو بتاتی ہے لیکن نبیل لاپرواہی سے یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے کہ ایسا درد تو ہوتا ہی ہے۔
یہ پڑھ کر نبیل کی بے حسی پہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ جس کا طب کے شعبے سے تعلق نہیں، وہ جو عورت نہیں، وہ جو پہلے باپ نہیں بنا وہ اس عورت کو جھٹلا رہا ہے جو ماں بننے کے مرحلے سے پہلے گزر چکی ہے اور جانتی ہے کہ درد زہ کس طرح کا ہوتا ہے۔ یہاں پر نبیل ایک خود غرض انسان کے روپ میں سامنے آتا ہے جس نے اپنی خواہش پر ایک عورت کو بیوی بنا لیا، اسے حاملہ کر دیا لیکن اس کی مالی ضروریات جسمانی تکالیف اور جذباتی معاملات سے بے نیاز نظر آتا ہے۔
وہ درد سہتی ہے، وہ دوستوں کی محفل میں بیٹھا رہتا ہے، وہ بھوکی رہتی ہے اور وہ کھانا باہر سے کھا کر آتا ہے۔ وہ اس سے باتیں کرنا چاہتی ہے لیکن وہ گھر سے چلا جاتا ہے۔ وہ اسے مدد کے لئے پکارتی ہے لیکن خالی کمرہ اس کا منہ چڑاتا ہے۔
گھر میں فاقہ کشی کا عالم ہے، کوئی کھانے پینے کی چیز موجود نہیں۔ دیکھیے ایک حاملہ عورت کی بے کسی کا عالم:
”چائے کی پتی کا خالی ڈبہ مجھ پر ہنس رہا تھا۔ چینی کے ڈبے میں چپکے ہوئے آخری دانے چیونٹیاں لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں ان سے کہتی رہی کہ اس وقت ان دانوں کی ضرورت مجھے ان سے زیادہ ہے لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ چولہے پر پانی کھول رہا تھا، کھولتا ہی جا رہا تھا۔ سامنے پڑے ہوئے خالی ڈبے اور پیٹ میں آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہوئے جسم کے گرد ایک خلا۔“
”آئینے میں خود کو دیکھا تو پہچان نہ پائی۔ یہ تو کوئی اور ہی عورت تھی۔ سوجے ہوئے ہونٹ، پچکے ہوئے گال اور ان پر ابھری ہوئی ہڈیاں۔ ہڈیوں کے اوپر سیاہ دائروں کے درمیان زردی مائل آنکھیں، آنکھوں میں خوف دہشت اور بے معنویت کے نیچے دبی ہوئی نامعلوم آگ۔ ان کے اوپر سُتی ہوئی بھنویں، ان سے اوپر اور اوپر، سمٹی ہوئی الجھی ہوئی تاریکی، نیچے تک جاتی ہوئی، نیچے میل زدہ گردن تک پھر اور نیچے ریڑھ کے بالائی حصے پر جہاں سر میں گونجتی ہوئی کھولاہٹ سرد ہو کر ایک بار پھر لہر سی بن کر ریڑھ میں اتر رہی تھی۔ کمر میں جھٹکے دے رہی تھی ہلکے ہلکے جھٹکے دیتی ہوئی اور نیچے اور نیچے ڈھلکتے ہوئے کولہوں کے درمیان، دو حصوں میں بٹ کر رانوں اور گھٹنوں سے گزر کر تلووں کی طرف جاتی تھی اور پھر پلٹ کر خون کے ساتھ ساتھ پورے جسم میں دوڑتی ہوئی سر کی کھولاہٹ میں لوٹ جاتی تھی“
مصنف نے حاملہ عورت کی درد زہ کا اس قدر تفصیلی حال احساسات کے ہمراہ اس کمال سے پینٹ کیا ہے کہ قاری حیران رہ جاتا ہے کہ ایک مرد عورت کی کیفیات کو اس طرح کیسے قلم بند کر سکتا ہے۔ خاص طور وہ کیفیات جو صرف ایک حاملہ عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔
مصنف نے بہت چابکدستی سے نہ صرف ثانیہ کی تکلیف بیان کی ہے بلکہ اس عالم میں وہ کس جذباتی بحران کی شکار ہے، کا بھی ایسے نقشہ کھینچا ہے کہ اس کی تنہائی اور بھوک مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔
ایک شاعر اور ادیب کا بچہ کوکھ میں لے کر بھوک اور پیاس سے بے حال عورت کیا سوچ رہی ہے؟ اس کے پاس بے شمار سوالات ہیں جو وہ نہ صرف معاشرے بلکہ ان دانشوروں کے سامنے رکھ رہی ہے جو زندگی کے فلسفے کی پرکھ دن رات کرتے ہیں مگر وہ انسان جو تخلیق کا منبع ہے، اس کے اندر کیا گزرتی ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر