وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سے پانچ دن پہلے فتح محمد ملک کے بیٹے طارق ملک نے نادرا کی سربراہی سے دوسری بار استعفیٰ دے دیا۔ دو ہزار چودہ میں بھی مسلم لیگ ن کے دور میں اسی عہدے سے استعفیٰ دیا تھا کیونکہ اس وقت کے انا پرست وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو طارق ملک میں ” یس سر جی سر بالکل سر“ کی شدید قلت کے سبب ان کی شکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ چوہدری صاحب یہ سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ ووٹروں اور حامیوں کی توقعات اپنی جگہ مگر طارق ملک کا نادرا ایک ٹیکنیکل ادارہ ہے اس لیے دیگر سرکاری اداروں کے برعکس یہاں پرچی کے بجائے میرٹ پر ہی بھرتیاں ہو سکتی ہیں۔نیز یہ کہ ٹیکنالوجی اختیار کر کے شفاف ای گورنمنٹ تشکیل دینے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر ٹیکنالوجی کو سیاسی مصلحتوں کی لگام سے کنٹرول کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔تازہ استعفیٰ محض سادہ استعفیٰ نہیں بلکہ یہ ہمارے اس اشرافی کردار کا آئینہ ہے جو زبان پہ کچھ اور عمل میں کچھ ہے۔
چیئرمین نادرا نے اپنے تیاگ پتر میں لکھا کہ انھیں جون دو ہزار اکیس میں متعدد انٹرویوز کے بعد ایک سو سے زائد امیدواروں میں سے اس منصب کے لیے چنا گیا۔ تب وہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے نیویارک ہیڈ کوارٹر میں بطور چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر کام کر رہے تھے۔مگر پاکستان چونکہ ہمیشہ سے ان کی پہلی محبت ہے لہٰذا جب انھیں اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب کیا گیا تو وہ پینتالیس نئے اہداف لے کر واپس آئے اور دو برس کی قلیل مدت میں سب کے سب مکمل بھی کر لیے۔
ان اہداف میں آٹو میٹڈ فنگر آئیڈینٹٹی سسٹم کا نفاذ بھی تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اڑسٹھ بلین ڈالر کی عالمی بائیومیٹرک سلوشن مارکیٹ میں امریکا، برطانیہ ، یورپی یونین اور روس کے ہم پلہ ہونے کے قابل ہو گیا۔پاکستان موبائل ایپ کے ذریعے ایک عام صارف کو دستاویزات کی آن لائن بائیو میٹرک توثیق و تصدیق کی سہولت فراہم کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
ڈیجیٹل وراثتی سرٹیفکیٹس کے اجرائی نظام کے سبب روایتی عدالتی بوجھ میں تیس فیصد تک کمی آ گئی اور خواتین ورثا کی جائیداد میں حصہ داری کی دعویداری کا عمل بھی سہل اور شفاف ہو گیا۔ مختلف وزارتوں ، اداروں اور ایجنسیوں کی کارکردگی کو ای گورننس کے قالب میں ڈھالنے کے لیے ڈیجیٹل پاکستان پروگرام شروع ہوا۔اس عرصے میں تئیس ہزار اہلکاروں پر مشتمل اس ادارے کو میرٹ کے اصول پر اس طرح ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سماج کے تمام طبقات کو بلاامتیاز و حیل و حجت ڈیجیٹل شناخت و تصدیق سمیت دیگر سہولتوں کی چھتری تلے لا سکے۔ ان اصلاحات کے سبب ڈیجیٹل سہولتوں سے استفادے میں حائل صنفی فرق کو چودہ فیصد سے گھٹا کے آٹھ فیصد تک لانے میں کامیابی ہوئی۔گزشتہ دو برس میں ساڑھے پانچ لاکھ خصوصی افراد ، پچاس لاکھ اقلیتی شہریوں اور ہزاروں ٹرانس جنڈر پاکستانیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے۔پہلی قومی ڈیجیٹل مردم شماری کو شفاف اور جوابدہ بنانے کے لیے خصوصی سافٹ وئیر سے مزین ایک لاکھ چھبیس ہزار ڈیجیٹل ٹیبلٹس محکمہ شماریات کو فراہم کی گئیں۔
وہ ضعیف شہری جن کے انگوٹھے کے نشانات مٹ جاتے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے تصدیق سروس، ڈیجیٹل پاور آف اٹارنی کا اجرا، اور شہریوں کے کوائف استعمال کرنے سے پہلے ان کی پیشگی اجازت کے لیے ڈیجیٹل سروس متعارف کروائی گئی۔ کوویڈ اور سیلاب کے بحرانی دنوں میں ضرورت مندوں کی بروقت امداد کے لیے ان کے شناختی ڈیٹا کی متعلقہ اداروں کو فراہمی و توثیق میں نادرا نے بنیادی کردار نبھایا۔مگر کسی بھی غیرجانبدار پروفیشنل اہل کار کے لیے یکسوئی سے کام کرنا روز بروز مشکل ہوتا چلا جاتا ہے جب سیاسی فضا مکدر ہوتی چلی جائے اور پروفیشنل لوگوں اور اداروں کو بھی ” ہم اور تم “ کے میزان پر تولا جانے لگے۔ سیاسی وفاداری میرٹ سے افضل سمجھی جانے لگے۔
قطع نظر کون سی پارٹی اقتدار میں ہے اور کون حکمران ہے۔ میں نے شرحِ صدر کے ساتھ تمام حکومتوں کے ساتھ ذاتی وقار و شائستگی ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فرائض نبھانے اور ہر رکنِ پارلیمان اور پارلیمانی کمیٹیوں کے استفسارات بلا امتیاز نمٹانے کی کوشش کی۔الیکشن کمیشن سے تعاون کرتے ہوئے ووٹرز لسٹ کی تیاری کے دوران تین سو سے زائد سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو تحریری دعوت دی کہ وہ اپنے کسی بھی سوال یا تحفظ کے بارے میں براہ راست رابطہ کر کے وضاحت مانگ سکتے ہیں۔مگر موجودہ منقسم اور کشیدہ سیاسی ماحول میں یہ پیشہ ورانہ توازن برقرار رکھنا میرے لیے مشکل تر ہو رہا ہے۔ لہٰذا میں استعفیٰ پیش کر رہا ہوں۔
بس اتنی درخواست ہے کہ اس جگہ کسی حاضر یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے بجائے ایسے شخص کا تقرر کیا جائے جو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل مینجمنٹ کے تقاضوں کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔ نادرا ان گنے چنے اداروں میں شامل ہے جو پاکستان میں بہترین کارکردگی کا مثالیہ کہے جا سکتے ہیں۔ ایسے ادارے مزید سیاسی تجربوں یا دباﺅ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ہماری ٹیکنیکل ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔وہ ایک قومی سرمایہ ہیں اور اس سرمائے کا تحفظ قومی زمہ داری ہے۔ان کے بغیر یہ ادارہ اتنا آگے نہیں جا سکتا تھا۔میں ان سب کے لیے نیک تمناﺅں کا طالب ہوں۔پاکستان زندہ باد۔
یہ ایک پڑھے لکھے مڈل کلاس پاکستانی کی کہانی ہے۔اس نے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بتیس برس پہلے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کیا۔جرمنی میں شلر یونیورسٹی ہائڈل برگ سے انٹرنیشنل بزنس مینجمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ہارورڈ کینیڈی اسکول اور پرنسٹن سے جدید ادارہ سازی کا نصاب پڑھا۔دو برس حکومتِ بحرین کے انفارمیشن سسٹم کا مشیر رہا۔امریکی ریاست مشی گن کی وئین کاونٹی کے ڈیجیٹل پروجیکٹ مینجمنٹ سسٹم کی تشکیل میں چھ برس مختلف حیثیتوں میں کلیدی کردار نبھایا۔پھر پاکستان لوٹ آیا۔ دو ہزار آٹھ تا بارہ نادرا کے ٹیکنالوجی ڈویژن کا سربراہ رہا۔اس حیثیت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا مینجمنٹ سسٹم ، آفات سے متاثر افراد کی مالی مدد میں شفافیت لانے کے لیے بائیومیٹرک کیش گرانٹ سسٹم کے علاوہ افغان مہاجرین کی ڈیجیٹل رجسٹریشن سسٹم ، موبائیل فون پیمنٹ سسٹم اورا سمارٹ کارڈ کے منصوبوں کی داغ بیل ڈالی۔
دو ہزار بارہ تا چودہ بطور چیئرمین نادرا کو ایک خود کفیل منافع بخش وفاقی ادارہ بنایا۔ریونیو میں تین سو فیصد تک اضافہ کیا۔شفاف انتخابات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے لیے بائیو میٹرک ڈیٹا بیس بنایا۔ دو ہزار چودہ تا سولہ امریکا کی ٹیرا ڈاٹا کارپوریشن میں بطور سینئر انڈسٹری کنسلٹنٹ ریاستی ، مقامی اور وفاقی حکومت کو ڈیٹا مینجمنٹ اور ای گورنمنٹ کے بارے میں مشاورت فراہم کی۔ایک سال ورلڈ بینک میں ٹیکنیکل کنسلٹینسی کی۔اگلے چار برس اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی فنڈ ( یو این ڈی پی ) کے چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر رہے۔ بائیس جون دو ہزار اکیس تا تیرہ جون دو ہزار تئیس دوسری بار نادرا کے سربراہ بنے۔
طارق ملک کا شمار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے وابستہ چوٹی کے ایک سو عالمی انلفوئنسرز میں ہوتا ہے۔امریکا ، یورپ ، روس ، سعودی عرب ، کینیا، نائیجیریا، صومالیہ ، سوڈان ، تنزانیہ ، ملاوی ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی سرکاریں بھی ان کی مشاورت سے فائدہ اٹھا چکی ہیں۔
طارق ملک جیسوں کے لیے دنیا پہلے بھی بانہیں پھیلائے کھڑی تھی۔اب بھی کھڑی ہے۔ اب وہ بھی ان سات لاکھ سے زائد پروفیشنلز میں شامل ہونے والے ہیں جو پچھلے دو برس میں یہ ملک دل پے پتھر رکھ کے چھوڑ گئے اور چھوڑتے ہی چلے جا رہے ہیں اور پتھر دن بدن وزنی ہوتا جا رہا ہے۔بالخصوص ” موسمِ ڈار“آنے کے بعد تو ڈار کی ڈار پرواز بھرتی جا رہی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