وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں وسعت اللہ خان نو مئی کے وحشت ناک واقعات کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ جو جو بھی ملوث ہے اسے بلاامتیازِ طبقہ و جنس عبرت ناک سزا ملنی چاہیے تاکہ کسی کو مستقبل میں ایسے واقعات دہرانے کی جرات نہ ہو۔
حکومتِ وقت اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی بیدار مغز بہادر قیادت اس وقت شرپسند عناصر سے جس جوش و جذبے اور تندہی سے نپٹ رہی ہے میں اسے فرشی سلام پیش کرتا ہوں۔
پنجاب پولیس زندہ باد، پاک رینجرز زندہ باد، آئی ایس آئی ہماری ریڈ لائن، پاک فوج پائندہ باد، پاکستان بھی زندہ باد۔
جب تک سورج چاند رہے گا حافظ تیرا نام رہے گا۔
بلاشبہ نو مئی کی بے نظیر واردات چونکہ 1971 کے افسوس ناک واقعات اور اے پی ایس پشاور کے قتلِ عام کے تقابل میں بھی عظیم ترین قومی سانحہ ہے لہذا بحیثیت ایک سچے محبِ وطن پاکستانی کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس سانحے کا کوئی براہ راست یا بلاواسطہ مجرم ماضی کے برعکس بچ کے جانے نہ پائے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ شرپسندی کی بیخ کنی کے لیے سویلین عدالتی نظام کو عارضی طور پر لپیٹ کر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ اس ملک کے 24 کروڑ عوام پر بھی لاگو کرنا پڑے تو دریغ نہ کیا جاوے۔
میرا اگرچہ تحریکِ انصاف یا عمران خان سے دور دور کا واسطہ نہیں اور نہ ہی کبھی عملی سیاست میں حصہ لیا، اس کے باوجود میں قومی یکجہتی میں اپنا حقیر سا حصہ ڈالتے ہوئے پی ٹی آئی اور اس کی سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ ایسی نفاقیہ و پرتشدد سیاست سے میرا مستقبل میں بھی کوئی لینا دینا نہیں ہو گا۔
اگر کوئی یہ مطالبہ کرے کہ کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ نو مئی کے واقعات کی تہہ تک پہنچنے اور سیاق و سباق کے تعین کے لیے ایک اعلی سطح غیر جانبدار عدالتی کمیشن قائم کیا جائے تاکہ واقعی پتہ چل سکے کہ شرپسند مجمع لاہور کینٹ کو خالہ جی کا باڑہ سمجھ کے اتنی آسانی سے کیسے پیدل پیدل جنرل صاحب کی رہائش گاہ میں بلا مزاحمت داخل ہونے میں کامیاب ہوا؟ تو فی الحال ایسے کسی بھی مطالبے کو اصل کام سے توجہ بٹانے کا ایک اور گھٹیا حربہ سمجھ کے مسترد کر دیا جائے۔
پی ٹی آئی اور اس کی اوپری قیادت براہِ راست ان واقعات میں ملوث نہ ہوتی تو احساسِ جرم کے بوجھ تلے دبے پی ٹی آئی کے اعلی تا ادنی رہنما کاہے کو جوق در جوق پریس کانفرنسیں بلا کے پارٹی سے رضاکارانہ لاتعلقی کا کھل کے اعلان کر رہے ہوتے۔ حالانکہ ان پر نہ تو اوپر سے کوئی دباؤ ہے اور نہ ہی نیچے سے۔
کتنے احسان فراموش نکلے یہ لوگ۔ بھلا بتاؤ: اسی ہاتھ پر دانت گاڑ دیے جس ہاتھ نے ووٹ کا ماس کھلا کھلا کے اور جمہوریت کا دودھ پلا پلا کے پالا پوسا۔ ایسی کم ظرفی کے بعد اب کون سا ادارہ بھلا کسی متبادل سیاسی قوت کو عظیم تر قومی مفاد میں ابھرنے کے لیے بھرپور سازگار فضا فراہم کرنے کی ہمت کرے گا۔
ایک سیاسی جماعت کے بھیس میں چھپی دہشت گردی ؟ توباں توباں۔۔
اس سے تو بہتر تھا پی ٹی آئی، ٹی ٹی پی کی طرح کھلی دہشت گرد تنظیم ہوتی۔ پھر ہمیں کوئی شکوہ نہ ہوتا کہ فلاں تنصیب پر کیوں حملہ کیا، فلاں مقام پر قتلِ عام کیوں کیا؟ فلاں جگہ پر فوجی گاڑیوں پر پتھراؤ کیوں کیا؟ فلاں سکول کو آگ کیوں لگائی؟ فلاں عبادت گاہ کو کیوں بم سے اڑا دیا، فلاں چوکی پر خودکش حملہ کیسے ہو گیا؟
تب ہم پی ٹی آئی سے بھی مختلف طریقے سے نپٹتے۔ ان سے بات چیت کرتے، کسی معتبر شخصیت یا ملک یا حکومت کو سمجھوتے کے لیے بیچ میں ڈالتے۔ ہتھیار ڈالنے کے عوض عام معافی کا اعلان کرتے، انھیں قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کے لیے واپس آبائی علاقوں میں بسانے کی کوشش کرتے، ان کے بچوں کو پڑھانے کی پیشکش کرتے، ان کی قیادت کو راہداری دیتے جیسا کہ کسی بھی گمراہ بھائی کو راہِ راست پر لانے کے لیے بادلِ ناخواستہ کرنا پڑتا ہے۔
مگر پی ٹی آئی تو ٹی ٹی پی کے برعکس آستین کا سانپ نکلی۔ لہذا وہ یا اس سے وابستہ کوئی بھی شہری بلا جنس و طبقہ ہرگز کسی رو رعائیت کا مستحق نہیں۔
مجھے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی اس تجویز سے پورا اتفاق ہے کہ ایسی سیاسی جماعت کی سرگرمیوں پر قانوناً پابندی لگائی جائے تاکہ اس سے وابستہ اگر کچھ جوشیلوں کے دماغ میں مسلح جدوجہد جیسا خناس کلبلانے لگے تو ہر خاص و عام کو لگ پتہ جائے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کھال کے نیچے دراصل اصل ایجنڈہ کیا تھا۔
میں بحیثیت ایک وفادار شہری نا صرف ریاستی سند یافتہ نظریہ پاکستان کی غیر مشروط تائید کرتا ہوں بلکہ موجودہ جہاں دیدہ قابل ترین حکومتِ وقت اور اس کی معاون سکیورٹی ایجنسیوں کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے بروقت آگے بڑھ کے ایک بار پھر ملک بچا لیا۔
ہر اندرونی دشمن کو ایسا ہی منہ توڑ جواب دینا چاہیے کہ ہر بیرونی دشمن کی کانپیں ٹانگ جائیں۔
آئین اور عدلیہ کا احترام ہم سب پر لازم ہے لیکن تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر آئین اور عدلیہ کو ہماری طرف سے احترام درکار ہے تو ان دونوں کو ہماری خواہشات و اقدامات کا بھی احترام کرنا چاہیے۔
غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ایسے میں بنیادی شہری حقوق نہ بھی ملیں تو چلے گا۔ الیکشن تو کبھی بھی ہو سکتے ہیں۔ بھاڑ میں جائیں ایسے الیکشن جن میں کوئی نوسر باز معصوم عوام کے ووٹوں سے جیت کے ملک کو دوبارہ داؤ پر لگا دے۔
اصل اہمیت قومی سالمیت اور اس سالمیت کا تحفظ کرنے والے اداروں کی ہے۔ وہ ہیں تو ہم ہیں۔ ہم نہ بھی ہوں تو وہ ہیں۔
تو خدا کا نور ہے ، عقل ہے شعور ہے
تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے
تو ہے مہرِ صبحِ نو ، تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں، سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں، ان کا گھونٹ دے گلا
(حبیب جالب)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر