جون 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اناڑی سے بچیں!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

آپریشن دو طرح کا ہوتا ہے، کیمرے کے ساتھ لیپروسکوپی Laparoscopy اور پیٹ کھول کر لیپاروٹومی ( Laparotomy) ۔ لیپروسکوپی کے لئے سرجن کو کیمرے کے ذریعے آپریشن کرنے کا ماہر ہونا بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میں بچے دانی نکلنے کے بعد سے بہت سی تکالیف کا شکار ہوں۔
1۔ پتے میں پتھری ہو گئی ہے ہارمونز امبیلنس سے۔
2۔ جسم میں تھکان اور سستی بہت زیادہ۔
3۔ سٹیمنا نہیں رہا۔
4۔ جسم کے مسلز اور رگیں کمزور ہو گئی ہیں
4۔ پٹھوں میں کھنچاؤ
5۔ جوڑوں میں درد رہتا ہے
6۔ گھٹنوں اور پاؤں کی ہڈیوں میں شدید درد
7۔ پنڈلیوں میں گھٹلیاں بن گئی ہیں
8۔ پنڈلیوں میں کھنچاؤ
9۔ پورے جسم کی سکن میں کھنچاؤ
10۔ کمر اور ہڈیوں میں درد
11۔ سانس کا پھولنا۔

کام کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی، زیادہ چلا پھر ابھی نہیں جاتا، سانس پھولنے لگتا ہے، ہر چیز کی خواہش مر سی گئی ہے۔ کیا رحم نکلنے کے بعد یہی کچھ ہوتا ہے؟ ”

آپ کا رحم کیوں نکلا؟ ہم نے پوچھا
میرے رحم میں فائبرائیٔڈ تھے اور بہت زیادہ بلیڈنگ ہوتی تھی۔ جواب ملا۔
آپ کی عمر کتنی ہے؟ پوچھا۔
پینتیس برس۔
صرف بچے دانی نکلی یا اووریز ( بیضہ دانیاں ) بھی؟
اووریز بھی نکال دیں ڈاکٹر نے۔
کیوں؟
ایک اووری میں سسٹ تھی۔
تو سسٹ نکال دیتے، پوری اووری کیوں نکالی؟
انہوں نے کہا کہ سسٹ پھر بن جائے گی، تو اووری ہی نکال دیں۔
دوسری اووری کیوں نکالی؟
احتیاطا۔
کس بات کی احتیاط؟
کہ سسٹ پھر سے نہ بن جائے۔
آپریشن کس نے کیا؟
سرجن نے۔
گائناکالوجسٹ؟
نہیں، جنرل سرجن۔

اور ہماری آنکھوں کے سامنے جی ٹی روڈ کے ساتھ بنے وہ سب چھوٹے چھوٹے ہسپتال گھوم گئے جو آپریشن تھیٹر بنا کر، قریبی شہر سے جنرل سرجن بلا کر علاقے کی خواتین کے آپریشن کرواتے ہیں۔

ایسے جنرل سرجنز کی کمی نہیں جو باآواز بلند قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی روزی روٹی عورتوں کی بچہ دانیوں کے طفیل چل رہی ہے۔ کیا اپنی روزی روٹی چلانے والے یہ بات جانتے ہیں کہ عورتوں کی بچے دانی اور بیضہ دانی سوچے سمجھے بغیر نکال دینا ان کی زندگی سے کھیلنا ہے؟

جان لیجیے کہ عورت کی بیضہ دانی /اووری اس کی زندگی ہے بالکل اسی طرح جیسے مرد کی زندگی خصیے Testis۔ بیضہ دانی عورت کی زندگی کو اسی طرح چلاتی ہے جیسے خصیے مرد کی زندگی۔

بیضہ دانی انڈا بناتی ہے اور خصیے سپرمز۔ بیضہ دانی ہارمونز ایسٹروجن اور پروجیسٹرون بناتی ہے اور خصیے ٹیسٹوسٹیرون۔

اگر مرد کی زندگی سے ٹیسٹوسٹیرون نکال دیا جائے تو پیچھے ایک ایسا ڈھول رہ جائے گا جو بجے گا مگر بے سرا۔ اسی طرح اگر عورت کی زندگی سے ایسٹروجن اور پروجیسٹرون نکال دیا جائے تو عورت ایک ایسی مورت بن جائے گی جو سانس تو لے گی مگر زندگی کی توانائی سے محروم۔

مینوپاز یا سن یاس کے بعد ایسٹروجن اور پروجیسٹرون بالکل زیرو نہیں ہوتے لیکن ان کی مقدار کافی کم ہو جاتی ہے۔ سن یاس میں خواتین کو جو مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں ان کے متعلق ہم لکھ ہی چکے ہیں۔

ہماری مریضہ کا اگلا سوال یہ تھا کہ اگر اووری میں سسٹ ہو جائے تو کیا کیا جائے؟
اووری میں سسٹ بنتی کیوں ہے؟

اووری میں وقت پیدائش ایک لاکھ انڈے یا بیضہ پائے جاتے ہیں جو بلوغت کے بعد میچیور انڈوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اگر حمل ٹھہر جائے تو ٹھیک اور اگر نہ ٹھہرے تو یہ انڈا خود بخود ختم ہو جاتا ہے ۔

بعض اوقات ہارمونز کے زیر اثر یہ میچیور ہوئے انڈے ختم نہیں ہو پاتے اور اسی طرح اووری میں پڑے رہتے ہیں۔ اگر بہت سے انڈے ہوں تو اووری پولی سسٹک کہلاتی ہے۔ اگر ایک انڈا زیادہ بڑا ہو جائے تو cyst کہلاتا ہے۔

سسٹ مختلف طرح کی ہوتی ہے۔ سب سے عام سسٹ پانی والی کہلاتی ہے جو اگر پانچ سینٹی میٹر سے کم ہو تو علاج کرنے کی بھی ضرورت نہیں جب تک کوئی تکلیف شروع نہ ہو۔ کبھی کبھار ہارمونز کی گولیاں تین ماہ تک استعمال کروا جائیں تو پانی والی سسٹ خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔

اگر سسٹ خون والی ہو تو اس کا علاج دوائیاں بھی ہیں اور آپریشن بھی۔ علاج کی نوعیت سسٹ کے حجم اور تکالیف پہ انحصار کرتی ہے۔

کبھی کبھار ایسی سسٹ بن جاتی ہے جس کے اندر بال اور دانت پائے جاتے ہیں ( Dermoid cyst) ۔ اس سسٹ کو نکالنا ضروری ہے چاہے حجم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔

آپریشن دو طرح کا ہوتا ہے، کیمرے کے ساتھ لیپروسکوپی Laparoscopy اور پیٹ کھول کر لیپاروٹومی ( Laparotomy) ۔ لیپروسکوپی کے لئے سرجن کو کیمرے کے ذریعے آپریشن کرنے کا ماہر ہونا بہت ضروری ہے۔

اووری کی سسٹ کے لیے ایک کلیہ یاد کر کیجیے کہ اووری میں سسٹ بن جائے اور آپریشن کا فیصلہ کیا جائے تو اووری سے صرف سسٹ نکالی جاتی ہے، مکمل اووری کبھی نہیں ( سوائے کینسر ) ۔

ہمارے تیس سالہ کیرئیر میں ایسا موقع کبھی نہیں آیا کہ ہم نے کسی کی اووری نکالی ہو۔ سسٹ نکال کر اووری سینے میں تو ہمیں امی کی سلائی یاد آجاتی ہے جن سے ہم نے سوئی دھاگے کا کھیل سیکھا مگر پریکٹس کپڑوں کی بجائے انسانی جسم پر کی۔ حق یہ ہے کہ امی کے ہنر کا فائدہ ہمارے مریضوں کو ہوا۔

یہ بھی بتاتے چلیں کہ اوووری نکل جانے کی تکلیف سے بھی ہم گزر چکے ہیں۔ گوکہ سینتالیس برس کی عمر میں نکلی لیکن ہمیں چھٹی کا دودھ یاد کروا گئی۔

جن لوگوں کے ساتھ یہ ظلم جواں عمری میں کسی سرجن کی نادانی کی وجہ سے ہو چکا ہے ان کے لیے زندگی مشکل تو ہو گی لیکن غم نہ کیجیے، سہل کرنے کے طریقے آپ کو ہم بتائیں گے۔

یاد رکھیے، کسی تجربہ کار ہاتھ اور قابل ذہن کو اجازت دیجیے کہ وہ آپ کے جسم کو ہاتھ لگائے۔ ہم اس شعبے میں ہو کر بھی ڈرتے ہیں کہ اللہ نہ کرے کسی ایسے کی مشق ستم سے گزریں کہ آسمان پہ بیٹھی امی وہیں سے پکار اٹھیں۔

ایہہ تے کسی نوکنڈ نے ڈنگے لائے نیں۔
(یہ کسی نا تجربہ کار نے بڑے بڑے ٹانکے بھرے ہیں )

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: