محمد صابر عطا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
"ہم تم ہوں گے بادل ہوگا۔رقص میں سارا جنگل ہوگا”
"کنڈیاں تے ٹر کے آئے”
"بابائے تھل فاروق روکھڑی "
جس کے گیتوں نے آج بھی شائقین موسیقی کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔
تحریک قیام پاکستان کے اہم رکن ،اردو اور سرائیکی کے ممتاز شاعر کا احوال زیست۔
فاروق روکھڑی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے اپنے گیتوں کے ذریعے سرائیکی زبان کو دوام بخشا ہے اس وقت ان کے گیتوں نے عالم گیر شہرت حاصل کی جب سرائیکی زبان نے اپنی شناخت کا سفر خطے سے باہر شروع کیا تھا۔ان کی شاعری نے نہ سرائیکی زبان کی ترویج کی بلکہ سرائیکی موسیقی کو بھی عروج بخشا۔
ان کی شاعری جب سرائیکی کے سپوت عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی زبان اور گلے کی زینت بنی تو شہرت نے دونوں کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور دنیا بھر کی محبتیں سرائیکی اور عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی جھولی میں ڈال دیں ۔بابائے تھل فاروق روکھڑی مرحوم کو ہم سے بچھڑے 15برس بیت گئے ہیں مگر ان کے گیت اور شاعری آج بھی زبان زد عام ہیں۔
"فاروق روکھڑی اور ان کا خاندانی پس منظر”
فاروق روکھڑی اپنے سوانحی خاکہ کے مطابق
ان کے دادا سردار حضور بخش سنگھ ضلع بنوں کے شہر لکی مروت سے ہجرت کرکے میانوالی کے نواحی قصبہ روکھڑی میں رہائش پذیر ہوگئے وہ ذبردست حکیم تھے ۔ںعد ازاں انہوں نے اسلام قبول کیا ۔
ان کے بیٹے سردار دین محمد کے بطن سے دو بھائ پیدا ہوئے ۔
ان کے علاوہ فاروق روکھڑی کا سارا خاندان تقسیم کے وقت بھارت ہجرت کر گیا.
فاروق روکھڑی 7مئ 1929کو میانوالی کے قصبہ روکڑی جسے بعد میں روکھڑی کہا جانے لگا میں پیدا ہوئے
1945ء میں مڈل سکول روکھڑی سے مڈل اور 1947ء میں رام گھمبیر سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔
میٹرک تعلیم سے فارغ ہوئے تو دادا کے دوست کی وساطت سے
1949ء میں محکمہ ریلوے میں "تار بابو”بھارتی ہوگئے ۔1970ء میں بطور سپروائزر ترقی ہوئ اورملک وال ریلوے اسٹیشن پر تعینات ہوگئے ۔ہری پور ہزارہ ،میانوالی،لیہ سمیت متعدد علاقوں میں محکمانہ خدمات سر انجام دیں اور کندیاں میں مقیم ہوگئے 1984ء میں محکمہ ریلوے سے ریٹائرمنٹ حاصل کی ۔
"شاعری کا آغاز”
شاعری کا شوق تو انہیں بچپن اور لڑکپن سے ہی تھا مگر شعر سخن ہی رہے وہ خود بتاتے تھے کہ زمانہ طالب علمی میں جب وہ مڈل سکول روکھڑی میں زیر تعلیم تھے تو ان کے "ہیڈ ماسٹر حافظ سلطان محمود علامہ اقبال کے اشعار بانگ درا سے پڑھ کر سنایا کرتے جب وہ ان کی وضاحت کرتے تو انہیں بہت لطف آتا وہیں سے شاعری کا شوق پیدا ہوا.1947ء میں جب میٹرک کلاس میں داخلہ لیا تو ٹوٹے پھوٹے اشعار کہنے لگا لیکن کسی کو سنانے کی جرات پیدا نہیں ہوئ ۔”
فاروق روکھڑی اپنی کتاب "ہم کو بھی نیند آئے "کے دیباچے میں لکھتے ہیں
"1949ء میں ریلوے میں بھارتی ہوئے تو اردو شاعری میں طبع آزمائ کرتا رہا وہاں مرزا امجد بیگ جالندھری سے اصلاح لی ۔والد صاحب کو میر شاعری کا علم ہوا تو انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں مجھے شاعری سے منع کردیا کہا کہ پہلے زندگی کی جنگ لڑو بڑے ہونے کی وجہ سے گھر کی تمام ذمہ داریاں تمہارے کاندھے پر ہیں جس پر شاعری چھوڑ دی 1952سے 1971ء تک شاعری چھوڑ دی”
مزید لکھتے ہیں۔
"1971ء میں میرا تبادلہ ملک وال سے کندیاں ہوا تو میانوالی میں ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں میانوالی کے ادبی افق پر سید انجم جعفری ،سالار نیازی ،سید انوار الحق ظہوری ،سید نصیر شاہ کا ادب میں طوطی بولتا تھا ۔
ابتداء میں سید انوار الحق ظہوری سے اردو غزلیات کی اصلاح لی جب وہ لاہور منتقل ہوگئے تو سید نصیر شاہ سے اردو غزلیات کی اصلاح لینا شروع کردی۔”
فاروق روکھڑی لکھتے ہیں
"1971ء سرائیکی شاعری کا آغاز کیا اور پھر مادری زبان میں گیت نگاری کی صنف میں زیادہ کام کیا ”
فاروق روکھڑی نے نہ صرف اردو غزلیات لکھیں بلکہ سرائیکی اور پنجابی گیت بھی لکھے۔
"فاروق روکھڑی کا تحریک قیام پاکستان میں کردار "
فاروق روکھڑی جب1947ء میٹرک کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ان دنوں تحریک قیام پاکسان عروج پر تھی برصغیر میں مسلم علاقوں میں پاکستان کے قیام کے لیے جلسے جلوس نکالے جا رہے تھے فنکار اور شاعر اپنی تخلیقات کے ذریعے تحریک کے ارکان کا لہو گرما رہے تھے ان دنوں فاروق روکھڑی بھی میانوالی کے جلسوں جلوسوں کی رونق ہوا کرتے تھے۔
اللہ پاک کی طرف سے ترنم کی نعمت ملنے پر وہ اپنے اور دیگر شعراء کی نظمیں اور اشعار جلسوں میں پڑھا کرتے ۔
فاروق روکھڑی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں
"1947میں میانوالی میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے خان امیر عبداللہ روکھڑی (جو فاروق روکھڑی صاحب کے رضائ بھائ بھی تھے)اور مولانا عبدالستار نیازی کی قیادت میں جلوس نکالے اور جلسے منعقد کیے جا رہے تھے
ان جلسوں میں کسی کی نظم "مسلم ہے تو لیگ میں آء”بہت مشہور ہوئے تھی اسے ترنم کے ساتھ پڑھا کرتا تھا ”
فاروق روکھڑی کو اعزاز حاصل ہے کہ ضلع کچہری میانوالی جا کر انہوں نے انگریز سرکار کا جھنڈا اتار کر پاکستان کا پرچم لہرا دیا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے مطابق "تحریک قیام پاکستان کے دوران حبیب جالب،جمیل الدین عالی کے علاؤہ فاروق روکھڑی سے بہتر مقام اور کسی شاعر کو نصیب نہیں ہوا”
"سرائیکی اور اردو گیت نگاری کا آغاز”
فاروق روکھڑی نے شاعری کا آغاز تو 1952سے کیا مگر سرائیکی شاعری 1971سے شروع کی۔
فاروق روکھڑی لکھتے ہیں
"یہ 1975ء کی بات ہے جب متعدد گلوکاروں کی آواز میں میرے گیت علاقائ سطح پر گائے جارہے تھے ایوب نیازی،شفیع اختر وتہ خیلوی مسعود ملک کی آواز میں گیت مشہور ہو چکے تھے مسعود ملک کی آواز میں اردو غزل
"ہم تم ہوں گے بادل ہوگا ۔
رقص میں سارا جنگل ہوگا”
ملک گیر شہرت حاصل کر چکی تھی
ایک دن عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی میرے محلے زاد فاروق ہاشمی کے ہمراہ میرے غریب خانے پر گیت لینے کے تشریف لائے اس دن سے ایسا تعلق قائم ہوا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔”
"فاروق روکھڑی کے معروف نغمے اور گلوکار”
فاروق روکھڑی کے لکھے گیتوں اور غزلیات کی تعداد ہزاروں میں ہے ان کے لکھے گیتوں کو نہ صرف پاکستانی گلوکاروں نے گایا بلکہ بھارت کے گلوکاروں نے بھی کاپی کیا ۔
جن گلوکاروں نے کلام گایا ان میں سب سے زیادہ کلام عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی نے گایا ہے جبکہ دیگر گلوکاروں میں مادام نور جہاں ،شمسہ کنول ،افشاں بیگم،نصیبو لعل ،سائرہ نسیم،مسعود ملک،ایوب نیازی ،شفیع وتہ خیلوی ،عطاء محمد نیازی داؤد خیلوی ،اعجاز راہی،شفاءاللہ روکھڑی ،ذیشان روکھڑی،منصور علی ملنگی،اللہ دتہ لونے والا،شوکت علی،احمد نواز چھینہ،عارفہ صدیقی،بنجمن سسٹرز ،عبدالستار زخمی،امجد کارلو سمیت درجنوں پاکستانی گلوکار شامل ہیں
بھارت میں ہنس راج،ببو مان ،اور دیگر نے فاروق روکھڑی کا کلام کاپی کیا ہے۔
ان کے مشہور نغموں میں
*ہم تم ہوں گے بادل ہوگا۔
*کھول صراحی پیارے ساقی
*جنوں کو ضبط سکھا لوں
*خود پر نہ کسی اور پہ احسان ہے یارو
*دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا
*تمہیں تو علم ہے کیا خوب وہ زمانہ تھا
*ان رت جگوں کا یارب کب تک عذاب دیکھیں ۔
*جیون میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں
*یہ بات الگ تم سے جدا ہو نہیں سکتا
*کنڈیاں تے ٹر کے آئے
*اساں گٹ پیتی ہے تے مچ گیا شور وے
*اےتھیوا مندری دا تھیوہ
*اک پانڑی ڈلیا تے ڈوجھا گھڑا ٹٹیا۔
*آء میڈا جانی ہک گل کراں ہا۔
*ایویں نہ لکیراں آتے مار توں لکیر وے
*اے ارمان نہ دل میڈے دا جاندا وے۔
*پیار دی شراب اساں پیار نال پیتی ہے
*ساڈا کی اے دنیاں دے نال سوہنڑیاں دی خیر منگدے
*بیر میں گھنساں کنڈے پڑائ۔
*پھلاں دی چنگیر ڈل گئ
*ہتھ روک نہ میڈا دربان آ
*کہڑے سمے آنویں گا او ڈس جانیاں۔
*تیڈے کول کول راہندے
*مردے وی رہے ہاں تے جیندے وی رہے ہاں
*تیڈی سانول اگلی ٹور تے نہیں۔
ان کے علاؤہ سینکڑوں گیت ایسے ہیں جو آج بھی سرائیکی ثقافت اور تہذیب سے رچے بسے شائقین موسیقی کے دل و دماغ پر راج کر رہے ہیں۔
"فاروق روکھڑی کی کتابیں”
فاروق روکھڑی نے ابتدائی سالوں میں گیت نگاری اور مشاعروں پر توجہ دی جس کی وجہ سے ان کی کتابیں ان کی آخری زندگی میں شائع ہوئیں ۔
ان کی چار کتابیں شائع ہوئیں۔
(1).ہم کو بھی نیند آئے(اردو)
(2).کاغد دی بیڑی(سرائیکی)
(3).میں کوئ پارسا نہیں فاروق(اردو)
(4). قربتیں (اردو)
موجود ہیں۔
"فاروق روکھڑی بابائے تھل کیسے بنے”
قیام پاکستان کے وقت میانوالی سے بھارت ہجرت کرنے والے ممتاز ادیب رام لعل اپنی جنم بھومی دیکھنے فروری 1980ء میں پاکستان آئے ایک رات ممتاز پروڈیوسر ستار سید جن کا تعلق میانوالی سے ہے نے اپنے گھر انگوری باغ لاہور میں رام لعل کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا اس نشست میں میانوالی سے ڈاکٹر اجمل نیازی ،فاروق روکھڑی،محمد سلیم احسن ،استاد امیر حسین ،مسعود ملک،استاد امیر حسین بھی شریک ہوئے اس رات محفل موسیقی میں فاروق روکھڑی کے گیت پیش کیے گئے انہوں نے ایسا سماں باندھا کہ وہاں موجود سب شرکاء نے فاروق روکھڑی کے لیے” بابائے تھل” کا خطاب تجویز کیا۔جو بعد ازاں فاروق روکھڑی کے نام کا حصہ بن گیا ۔
اس سے قبل فاروق روکھڑی کی خوش طبعی کی وجہ سے انہیں لالہ فاروق بعد ازاں انہیں ماما فاروق کے نام سے پکارا جاتا رہا ۔یہ دونوں نام وسیب کی ان سے محبت سے گندھے ہوئے تھے ۔
"فاروق روکھڑی شاگردوں کی نظر میں”
فاروق روکھڑی کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبت دیتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی کتابوں کے دیباچوں میں بھی اپنے شاگردوں بارے محبت نامے لکھے ہیں اور اپنے شاگردوں کا کلام اپنی کتابوں میں بھی ان کے نام سے شائع کرکے انہیں اپنے قارئین سے متعارف کرایا ہے ۔
ان کے ایک شاگرد معروف شاعر صائم جی اپنی مشترکہ کتاب میں فاروق روکھڑی بارے لکھتے ہیں
"میں میٹرک کا طالب علم تھا جب فاروق روکھڑی سے غزلوں کی اصلاح لینا شروع کی۔ان کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوا کہ انہیں اپنے دکھ دردسے بھی آگاہ کرتا جب راولپنڈی کامرس کالج داخلہ لیارو غربت کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکا فاروق روکھڑی صاحب میری مالی مدد بھی کرتے تھے مگر میں ان پہ بوجھ نہ بنا اور گھر موسی خیل واپس آگیا انہوں نے پرائیوٹ کمپنی میں میری نوکری کا بندو بست کرایا ۔
فاروق روکھڑی ایک عظیم انسان تھے انسانیت کو ان پر ناز تھا۔”
ملتان میں مقیم نامور شاعر راحت امیر تری خیلوی اپنے استاد محترم بارے لکھتے ہیں
"فاروق روکھڑی اقلیم شاعری کے بے تاج بادشاہ تھے ۔میری شاعری کی پہلی اصلاح مطلب میرے پہلے استاد بھی تھے۔فاروق روکھڑی میانوالی اور گردو نواح میں شاعری کا باقاعدہ سکول کی حیثیت رکھتے تھے
فاروق روکھڑی بے لوث محبت کرنے والے انسان دوست شاعر تھے اپنے شاگردوں کے ساتھ حقیقی بیٹوں جیسی محبت رکھتے کرتے۔بلا شبہ وہ سرائیکی وسیب میں اقلیم شاعری کے بے تاج بادشاہ تھے”
"فاروق روکھڑی اپنے ہم عصر ادیبوں کی نظر میں”
فاروق روکھڑی کی ایک خاصیت انہیں اپنے ہم عصر ادیبوں میں ممتاز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ حسد کی بجائے رشک کی پالیسی اپنائ انہوں نے کبھی اپنے جونیئر ،سینئر یا ہم عصر کے ساتھ حسد نہیں کیا وہ سب کے ساتھ محبت کرتے تھے۔
ملک کے ممتاز ادیب و کالم نگار ڈاکٹر محمد اجمل نیازی فاروق روکھڑی بارے لکھتے ہیں
