رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں انہونی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جن کا آپ تصور تک نہیں کرسکتے۔ کم از کم ڈاکٹر انوار احمد صاحب جیسے وہ استاد جن کے ہزاروں شاگرد انہیں جانتے ہیں‘وہ کبھی یہ نہیں مان سکیں گے کہ وہ انسان جس نے عمر بھر چھوٹے بڑے‘ کمزور طاقتور‘ غریب امیر سب کی بلاامتیاز مدد کی‘ درجنوں افسانے غریب اور غربت پر لکھے‘ مظلوموں کے حق میں ہمیشہ آواز اٹھائی‘ دل میں ان کا درد محسوس کیا‘انہیں بھی ملتان میں اپنے ہی گھر دو ڈاکوئوں کے ہاتھوں گن پوائنٹ پر یرغمال بنا کر لوٹ لیا جائے گا۔
ڈاکٹر انوار احمد کا گھر ملتان کی شالیمار کالونی میں واقع ہے۔ صبح کی واک کرتے ہیں۔ پھر گھر لوٹتے ہیں۔ اس دن قریبی سٹور تک کوئی چیز لینے گئے۔ واپس لوٹے تو پہلے سے دو نقاب پوش گھر کے اندر پستول تھامے انتظار کررہے تھے۔ گھر کے اندر تو کتابوں اور اپنے گھر سے دور بچوں اور نواسے‘ نواسوں کی یادوں کے علاوہ کچھ نہیں رکھا تھالہٰذا ان ڈاکوئوں نے ان کا بازو مروڑ کر ان کاموبائل اور بٹوہ چھین لیا۔انہوں نے استاد ہونے کے ناتے ان سے ڈائیلاگ کرنے کی کوشش کی کہ شاید ترے دل میں اتر جائے میری بات۔ صرف اتنا کہا: ان کی بڑی بیٹی نے انہیں کینیڈا سے کچھ پیسے بھجوائے ہیں وہ بٹوے سے لے لیں لیکن مہربانی کریں فون ان سے نہ لیں کہ انہوں نے اب اس بڑھاپے میں اپنے بچوں‘ نواسے نواسوں اور ہزاروں شاگردوں سے رابطہ رکھنا ہوتا ہے۔ خیر ان کا وہ اندازِ گفتگو جسے سنتے ہوئے طالبعلم مسحور ہوتے تھے‘ ڈاکوئوں پر اثرانداز نہیں ہوا۔ شاید ڈاکوئوں کے نزدیک وہ جس پیشے سے تعلق رکھتے تھے وہاں جذبات یا رحم دلی جیسی فضولیات کی گنجائش نہیں تھی۔
میں نے ملتان کے سی سی پی او صاحب کو فون کیا۔ ان سے پرانی دعا سلام تھی۔ انہیں بتایا کہ ہمارے استادِ محترم پر کیا قیامت گزر گئی‘ ہوسکتا ہے پولیس یا عام لوگوں کے لیے ایک معمولی بات ہو کہ کون سی قیامت آگئی‘ ایک گھر سے ڈاکو چند ہزار روپے اور ایک موبائل فون گن پوائنٹ پر لے گئے‘ شکر کریں بندہ بچ گیا‘جان ہے تو جہان ہے۔لیکن جو لوگ ڈاکٹر انوار احمد کو برسوں سے جانتے ہیں صرف وہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے لیے کتنا بڑا واقعہ ہے اور اس واقعے نے پچھتر سالہ استاد کی روح کو کتنا گہرا زخم اور دکھ پہنچایا ہوگا۔ جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے روزانہ ان کے شاگرد اور خیرخواہ ان کے گھر جارہے ہیں‘ اظہارِ افسوس اور اپنی سپورٹ شو کرنے کے لیے۔
اگرچہ یہ موقع تو نہیں لیکن کیا کروں یہ واقعہ خود ڈاکٹر انوار صاحب نے سنایا تھا کہ ان کے کسی جاننے والے کے گھر پچاس ساٹھ ہزار کا ڈاکا پڑ گیا۔ وہ بھی ان سے اظہارِ ہمدردی کرنے گئے تو وہ دوست بولے: چلیں جو پچاس ساٹھ ہزار ڈاکو لے گئے لیکن جو ڈاکے بعد آنے والے رشتہ داروں اور دوستوں کی مہمان نوازی پر ایک لاکھ خرچ ہوگیا ہے وہ کیسے ریکور ہوگا؟ یہی حالت اب شاید ڈاکٹر صاحب کی ہوگی جن کا گزارہ پنشن پر ہے۔ یقینا اس پنشن سے بھی کچھ حصہ ان کے نئے پرانے شاگردوں یا مستحق طالبعلموں کو جاتا ہوگا کہ ساری عمر وہ یہی کچھ کرتے آئے ہیں۔
زکریا یونیورسٹی ملتان اردو ڈیپارٹمنٹ کے استاد اور چیئر مین کے طور پر وہ اکثر اپنے غریب طالبعلموں کو لاہور میں اپنے دوستوں اصغر ندیم سید‘ عطا الحق قاسمی‘ مسعود اشعر یا منو بھائی کے نام رقعہ دیتے کہ اس نوجوان کو نوکری میں کچھ مدد کر دیں اور ساتھ چپکے سے اس نوجوان کو لاہور تک جانے کیلئے بس کا کرایہ بھی دیتے۔ان کے قلم میں کاٹ تھی‘ جو آج بھی ہے۔ وہ جس انداز میں خط لکھتے لگتا اگلے بندے کو وہ ریکویسٹ نہیں کررہے بلکہ اسے اپنا فرض یاد دلا رہے ہیں۔زندگی میں بہت کم لوگ آپ کو ملتے ہیں جنہیں آپ ایک انسان نہیں بلکہ پورا ادارہ سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا انسان جس نے برسوں تک ساؤتھ اور سینٹر پنجاب سے لے کر ترکی اور جاپان تک کے ہزاروں طالبعلموں کو اردو پڑھائی اور انسانیت سکھائی۔ وہ ایک ایسے ٹیچر رہے جنہوں نے نہ صرف عزت کمائی بلکہ عزت کمانڈ کی۔ میں نے زندگی میں دو لوگ ایسے دیکھے جنہیں اکثر لوگ صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار ملنے کی خواہش رکھتے تھے‘ ایک ڈاکٹر ظفر الطاف اور دوسرے ڈاکٹر انوار احمد۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ ان سے ملیں اور دوبارہ ملنے کی خواہش آپ میں نہ ابھرے۔ اس لسٹ میں آپ ہمارے لیہ کے مرحوم دوست اور میرے آخری گرو رانا اعجاز محمود کو بھی رکھ سکتے ہیں۔ نعیم بھائی کا ذکر کیا تو کہیں گے بھائی کی وجہ سے کہہ رہا ہوں وگرنہ جو لوگ انہیں جانتے تھے وہ بھی اس فہرست میں تھے جن سے ایک دفعہ مل کر آپ کا بار بار ان سے ملنے کو دل کرے۔ ان چاروں میں دو باتیں مشترک تھیں:کتابیں پڑھنے کا جنون اور انسان دوستی۔
انوار احمد صاحب نے جو نام کمایا وہ لیفٹ کی سیاست میں کمایا۔ ہمیشہ سٹیٹس کو کی قوتوں کے خلاف کھڑے ہوئے۔ اپنے علاقے کے طاقتوروں کے خلاف آواز بلند کی۔ جنرل ضیاکے تاریک دور میں اصغر ندیم سید‘ عابد عمیق‘ صلاح الدین حیدراور دیگر کئی ترقی پسندوں ساتھ مل کر جدوجہد کی اور سزائیں بھگتیں۔ لیکن موقع ملا تو اسی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کے سامنے ملتان میں ہونے والے سیمینار میں انہیں کھری کھری سنا دیں۔ ملتان میں دو تین دفعہ پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب صوبہ یا سیاست پر سیمینار رکھا تو انوار احمد اور مشہور صحافی مظہر عارف کو ہی چنا گیا کہ ان دونوں میں جرأت تھی کہ وہ بینظیر بھٹو کے منہ پر ان کی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کرسکتے تھے اور انہوں نے بغیر لگی لپٹی کے ہمیشہ اپنا یہ فرض ادا کیا۔
ڈاکٹر انوار احمد نے یونیورسٹی دور میں بھی اپنا رول ادا کیا۔ لیفٹ کی سیاست کے سرخیل سمجھے جاتے تھے۔ مشکلات دیکھیں لیکن کبھی نہیں لڑکھڑائے۔ ہر شاگرد کا آخری ٹھکانہ ان کا شالیمار کالونی کا یہی گھر ہوتا تھا جہاں دو ڈاکوئوں نے ان سے عمر بھر کی کمائی چھین لی۔ یہ کمائی کیش میں نہیں تھی بلکہ ان کا اعتماد تھا کہ انہوں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا‘ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی‘ اپنے سٹوڈنٹس کا خیال رکھا‘ غریبوں اور مظلوموں کی آواز بنے۔
پھر یہ سب کچھ ان کے ساتھ کیوں؟
میں نے ڈاکٹر صاحب کو واٹس ایپ پر میسج کیا کہ مجھے گہرا احساس ہے کہ آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہوگی۔آپ نے ساری عمر سب کا اچھا سوچا اور اچھا ہی کیا۔ اس وجہ سے آپ کی گھریلو زندگی بھی متاثر ہوئی اور ماحول بھی شاید خراب ہوا لیکن آپ نے چند باتوں پر کمپرومائز نہیں کیا۔شروع میں ڈاکٹر صاحب نے ڈاکوئوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرائی‘ مجھے کہنے لگے: یار ایسے پولیس والے کسی آتے جاتے غریب کو پکڑ لیں گے یا کسی بال بچوں والے گھر کے ملازم یا ملازمہ کی مارپیٹ ہوگی کہ تک بتائو تم نے اس گھر کی مخبری کی ہوگی۔ اب کیا میں ان لوگوں کو تھانے بلائوں؟ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر مجھے عظیم فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو کے ناول ”Les Misérables‘‘ کا ایک کردار یاد آیا۔ ایک چور بھوک کے مارے ایک چرچ سے کچھ چراتا ہے۔ کچھ دیر بعد پولیس اسے پکڑ کر فادر کے پاس لاتی ہے کہ یہ کہتا ہے اس نے یہاں سے چوری کی ہے۔ فادر نے ایک لمحے بھوک سے بے حال اس چور کو دیکھا اور پولیس کو کہا: مائی سن آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔میں نے ہی اسے یہ چیز خود دی تھی۔
جب برسوں پہلے یہ ناول پڑھا تھا تو سوچا تھا کہ ایسا صرف فلموں یا ناولز میں ہوتا ہے لیکن مجھے علم نہ تھا کہ اکیسویں صدی میں اس طرح کا جواب ملتان کے ڈاکٹر انوار احمد سے بھی مل سکتا تھا۔
ڈاکٹر انوار احمد کا گھر ملتان کی شالیمار کالونی میں واقع ہے۔ صبح کی واک کرتے ہیں۔ پھر گھر لوٹتے ہیں۔ اس دن قریبی سٹور تک کوئی چیز لینے گئے۔ واپس لوٹے تو پہلے سے دو نقاب پوش گھر کے اندر پستول تھامے انتظار کررہے تھے۔ گھر کے اندر تو کتابوں اور اپنے گھر سے دور بچوں اور نواسے‘ نواسوں کی یادوں کے علاوہ کچھ نہیں رکھا تھالہٰذا ان ڈاکوئوں نے ان کا بازو مروڑ کر ان کاموبائل اور بٹوہ چھین لیا۔انہوں نے استاد ہونے کے ناتے ان سے ڈائیلاگ کرنے کی کوشش کی کہ شاید ترے دل میں اتر جائے میری بات۔ صرف اتنا کہا: ان کی بڑی بیٹی نے انہیں کینیڈا سے کچھ پیسے بھجوائے ہیں وہ بٹوے سے لے لیں لیکن مہربانی کریں فون ان سے نہ لیں کہ انہوں نے اب اس بڑھاپے میں اپنے بچوں‘ نواسے نواسوں اور ہزاروں شاگردوں سے رابطہ رکھنا ہوتا ہے۔ خیر ان کا وہ اندازِ گفتگو جسے سنتے ہوئے طالبعلم مسحور ہوتے تھے‘ ڈاکوئوں پر اثرانداز نہیں ہوا۔ شاید ڈاکوئوں کے نزدیک وہ جس پیشے سے تعلق رکھتے تھے وہاں جذبات یا رحم دلی جیسی فضولیات کی گنجائش نہیں تھی۔
میں نے ملتان کے سی سی پی او صاحب کو فون کیا۔ ان سے پرانی دعا سلام تھی۔ انہیں بتایا کہ ہمارے استادِ محترم پر کیا قیامت گزر گئی‘ ہوسکتا ہے پولیس یا عام لوگوں کے لیے ایک معمولی بات ہو کہ کون سی قیامت آگئی‘ ایک گھر سے ڈاکو چند ہزار روپے اور ایک موبائل فون گن پوائنٹ پر لے گئے‘ شکر کریں بندہ بچ گیا‘جان ہے تو جہان ہے۔لیکن جو لوگ ڈاکٹر انوار احمد کو برسوں سے جانتے ہیں صرف وہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے لیے کتنا بڑا واقعہ ہے اور اس واقعے نے پچھتر سالہ استاد کی روح کو کتنا گہرا زخم اور دکھ پہنچایا ہوگا۔ جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے روزانہ ان کے شاگرد اور خیرخواہ ان کے گھر جارہے ہیں‘ اظہارِ افسوس اور اپنی سپورٹ شو کرنے کے لیے۔
اگرچہ یہ موقع تو نہیں لیکن کیا کروں یہ واقعہ خود ڈاکٹر انوار صاحب نے سنایا تھا کہ ان کے کسی جاننے والے کے گھر پچاس ساٹھ ہزار کا ڈاکا پڑ گیا۔ وہ بھی ان سے اظہارِ ہمدردی کرنے گئے تو وہ دوست بولے: چلیں جو پچاس ساٹھ ہزار ڈاکو لے گئے لیکن جو ڈاکے بعد آنے والے رشتہ داروں اور دوستوں کی مہمان نوازی پر ایک لاکھ خرچ ہوگیا ہے وہ کیسے ریکور ہوگا؟ یہی حالت اب شاید ڈاکٹر صاحب کی ہوگی جن کا گزارہ پنشن پر ہے۔ یقینا اس پنشن سے بھی کچھ حصہ ان کے نئے پرانے شاگردوں یا مستحق طالبعلموں کو جاتا ہوگا کہ ساری عمر وہ یہی کچھ کرتے آئے ہیں۔
زکریا یونیورسٹی ملتان اردو ڈیپارٹمنٹ کے استاد اور چیئر مین کے طور پر وہ اکثر اپنے غریب طالبعلموں کو لاہور میں اپنے دوستوں اصغر ندیم سید‘ عطا الحق قاسمی‘ مسعود اشعر یا منو بھائی کے نام رقعہ دیتے کہ اس نوجوان کو نوکری میں کچھ مدد کر دیں اور ساتھ چپکے سے اس نوجوان کو لاہور تک جانے کیلئے بس کا کرایہ بھی دیتے۔ان کے قلم میں کاٹ تھی‘ جو آج بھی ہے۔ وہ جس انداز میں خط لکھتے لگتا اگلے بندے کو وہ ریکویسٹ نہیں کررہے بلکہ اسے اپنا فرض یاد دلا رہے ہیں۔زندگی میں بہت کم لوگ آپ کو ملتے ہیں جنہیں آپ ایک انسان نہیں بلکہ پورا ادارہ سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا انسان جس نے برسوں تک ساؤتھ اور سینٹر پنجاب سے لے کر ترکی اور جاپان تک کے ہزاروں طالبعلموں کو اردو پڑھائی اور انسانیت سکھائی۔ وہ ایک ایسے ٹیچر رہے جنہوں نے نہ صرف عزت کمائی بلکہ عزت کمانڈ کی۔ میں نے زندگی میں دو لوگ ایسے دیکھے جنہیں اکثر لوگ صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار ملنے کی خواہش رکھتے تھے‘ ایک ڈاکٹر ظفر الطاف اور دوسرے ڈاکٹر انوار احمد۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ ان سے ملیں اور دوبارہ ملنے کی خواہش آپ میں نہ ابھرے۔ اس لسٹ میں آپ ہمارے لیہ کے مرحوم دوست اور میرے آخری گرو رانا اعجاز محمود کو بھی رکھ سکتے ہیں۔ نعیم بھائی کا ذکر کیا تو کہیں گے بھائی کی وجہ سے کہہ رہا ہوں وگرنہ جو لوگ انہیں جانتے تھے وہ بھی اس فہرست میں تھے جن سے ایک دفعہ مل کر آپ کا بار بار ان سے ملنے کو دل کرے۔ ان چاروں میں دو باتیں مشترک تھیں:کتابیں پڑھنے کا جنون اور انسان دوستی۔
انوار احمد صاحب نے جو نام کمایا وہ لیفٹ کی سیاست میں کمایا۔ ہمیشہ سٹیٹس کو کی قوتوں کے خلاف کھڑے ہوئے۔ اپنے علاقے کے طاقتوروں کے خلاف آواز بلند کی۔ جنرل ضیاکے تاریک دور میں اصغر ندیم سید‘ عابد عمیق‘ صلاح الدین حیدراور دیگر کئی ترقی پسندوں ساتھ مل کر جدوجہد کی اور سزائیں بھگتیں۔ لیکن موقع ملا تو اسی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کے سامنے ملتان میں ہونے والے سیمینار میں انہیں کھری کھری سنا دیں۔ ملتان میں دو تین دفعہ پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب صوبہ یا سیاست پر سیمینار رکھا تو انوار احمد اور مشہور صحافی مظہر عارف کو ہی چنا گیا کہ ان دونوں میں جرأت تھی کہ وہ بینظیر بھٹو کے منہ پر ان کی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کرسکتے تھے اور انہوں نے بغیر لگی لپٹی کے ہمیشہ اپنا یہ فرض ادا کیا۔
ڈاکٹر انوار احمد نے یونیورسٹی دور میں بھی اپنا رول ادا کیا۔ لیفٹ کی سیاست کے سرخیل سمجھے جاتے تھے۔ مشکلات دیکھیں لیکن کبھی نہیں لڑکھڑائے۔ ہر شاگرد کا آخری ٹھکانہ ان کا شالیمار کالونی کا یہی گھر ہوتا تھا جہاں دو ڈاکوئوں نے ان سے عمر بھر کی کمائی چھین لی۔ یہ کمائی کیش میں نہیں تھی بلکہ ان کا اعتماد تھا کہ انہوں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا‘ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی‘ اپنے سٹوڈنٹس کا خیال رکھا‘ غریبوں اور مظلوموں کی آواز بنے۔
پھر یہ سب کچھ ان کے ساتھ کیوں؟
میں نے ڈاکٹر صاحب کو واٹس ایپ پر میسج کیا کہ مجھے گہرا احساس ہے کہ آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہوگی۔آپ نے ساری عمر سب کا اچھا سوچا اور اچھا ہی کیا۔ اس وجہ سے آپ کی گھریلو زندگی بھی متاثر ہوئی اور ماحول بھی شاید خراب ہوا لیکن آپ نے چند باتوں پر کمپرومائز نہیں کیا۔شروع میں ڈاکٹر صاحب نے ڈاکوئوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرائی‘ مجھے کہنے لگے: یار ایسے پولیس والے کسی آتے جاتے غریب کو پکڑ لیں گے یا کسی بال بچوں والے گھر کے ملازم یا ملازمہ کی مارپیٹ ہوگی کہ تک بتائو تم نے اس گھر کی مخبری کی ہوگی۔ اب کیا میں ان لوگوں کو تھانے بلائوں؟ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر مجھے عظیم فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو کے ناول ”Les Misérables‘‘ کا ایک کردار یاد آیا۔ ایک چور بھوک کے مارے ایک چرچ سے کچھ چراتا ہے۔ کچھ دیر بعد پولیس اسے پکڑ کر فادر کے پاس لاتی ہے کہ یہ کہتا ہے اس نے یہاں سے چوری کی ہے۔ فادر نے ایک لمحے بھوک سے بے حال اس چور کو دیکھا اور پولیس کو کہا: مائی سن آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔میں نے ہی اسے یہ چیز خود دی تھی۔
جب برسوں پہلے یہ ناول پڑھا تھا تو سوچا تھا کہ ایسا صرف فلموں یا ناولز میں ہوتا ہے لیکن مجھے علم نہ تھا کہ اکیسویں صدی میں اس طرح کا جواب ملتان کے ڈاکٹر انوار احمد سے بھی مل سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر