نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کا انتخاب: امریکا یا چین؟۔۔۔|| وجاہت مسعود

پاکستان روز اول ہی سے اپنی معیشت چلانے کے لیے بیرونی امداد کا محتاج رہا ہے۔ قائداعظم نے مرزا ابوالحسن اصفہانی کے ذریعے امریکا سے دو ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کی درخواست کی تھی جو نامنظور کر دی گئی۔ تاہم 2002 سے 2013 تک پاکستان کو امریکا سے 26 ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد دی گئی۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم میں سے کون ہے جس نے منٹو کا افسانہ ٹھنڈا گوشت نہیں پڑھا۔ بڑے ادب کی نمود ایک سہ نکاتی قوس بناتی ہے، استرداد، قبول عام اور پھر ضرب المثل۔ سنسر کے محتسب، صحافت کے متحجر کتبے اور کور ذوق مدرس البتہ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں، تخلیقی عمل اور تہذیب کا سفر ان حیاتیاتی حادثات سے بے نیاز ہوتا ہے۔ چوہدری محمد حسین اور میر نور احمد کو کون جانتا ہے؟ لمحاتی پذیرائی کے غلغلے میں لکھے اداریے وقت کی گرد میں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کا جوہر شناس مسافر کائی زدہ نشیبی منطقوں سے بے نیاز لعل و گہر منتخب کرتا چلا جاتا ہے۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ میں منٹو نے ایک مکالمہ کمال کا لکھا ہے، ’ہون دے فیر اج گستاخیاں‘۔ درویش منٹو کی ’پرکاری‘ کا ترجمہ نہیں کر رہا، فقط ارادہ ہے کہ سیاست اور معیشت کے کچھ کڈھب موضوعات پر گستاخیاں کی جائیں۔
امریکی ماہر سیاسیات گراہم ایلیسن (Graham Allison) نے 2017 میں اپنی کتاب Destined for War میں ایک اصطلاح Thucydides’ Trap متعارف کروائی۔ یونانی مورخ Thucydides کا حوالہ دے کر ایلیسن نے یہ نتیجہ نکالا کہ گزشتہ پانچ صدیوں میں کم از کم 16 ایسے موڑ آئے جب ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت نے مقتدر عالمی طاقت کی جگہ لینا چاہی۔ ایسی کوشش بارہ مواقع پر جنگ پر منتج ہوئی۔ گزشتہ 40 برس میں چین کی معاشی ترقی حیران کن رہی ہے۔ 1978 میں چین کی 90 فیصد آبادی انتہائی غربت میں گھری تھی۔ 2018 میں چین میں انتہائی غربت کا شکار آبادی کی شرح صرف ایک فیصد رہ گئی۔ 2004 میں چین کی معیشت کا حجم امریکا سے نصف تھا۔ دس برس بعد 2014 میں دونوں معیشتوں کا حجم برابر ہو گیا۔ حالیہ معاشی اتار چڑھاﺅ کے بعد امریکا کی معیشت کا موجودہ حجم 23.3 کھرب ڈالر ہے جبکہ چین 17.7 کھرب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ برآمدات میں چین امریکا سے آگے نکل چکا۔ دنیا کے بڑے بینکوں میں سے چین پہلے اور امریکا دوسرے نمبر پر ہے۔ گویا چین امریکا کے ساتھ دوڑ میں آگے جا رہا ہے۔ ایک نئی دو قطبی دنیا وجود میں آ رہی ہے۔ امریکا نے 2021 اور 2023 میں جمہوری ملکوں کی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔ پاکستان دونوں مواقع پر شریک نہیں ہوا۔ چین نے جمہوری اقدار کے نام پر متوازی کانفرنس منعقد کی تو پاکستان اس میں شریک ہوا۔ پاکستان میں بحث جاری ہے کہ نئی عالمی صف بندی میں پاکستان کو چین یا امریکا میں سے کس کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور امریکا میں دشمنی کا تعلق تھا جبکہ امریکا اور چین میں مقابلے کی دوڑ ہو رہی ہے۔ امریکا براہ راست جنگ کی بجائے درآمد اور برآمد میں اتار چڑھاﺅ کے ذریعے چین پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ امریکا کو چین پر ٹیکنالوجی اور فوجی استعداد میں برتری حاصل ہے جبکہ چین کو معاشی پیداوار اور اپنے حجم کا فائدہ مل رہا ہے۔ دونوں ممالک نے مختلف علاقائی اتحاد قائم کیے ہیں۔ چین جیسا بڑا ملک پاکستان کا ہمسایہ ہے۔ اوقیانوس کے پار موجودہ سپر پاور امریکا ہے جو پاکستان کے معاشی مفادات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چین اور امریکا میں باہم تجارت کا حجم 621 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بھارت اور امریکا میں تجارت کا حجم 129 ارب ڈالر ہے۔ چین اور بھارت میں باہم تجارت 100 ارب ڈالر سے بڑھ چکی۔ دوسری طرف امریکا پاکستان کا واحد نفع بخش تجارتی شراکت دار ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں میں تجارت کا کل حجم 6.6 ارب ڈالر ہے جبکہ چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان کا خسارہ 15 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے کل بیرونی قرضوں میں ایک تہائی قرضہ چین سے لیا گیا ہے۔ پاکستان کا کل معاشی حجم صرف 348 ارب ڈالر ہے اور آئندہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو کا ہدف 0.29 فیصد ہے۔
پاکستان روز اول ہی سے اپنی معیشت چلانے کے لیے بیرونی امداد کا محتاج رہا ہے۔ قائداعظم نے مرزا ابوالحسن اصفہانی کے ذریعے امریکا سے دو ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کی درخواست کی تھی جو نامنظور کر دی گئی۔ تاہم 2002 سے 2013 تک پاکستان کو امریکا سے 26 ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد دی گئی۔ 75 سال میں پاکستان کو ملنے والی کل امریکی امداد کا تخمینہ 76 ارب ڈالر ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کا رشتہ تزویراتی کی بجائے باہم ضرورت پر مبنی رہا ہے۔ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ عالمی صف بندی پر اثر انداز ہو سکے۔ یہ جولائی 1971 نہیں جب پاکستان نے چین اور امریکا میں تعلقات بحال کرانے میں کردار ادا کیا تھا۔ یہ بھی مدنظر رہے کہ مشرق میں بھارت جیسے بڑے ہمسائے کی شرح نمو 6 سے 8 فیصد کے درمیان ہے اور آبادی چین کے برابر ہے۔ چین کی شرح نمو 4.5 فیصد ہے۔ بھارت اور امریکا میں تزویراتی تعلق پایا جاتا ہے۔ پاکستان امریکا کے ساتھ ایسا ہی تعلق چاہتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ مستقل اور مسلسل تعلقات کے لیے داخلی معاشی اور سیاسی توانائی درکار ہوتی ہے۔ داخلی اور خارجہ محاذ پر پاکستان کے گزشتہ اقدامات سے مغرب بالخصوص امریکا میں اعتماد کا بحران پیدا ہوا ہے۔ ہمارے خطے میں بھارت کو بالآخر چین کے ساتھ براہ راست مقابلے میں اترنا ہے۔ پاکستان کا چین کے ساتھ غیر مشروط تعلق پاک بھارت تعلقات کی ممکنہ بحالی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اگر سعودی عرب پاکستان کو اقتصادی بیل آﺅٹ دینے انکاری ہے تو چین کہیں زیادہ محتاط معاشی طور طریقے رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف اور امریکا کے شکنجے سے گھبرا کر چین کا رخ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ ہمارے معاشی بحران کا پائیدار حل نہیں۔ پاکستان کی جمہوری اور تمدنی اقدار بھی چین کے ساتھ نامیاتی طور پر میل نہیں کھاتیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار میں ہماری روایت چین کی ترجیحات سے مختلف ہے۔ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے۔ پیداواری معیشت، جمہوری تسلسل اور متوازن خارجہ پالیسی۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author