نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین اور چار اپریل 1979کی شب راولپنڈی جیل میں عوام کے پہلے منتخب وزیر آعظم، 1973 کے آئین کے خالق، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اور اسلامی دنیا کے محبوب قائد کو پھانسی دیدی گئی، دنیا بھر کے قانون دانوں نے اس کو عدالتی قتل قرار دیا اور تاریخ نے پاکستان کی عدلیہ کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ، گزشتہ 44 سال سے ہماری عدلیہ مجرموں کے کٹہرے میں ہی کھڑی ہے ۔ 10 سال قبل صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے قاٸد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو دی جانے والی پھانسی کی سزا پر رائے مانگی تھی مگر سیاسی ایجنڈا میں مصروف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے پاس وقت نہیں تھا کہ اس بارے میں کوئی رائے دیتے ۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ، میری نظر میں مولوی مشتاق اور انوار الحق کا منصب سنبھالنے والے بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے مشتاق اور انوار تھے کیونکہ انہوں نے بھی جرم کی پردہ داری کرنے کا فعل کیا ہے ۔
لاھور ہائی کورٹ چیف جسٹس مولوی مشتاق جو جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل کر رہا تھا ان کی بد نیتی ان کے رویہ سے صاف ظاہر تھی جج کے چوغے میں چھپے اس جلاد نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے توہین آمیز سلوک کیا تھا، جلاد جج بھری عدالت میں کبھی قائد عوام بھٹو کو نام کا مسلمان کہتا کبھی توہین آمیز طنز کرتا دیکھا جائے تو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اسلام کی جتنی خدمت کی جلاد مشتاق کے باپ دادا نے بھی نہیں کی ہوگی۔ یہ قدرت کا معجزہ تھا کہ جلاد جج کے جنازے پر خطرناک جنگلی مکھیوں نے حملہ کیا، جنازہ اٹھانے والے جنازہ پھینک کر بھاگ نکلے ان کی جنازہ نماز بھی نہیں ہوئی گورکنوں نے ویسے ہی زمین میں گاڑ دیا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی کی سزا سنانے والے ججوں میں نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے نے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے جیو ٹی وی چینل کے افتخار احمد کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی قطعی غلط تھی وہ بے گناہ تھے ۔
جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ کے اعتراف کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا ضمیر جاگتا اور از خود نوٹس لیتے مگر نہیں لیا لیکن صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے بیجھے گئے ریفرنس کی سماعت کرتے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بندیال نے نیب کے ہاتھوں زیر حراست ملزم عمران نیازی کے لیئے جو کلمات کہے تو مجھے انتہائی شدت سے محسوس ہوا کہ جج صاحبان ضمیر کو پس پشت ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جب بھی سپریم کورٹ کی عمارت کی عمارت کی شاہراہ سے گزرتا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے جرم میں عمارت مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ جیسے آج کی عدلیہ ماضی کی عدلیہ کے گناہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر میں ایک پاکستانی شہری ہوں جس کے خون پسینے کی کمائی ججوں کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہوتی ہے قوم کو یہ پوچھنے کا حق ہے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید سے انصاف کب ہوگا؟
یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر