نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہائبرڈ سے ہاف پلیٹ جمہوری نظام؟۔۔۔||عاصمہ شیرازی

تحریک انصاف کے ’گمراہ حامی‘ بہر حال حقیقت ہیں، کیا وہ بادشاہ گر جہانگیر ترین کو رہنما مانیں گے یا ہاشم ڈوگر اور شاہ محمود قریشی کو؟ مسئلہ وہ نئے نوجوان ووٹر بھی ہیں جو متبادل قیادت کے منتظر ہیں مگر ناں تو بلاول بھٹو کی توجہ ہے اور نہ ہی مریم نواز کے پاس وقت۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال ہی سوال ہیں اور جواب نہ ملیں تو سوال الجھن بن جاتے ہیں، الجھن سلجھے نہ تو چبھن۔۔۔ اپریل 22 سے قبل جو کچھ ہوا وہ ایک نیا تجربہ تھا مگر اب جو ہو رہا ہے وہ بھی کہیں ایک اور تجربہ نہ بن جائے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔

کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ نئے اُبھرتے نظام میں جمہوریت محض نعرہ اور شخصی آزادی محض خواب ہو گا؟ محدود جمہوریت، مشروط انصاف اور محفوظ آزادئ اظہار نئے ممکنہ نظام کے خدوخال ہوں گے؟

جمہوریت کی جنگ میں ہائبرڈ نظام اور اب ہائبرڈ نظام سے چھٹکارے میں ہاف پلیٹ جمہوری نظام۔۔۔ کیا ہم کچھ کھو رہے ہیں؟ بساط بنانے والوں نے ایسی بازی بنائی کہ جیتوں تو تجھے پاؤں، ہاری تو پیا تیری۔

ہائبرڈ نظام کی تخلیق سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوئی اور تجربہ ناکام ہوا تو بھی ہاری تو صرف جمہوریت۔

نو مئی کے بعد سے ایک ہی وقت میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ تخلیق کاروں کی پیشکش اور اینڈ گیم کے چکر میں نظام مزید مرکزیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آزاد سوچ سے لڑنے کے لیے بنائی جانے والی ففتھ جنریشن وار فیئر کی فوج کو مکمل آزادی دینے کے بعد قابو پانے کی جنگ میں اظہار پر کہیں اور قدغنیں نہ لگ جائیں؟

عجب مشکل ہے کہ ہائبرڈ دور میں اسٹیبلشمنٹ کے تخلیق کردہ جا بجا بکھرے کردار جمہوریت اور شخصی آزادیوں، اظہار کی آزادی کا جائز ناجائز ہر فائدہ اُٹھانے کے بعد اب آئین کے تحت فراہم آزادیوں کی آڑ بھی لے رہے ہیں۔۔۔ اور اس قدر بے قابو ہیں کہ دوبارہ بوتل میں ڈالیں تو سوال، نہ ڈالیں تو مشکل۔

کیا کیا جائے کہ بے پناہ طاقت اور بے پناہ اختیار کا بھرپور استعمال کرنے والی اُسی طاقت کے شکنجے میں آئے تو ہم جیسے دفاع کے لیے کھڑے ہیں مگر محاسبہ کیسے ہو گا، ڈنڈا کون سا استعمال ہو گا اور دفعہ کون سی لگے گی، اس بابت ہم خیال عجیب مخمصے کا شکار ہیں۔ اب ایک خوف دامن گیر ہے کہ جن بوتل میں ڈالتے ڈالتے کہیں کسی دیو کے حصار میں نہ چلے جائیں۔

یہ سوال اپنی جگہ وسوسوں کو جنم دے رہا ہے کہ کہیں یہ جن اس لیے تو نہیں بنائے گئے تھے کہ ان کی آڑ میں ایک ایسا محل بنا دیا جائے کہ جس پر دیو کا مستقل نظام ہو؟

اس خوف اور وسوسے کو ختم کرنے کے لیے بھی سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کو ضمانت لینا ہو گی۔۔۔ مگر انتخابات تک یہ خدشے غیر تحریری قوانین نہ بن جائیں، یہ ایک اور اہم سوال ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے ملبے کو ٹھکانے لگاتے لگاتے یہ کیوں بھلایا جا رہا ہے کہ نظام سے نفرت کرنے والا ووٹر اور نوجوان اب کس دیوتا کو مانے گا؟ فریب کو حقیقت بنا کر دکھانے والے اعلیٰ حکام اس طرف بھی دھیان دیں کہ اب اس حقیقت سے پردہ چاک ہونے کے بعد مسلسل کئی دہائیاں چلائی جانے والی فلم کے ناظرین کو کس کردار میں ڈھالیں گے؟

تحریک انصاف کے ’گمراہ حامی‘ بہر حال حقیقت ہیں، کیا وہ بادشاہ گر جہانگیر ترین کو رہنما مانیں گے یا ہاشم ڈوگر اور شاہ محمود قریشی کو؟ مسئلہ وہ نئے نوجوان ووٹر بھی ہیں جو متبادل قیادت کے منتظر ہیں مگر ناں تو بلاول بھٹو کی توجہ ہے اور نہ ہی مریم نواز کے پاس وقت۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ فیصلہ ساز تحریک انصاف کو سمیٹتے ہوئے متوسط طبقے کے سیاسی خلاء کو کیسے پُر کریں گے؟ متبادل قیادت نے فوری طور پر عوام اور نوجوانوں کو انگیج نہ کیا تو مائنس عمران کے ساتھ مائنس نظام کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔

آزادئ اظہار کس حد تک ہو اور کیسے ہو؟ خوف ہے کہ ایک فسطائی دور نے زبان میں لکنت پیدا کی، اب کیا لب سیے جائیں گے؟

ایک صفحے کی حکومت نے آزادیوں کو محدود کیا، کیا اب پیر پابہ رسن ہو جائیں گے؟ قلم پابند ہوئے تو کیا اب روشنائی بھی چھین لی جائے گی؟ کئی دنوں سے یہی سوال ہیں جو ذہن کی دیواروں سے ٹکرا رہے ہیں۔

موجودہ حالات میں مصلحت سیاست بن رہی ہے مگر یاد رہے کہ طاقت اور مصلحت کی کبھی مفاہمت نہیں ہوئی۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author