نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پولیو کے قطرے اور شربت تلقین شاہ۔۔۔|| وجاہت مسعود

اجنبی تہذیب اور ثقافت کو مسلط کرنے کا الزام لگانے والے ثقافت کی ترکیب اور نمود ہی سے ناآشنا ہیں۔ ثقافت کسی منطقے کے جغرافیائی خدوخال، تاریخی تجربے، معاشی تناظر اور علمی روایت سے جنم لیتی ہے اور مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آمریت کیا ہے؟ ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال سے عوام کو ان کے بدیہی حق حکمرانی سے محروم کرنا، انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے بے دخل کرنا اور ان کے وسائل ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے غصب کرنا۔ آمریت کی مزاحمت ہر محب وطن شہری کا بنیادی فرض ہے۔ آمریت قوم کے سیاسی امکان کو ختم کرنے کے حیلے دریافت کرتی ہے اور قومی اپنے سیاسی شعور کی روشنی میں ان حربوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ پرویز مشرف جلوہ آرا ہوئے تو بسنت کا تہوار لائے۔ لاہور میں بسنت نے باقاعدہ سالانہ تہوار کی شکل اختیار کر لی۔ اس میں معیشت کے پہلو بھی تھے اور سیاحت کا امکان بھی۔ لیکن اس کی مخالفت مذہبی تعصب کی بنیاد پر کی گئی نیز دھاتی تار کے استعمال اور فائرنگ جیسے قابل گرفت مجرمانہ افعال کی آڑ میں بسنت ہی پر پابندی لگا دی گئی۔
مولوی سید احمد لکھتے ہیں کہ حضرت نظام الدین اولیا کو اپنے بھانجے مولانا نقی الدین نوح سے نہایت محبت تھی۔ بدقسمتی سے نقی الدین نوجوانی میں انتقال کر گئے۔ حضرت نظام الدین کو اس قدر رنج ہوا کہ چھ مہینے تبسم تک نہیں فرمایا۔ انتہائی رنج و الم میں سنگیت کی سماعت بھی ترک فرما دی۔ کئی ماہ بعد بسنت پنچمی کا میلہ آیا تو حضرت احباب کے ہمراہ تالاب کی سیر کو نکلے۔ امیر خسرو کسی سبب سے پیچھے رہ گئے۔ دیکھا کہ کھیتوں میں سرسوں پھول رہی ہے۔ ہندو کالی دیوی کے مندر پر گڑوے بنا بنا کر گاتے بجاتے جا رہے تھے۔ امیر خسرو کو لگن تھی کہ کسی طرح مرشد نظام الدین کا دل بہلایا جائے۔ سو، اپنی دستارِ کھول کر کچھ پیچ اِدھر اور کچھ پیچ ادھر لٹکا لیے۔ ان میں سرسوں کے پھول الجھا کر یہ مصرع الاپتے تالاب کی طرف چلے، اشک ریز آمدہ است ابرِ بہار۔ ادھر محبوب الٰہی بے تاب تھے کہ ہمارا خسرو کہاں رہ گیا۔ اچانک دیکھا کہ خسرو عجب رنگ سے گاتے چلے آ رہے ہیں۔ سلطان المشائخ ان کی کیفیت دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ خسرو نے دور سے اشک نثار کرنا شروع کر دیے۔ حضرت قریب آئے تو خسرو بے تاب ہو گئے۔ اشک ریز آمدہ است ابرِ بہار/ ساقیا گل بریز بادہ بیار۔ حضرت نظام الدین نے تڑپ کر گریبان چاک کر ڈالا اور خسرو کو گلے لگا لیا۔ سو مسلمانوں میں حضرت امیر خسرو نے بسنت کو رواج دیا۔ اب کچھ ذکر ہولی کا ہو جائے۔
ہندوستانی موسیقی میں ہوری کی کجریاں اپنی چال میں دھرپد سے مشابہ ہیں۔ ان کی بندشیں ہولی کے تہوار سے منسوب محبت کے مضامین کے گرد بنی جاتی ہیں۔ کبھی موقع ملے تو بیگم اختر فیض آبادی کی آواز میں ٹھمری ہوری کی بندش سنیے۔ کیسی یہ دھوم مچائی رے… بیگم صاحبہ کی والہانہ عقیدت میں ڈوبی گائیکی سن کر ہندو پنڈت وجد میں آ جاتے تھے۔ خبر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبا و طالبات نے ہولی کی رسم منائی۔ اس پر زہد و اتقا کے پتلے بہت گرجے اور برسے ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ مسلمان طالب علموں نے یہ تہوار ایسے منایا، جیسے کہ یہ کوئی ہماری اپنی رسم ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ اعتراض کرنے والوں نے آئین پاکستان کی شق 20 نہیں پڑھی جس کے دو بنیادی نکات ہیں۔ عقیدے کی آزادی ہر شہری کے حق انتخاب کا ذاتی منطقہ ہے۔ کسی مذہبی گروہ کے ساتھ وابستگی یا یگانگت شہری کا صوابدیدی استحقاق ہے۔ 17 اگست 1947 کو کراچی کے ہولی ٹرینٹی چرچ میں خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا تھا۔ قائداعظم باقاعدہ اجازت لے کر پاکستان میں استحکام اور ہم آہنگی کی اس دعا میں شریک ہوئے۔ معترضین شاید نہیں جانتے کہ ہندو ہم وطن پاکستان میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ پاکستا ن کا مطالبہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے نام پر کیا گیا تھا۔ پاکستان کی قومی ریاست کے دستور کی شق 25 کے تحت کسی شہری کے ساتھ امتیاز کی اجازت نہیں۔ شہریوں کی قانونی، معاشی اور سیاسی مساوات قومی ریاست کا بنیادی اصول ہے۔ قیام پاکستان کا مقصد بابائے قوم نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں صراحت سے بیان کر دیا تھا۔ اب اگر کوئی چاہے کہ ہم 26 ستمبر 1926 کو پیدا ہونے والے ایک 21 سالہ لڑکے کے نظمیہ مصرعے کو پاکستان کا مقصد قرار دے دیں تو یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ 14 دسمبر 1947 کو کراچی کے خالق دینا ہال میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری متحدہ اجلاس میں قائداعظم نے دو ٹوک لفظوں میں اصغر سودائی کے نعرے سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ ریاست پاکستان کی ذمہ داری تمام شہریوں کو ترقی کے یکساں مواقع کی ضمانت دینا ہے۔ اس کے لیے مذہبی، لسانی، نسلی اور ثقافتی ہم آہنگی اور باہم احترام لازم ہے۔ کسی قوم میں گروہی تنوع کے احترام سے ملکی استحکام کو جنم دیتا ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے طلبا پر انگلی اٹھانے والے تب پھولے نہیں سماتے جب وائٹ ہاؤس میں مذہبی ہم آہنگی کے لیے افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گویا وطن سے باہر ہمیں سیکولر اقدار پسند ہیں اور اپنی زمین پر تفرقے کی دیواریں کھڑی کرنے سے غرض ہے۔ امریکی صحافی ایڈورڈ مرونے کہا تھا ”We cannot defend freedom abroad by deserting it at home.”
اجنبی تہذیب اور ثقافت کو مسلط کرنے کا الزام لگانے والے ثقافت کی ترکیب اور نمود ہی سے ناآشنا ہیں۔ ثقافت کسی منطقے کے جغرافیائی خدوخال، تاریخی تجربے، معاشی تناظر اور علمی روایت سے جنم لیتی ہے اور مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ قائداعظم یونیورسٹی کے اساتذہ کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کارروائی کس قانون کے تحت کی جائے؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیمات کا تلقین شاہی شربت باافراط دستیاب ہے لیکن پولیو کے قطرے اور کووڈ کی ویکسین ہمیں مغربی ممالک سے خیرات میں ملتی ہے۔ درویش قائداعظم یونیورسٹی کے ان طلبا و طالبات کو سلام پیش کرتا ہے جنہوں نے ہم وطن ہندو شہریوں کی خوشی میں شریک ہو کر روادار اور متحد پاکستان کے نصب العین سے وابستگی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author