وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون کہتا ہے حالات پہلے سے بدتر ہیں۔جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ ہرگز ہرگز اس ملک کے خیرخواہ نہیں۔ جب انھیں معلوم ہی نہیں کہ پہلے کیسے حالات تھے تو پھر وہ کیونکر ایک باخبر اور متوازن رائے قائم کر سکتے ہیں۔
خود کو باشعور سمجھنے والے یہ مٹھی بھر لوگ دراصل یونیورسٹی آف سنی ان سنی کے گریجویٹ ہیں۔ ان کا تمام علم تیرے میرے کی رائے سے کشید کردہ ہے، خدانخواستہ بہرے ہوتے تو نپٹ جاہل ہوتے۔
انھیں کیا معلوم کہ پچھلی حکومتیں کتنی بے عقل تھیں اور سیاسی مخالفین کو لگام دینے کے لیے ان سے کیسی کیسی بوالعجبیاں نیز یل وللیاں سرزد ہوتی تھیں۔
جب کچھ ہاتھ نہیں آتا تھا تو حسین شہید سہروردی پر انڈیا کی شہہ پر عام لوگوں کو حکومتِ وقت کے خلاف اکسانے کا مقدمہ، چوہدری ظہور الہی پر بھینس چوری اور ستر برس کے مخدوم زادہ حسن محمود پر بھری دوپہری میں کھمبے پے چڑھ کے بجلی کی تاریں چوری کرنے کا پرچہ درج کروا دیتی تھیں اور اس دور کے جج بھی ان مقدمات کو انتہائی سنجیدگی سے سنتے تھے۔
آج کسی سیاسی مخالف کے خلاف ایسا کوئی بے عقلا یا مزاحیہ پرچہ نہیں کاٹا جاتا۔ بلکہ ایک ساتھ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ایف آئی آر کا پورا رجسٹر تھما کے ٹور ڈی پاکستان پر بھیج دیا جاتا ہے۔
آج گلگت میں پیشی تو کل گوادر میں طلبی، پرسوں چترال پولیس کو مطلوب تو ترسوں سکھر پولیس تلاش میں۔ اس عدالت سے گرا تو اس عدالت میں اٹکا۔ اس سے اترا تو چوتھی میں لے جا کے کھڑا کر دیا گیا۔
اس پوری مشق کے پیچھے سزا یا انتقام کی نیت نہیں ہوتی بلکہ حریفوں کو تن آسانی کے مدار سے نکال کے پورے پاکستان کی سیر کرانا مقصود ہے تاکہ وہ کم از کم اس بہانے اپنا ملک ہی دیکھ لیں کہ جس کے تحفظ کے لیے وہ خون کے پہلے قطرے کے بجائے آخری قطرہ بہانے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔
سستے زمانوں میں ہزاروں نظریاتی و سیاسی مخالفین کو جیلوں میں سرکاری مہمان بنا کے رکھنا ریاست کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ تقسیم سے قبل جب کانگریس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلائی تو ایک لاکھ سے زائد سیاسی قیدی انگریز سرکار نے بڑی آسانی سے اکوموڈیٹ کر لیے۔جگہ کم پڑتی تو کالے پانی (جزائر انڈمان) بھیج دیا جاتا۔
خود ضیا الحق کے دور تک ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران بیس پچیس ہزار مخالفین کی گرفتاری اور مہمان نوازی بھی ریاست کے وسائل پر بہت زیادہ بوجھ نہیں لگتی تھی۔
لیکن اب مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ قیدی تو کجا نام نہاد آزاد شہری بھی بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی جٹا پا رہا ہے ۔ریاست بھی قرضے ادھار پر چل رہی ہے۔ چنانچہ اب قیدیوں کو باقاعدہ جیلوں میں رکھنے، مقدمے چلانے اور ان کے کھانے پینے کے نخرے اور اے بی سی کلاس کی عیاشی برقرار رکھنا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
لہذا اب مخالفین کو دو آپشن دیے جاتے ہیں۔(اول) آپ آرام سے بیٹھنا پسند کریں گے یا پھر لیٹنا پسند کریں گے؟ (دوم) آپ رضاکارانہ طور پر منظر سے ہٹنا چاہیں گے یا پھر ہم اس سلسلے میں آپ کی مدد کریں؟
آپ ہمارے ہم خیال گروپ کی ویڈیو شوٹ میں دکھائی دینا چاہیں گے یا آپ کی الگ سے آڈیو ویڈیو بنا کے آپ کی خدمت میں پیش کر دیں؟ آپ گرین ٹیلرز کی شیروانی پہن کے تصویر کھینچوائیں گے یا لباسِ فطرت میں کھال کھچوائیں گے؟
دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کیا کسی بھی عام شہری ، سیاسی کارکن یا سیاستداں کو آج سے پہلے اتنی چوائسز دی جاتی تھیں؟ پھر بھی آپ کے ناشکرے پن کی کوئی انتہا نہیں۔
جیسے جیسے عمر گذرنے کے ساتھ فرد بالغ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ادارے بھی وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر اپنی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ پہلے زمانے کی عسکری قیادت آج کے مقابلے میں محض دس فیصد ناپسندیدہ وجوہات پر غصے میں آ کے اقتدار براہِ راست ہاتھ میں لے لیا کرتی تھی اور پھر اس اقتدار کو اندھے کی لاٹھی کی طرح گھمایا جاتا۔
مگر آج اقتدار براہ راست ہاتھ میں لینا فرسودہ اور آؤٹ آف فیشن حرکت سمجھی جاتی ہے اور دنیا بھر میں بدنامی الگ۔ لہذا اقتدار اسی طرح کرائے پر دیا جاتا ہے جس طرح مزارعین کو کھیت مستاجری پر دیا جاتا ہے۔ کھاد بیج، کیڑے مار ادویات ہمارے، محنت تمہاری۔ ہر فصل میں سے تین چوتھائی ہمارا ایک چوتھائی تمہارا۔اللہ اللہ خیر صلا۔
یہ باتیں سنتے سنتے بال سفید ہو گئے کہ دراصل ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ یہ ہے کہ فیصلہ کن اور فیصلہ ساز ادارے اپنی اپنی آئینی حدود اور دائروں میں رہ کے کام کرنے کے عادی نہیں۔ یوں نہ تو آئینی حکمرانی پوری طرح قائم ہو سکی اور نہ ہی گڈ گورننس کی داغ بیل پڑ سکی۔
خدا کا شکر کہ آج ایسا کچھ نہیں۔ ہر ادارہ ماشااللہ اپنی اپنی حدود میں بااختیار ہے۔ مثلاً کوئی بھی عدالت اپنی چار دیواری میں مکمل بااختیار ہے ۔پارلیمنٹ ریڈ زون کے احاطے میں رہتے ہوئے کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔
ایوانِ صدر کی حدود میں صدرِ مملکت کی اجازت کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ وزیرِ اعظم ریاست بھر میں کسی بھی واقعہ کا فوری نوٹس لے کے رپورٹ طلب کر کے ایکشن لے سکتا ہے۔ لائٹ، کیمرہ، ایکشن۔
اور ہمارے حساس ادارے ملک کی جغرافیائی و نظریاتی و سیاسی و اقتصادی و نفسیاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمیشہ کی طرح مستعد و چاق و چوبند ہیں۔ وہ کسی بھی اندرونی شورش اور بحران پر قابو پانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس بابت یہ ادارے طبِ یونانی کے اس بنیادی اصول پر عمل کرتے ہیں کہ مرض کو پہلے پوری طرح ابھارا جائے تب ہی اس کی جڑ ماری جا سکتی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ یہ ادارے کبھی بھی خود کو ریاست سے الگ یا بیگانہ تصور نہیں کرتے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یک جان و یک قالب والا معاملہ ہے۔ اللہ تعالی یہ محبتیں قائم و دائم رکھے اور ہمیں اس بارے میں ہر طرح کی بدگمانیوں اور وسوسوں سے بچائے رکھے۔ ثمِ آمین۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر