نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کھیل کے نئے اصول؟ ۔۔۔||عاصمہ شیرازی

کئی صحافیوں نے اظہار کے تمام پلیٹ فارمز چھوڑ دیے اور جو باز نہ آئے وہ تیر ستم کا نشانہ بنتے رہے۔ جھوٹ، الزام، بہتان اور چہرے کالے کرنے کی ایسی روایت شروع کی گئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ تب بھی غلط تھا اور اگر آج اس کی کوشش جاری ہے تو اب بھی غلط ہے۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم جہاں کل کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ وقت بدلا حالات بدلے مگر ہم نہیں بدلے۔ خاص طور پر پاکستان میں میڈیا کے حالات تھوڑی کمی، تھوڑی بہتری کے ساتھ کم و بیش ویسے ہی ہیں جیسے ہمیشہ رہے ہیں۔

آزادی اور محدود آزادی کے بیچ لڑتا ہوا میڈیا ہمیشہ پہلا نشانہ رہا، سینسر شپ اور پھر سیلف سینسر شپ کا سفر کبھی نہیں رُکا۔ گذشتہ دور حکومت میں عمران خان کھلاڑی سے ’آزادی صحافت کے شکاری‘ بنے تو آج اُن کا نام میڈیا پر ’برسرِ الزام‘ بھی نہیں آ سکتا۔

جمہوریت اور آزادی صحافت کی بحث تو کہیں پیچھے رہ گئی، اب کہیں محدود آزادی بھی خطرے میں تو نہیں؟

سنہ 2019 میں ’رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز‘ پاکستان میں آزادی صحافت کو صرف حکومت کی تشہیر اور پروپیگنڈہ کی آزادی سے تعبیر کر رہا تھا تو آج صحیح اور حقائق پر مبنی صحافت بھی خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ واقعات، حادثات اور حالات آج بھی آزاد صحافت اور صحافیوں کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔

کل جو نام لینے سے نامور تھے آج وہ نام لینے سے بدنام ہیں۔ کل جس چہرے کو دکھا کر اشتہار ملتے تھے آج اُس چہرے کو چھپا کر داد ملتی ہے۔ کل جو رعونت کا نشان تھے آج وہ عبرت کا مقام رکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ کل ایک وزیراعظم کا نام نہیں چل سکتا تھا آج دوسرے کے نام پر پابندی ہے، کل پابندی لگانے والے آج اُسی پابندی کا شکار ہیں۔

حالات کی ستم ظریفی کہیں یا مکافات عمل مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہم کل بھی پابندیوں کے خلاف تھے اور آج بھی معترض۔

کھیل کے نئے اصول طے ہو چکے ہیں۔ کھیل ہائبرڈ رجیم کے آغاز سے شروع ہوا تو کیا اب یہ ہائبرڈ پلس بن چکا ہے؟ سمجھ نہیں آتا قصوروار کون ہے۔ اقتدار کے لالچ اور ذاتی مفاد میں ہر کمپرومائز کرنے والے سابق حکمران جنھیں آج بھی اس بات کا احساس نہیں کہ اُن سے کیا غلطیاں ہوئیں۔۔۔ نہ کوئی احساس، نہ اعتراف اور نہ ہی پچھتاوا۔

فوجی اشرافیہ کے کندھے استعمال کرنے والے آج بھی فوج سے ہی معاملات طے کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم جیسے جمہور پسند آزادی صحافت یا اظہار کی بات کریں تو کل بھی شرپسند اور آج بھی ناپسندیدہ۔

نواز شریف

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن’ستم ظریفی یہ کہ کل ایک وزیراعظم کا نام نہیں چل سکتا تھا آج دوسرے کے نام پر پابندی ہے، کل پابندی لگانے والے آج اُسی پابندی کا شکار ہیں‘

آزادی اظہار پر لگی باقاعدہ پابندیوں کا آغاز 2018 کے انتخابات سے قبل ہوا اور بقا گذشتہ دور میں ملی جب آزاد صحافیوں پر پابندیاں اوراُن کی زبان بندی، کردار کُشی، حملے اور اغوا جیسے ہتھکنڈے استعمال ہوئے۔ یہاں تک کہ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر بھی پابندیاں لگائی گئیں۔

ناپسندیدہ ٹویٹس ڈیلیٹ کرائے جاتے اور ایک ایسی بریگیڈ تیار کی گئی جو آزاد صحافیوں کے خلاف ہر لمحہ صف آرا رہتی۔ ہر وہ ہتھکنڈا استعمال ہوا جو سیلف سینسر شپ کے لیے کارآمد ہو سکتا تھا۔ جو کام آمریت اس ملک میں نہ کر سکی وہ کام نیم جمہوریت اور ہائبرڈ نظام نے کر دکھایا۔

کئی صحافیوں نے اظہار کے تمام پلیٹ فارمز چھوڑ دیے اور جو باز نہ آئے وہ تیر ستم کا نشانہ بنتے رہے۔ جھوٹ، الزام، بہتان اور چہرے کالے کرنے کی ایسی روایت شروع کی گئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ تب بھی غلط تھا اور اگر آج اس کی کوشش جاری ہے تو اب بھی غلط ہے۔

اب جب کھیل کے نئے اصول طے کیے جا رہے ہیں تو انتخابات پھر قریب ہیں۔ گو کہ نو مئی جیسے واقعات اور سیاست میں تشدد کا کوئی عنصر قابل قبول نہیں لیکن کیا آزاد صحافت کا گلا گھوٹنے کا کوئی جواز ہے؟

تاریخ میں نام لینے پر پابندی لگانے کی مثالیں موجود ہیں لیکن اُن کے نتائج بھی معلوم ہونا چاہییں۔ جس طرح ’قاسم کے ابا‘ کے نام لینے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی گئی ہے یہ مضحکہ خیز ہے۔ ناظرین اور قاری بھی کنفیوزڈ ہیں اور صحافی اور اینکر بھی۔ خدارا ماضی سے سیکھیے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب عمران خان صاحب پر عائد الزامات کا ذکر بھی ہو تو بھی نام نہیں لیا جا سکتا، کیا یہ قدم عمران خان کو بچانے کے لیے ہے یا مورد الزام ٹھہرانے کے لیے؟ اس کا الزام کس کے سر ہے اور کون ذمہ دار ہے؟ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author