"فاروق روکھڑی کی شاعری میں رومانوی فضاء کے ساتھ ساتھ یہ انقلابی ادا بھی دکھائی دیتی ہے انہوں نے ایسی نظمیں بھی لکھی ہیں جو سیاست اور صحافت کے اندر پیدا ہوجانے والے منفی رحجانات کی نشاندہی کرتی ہیں۔اس میں کوئ شک نہیں کہ فاروق روکھڑی سرائیکی شاعری کا بہت بڑا سرائیکی شاعر تسلیم کیاجاتا ہے لیکن ان کے اردو کلام نے بھی بہت متاثر کیا ہے۔باطنیت کے اظہار کے لیے فاروق روکھڑی کے ہاں موضوعات کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہے چھوٹے موٹے انسانی مسائل سے لے کر حیات و کائنات کے اسرار و رموز تک تمام ان کے احاطہ ء شاعری میں شامل ہیں اس نے وقار و عظمت کے ان خزانوں کی نشاندہی کی ہے جو انسان کے اندر موجود ہیں ۔وہ اپنی شاعری میں وقار آدمیت کی بقاء کی خاطر تخت وتاج کو ٹھوکر مارتا ہوا ملتا ہے اس لیے میں نے اسے "وقار آدمیت”کا شاعر قرار دیا ہے ۔”
رام لعل بھارت کے ممتاز لکھاری ہیں قیام پاکستان کے وقت میانوالی سے بھارت ہجرت کرگئے ۔بعد ازاں وہ پاکستان آئے اور میانوالی اپنی جنم بھومی کا دورہ کیا واپسی پر انہوں نے پاکستان کا سفر نامہ "زرد پتوں کی بہار”لکھا اس میں رام لعل فاروق روکھڑی بارے لکھتے ہیں
"16اور 17فروری کی درمیانہ شب میانوالی سے لاہور کا سفر کافی معنوں میں دل چسپ ثابت ہوا ۔
رات کے وقت ٹرین واں بھچراں اسٹیشن سے آگے گزری تو ساتھ والے ڈبے سے کچھ عورتوں کے گیت گانے کی آواز سنائ دینے لگی رات کے سناٹے میں یہ آواز گاڑی کے شور پر بھی حاوی ہوگئ۔
"تیڈے کنڑ پاء کے آئ ونگاں نہ تروڑ وے
بانہہ بھنی ویسی ڈھولا وینڑی نہ مروڑ وے۔”
یہ گیت میرے دوست فاروق روکھڑی کاہی تھا ۔مجھے خوشی ہوئ یہ عوام کی زبان پر چڑھ گیا تھا ”
آگے جا کر رام لعل پھر لکھتے ہیں
"رات کو ستار سید نے اپنے گھر واقع انگوری باغ لاہور میں کھانے پر بلا رکھا تھا اس محفل میں ڈاکٹر اجمل نیازی ،فاروق روکھڑی،پروفیسر سلیم احسن ،گلوکار ایوب نیازی ،موسیقار استاد امیر حسین ،گلوکار مسعود ملک بھی موجود تھے اس طرح لاہور کے ایک کونے میں اچانک ایک چھوٹی سی میانوالی آباد ہوگئ تھی استاد امیر حسین کی دھنوں پر گلوکار ایوب نیازی فاروق روکھڑی اور سلیم احسن کے متعدد گیت سنائے جو سرائیکی زبان میں تھے ان گیتوں کا ہر ایک لفظ سرائیکی وسیب کے میانوالی کی مٹی اور آب و ہوا کی خوشبو میں رچا ہوا تھا اپنی دھرتی اور اپنی زبان پر انسان کی کمزوری بنی رہی ہیں۔
ان گیتوں کی لے پر ہم سب بوڑھے اور جوان بار بار اٹھ کر ناچنے لگ جاتے تھے۔”
فاروق روکھڑی سرائیکی وسیب کے خطہ ء تھل کا ایسا بخت مند ادیب تھا جس کے نغموں نے نہ صرف سرائیکی زبان کو دوام بخشا بلکہ ان نغموں کے سحر نے دنیا بھر کو عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی اور سرائیکی زبان کا گرویدہ بنا دیا جب تک سرائیکی موسیقی موجود ہے فاروق روکھڑی کے نغمے شائقین موسیقی کے قلوب و اذہان پر راج کرتے رہیں گے ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی