وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرہِ ارض پر پائی جانے والی نباتات و حیاتیات و جمادات انسانی وجود سے بہت پہلے سے موجود ہیں اور اگر ساڑھے چار ارب سال پر محیط بقائی کیلنڈر کی جمع تقسیم کی جائے تو اس حساب سے انسان کو یہاں موجودہ شکل میں وجود پذیر اور آباد ہوئے محض چند گھنٹے ہی گذرے ہیں۔
اتنی سی دیر میں ہی اس نے کرہِ ارض کی جمی جمائی زندگی اور ارتقائی زنجیر کا تیا پانچا کر کے رکھ دیا ہے اور اب بھی خجل ہونے کے بجائے یہ سوچ رہا ہے کہ اگلی ایک صدی میں جب یہ سیارہ اس کی حرکتوں کے سبب اتنا گرم ہو جائے گا کہ زیست کرنا دوبھر ہو جائے۔ تب وہ کس سیارے کا رخ کرے گا ؟
چونکہ انسان اس زمین کی تمام مخلوق کے درمیان نووارد ترین ہے۔چنانچہ قاعدے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنا بقائی نظریہ اربوں برس سے جاری حیاتیاتی نظائر کی روشنی میں ترتیب دے کر اردگرد کی وسیع حیاتیاتی برادری کا ماحول دوست کردار بن جاتا ہے۔مگر انسان نے اس کرہ ِ ارض کو رواں رکھنے والے فطری اصولوں کو حقیر سمجھ کے ٹھکراتے ہوئے خود ساختہ اصول دیگر تمام مخلوق پر لاگو کرنے کی غیر فطری کوشش کی۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
تازہ بری خبر یہ ہے کہ انسان عالمی درجہِ حرارت کو دو ہزار تیس تک کم ازکم ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ تک کم کرنے کی جس کوشش کا وعدہ کر بیٹھا ہے۔
اس پر خود انسان نے ہی سب سے کم کان دھرا۔ چنانچہ درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کا اضافہ اندازوں سے بہت جلد یعنی دو ہزار ستائیس تک محسوس ہونے لگے گا۔گویا بقا کی لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی ٹرین میں سوار انسان شاید ہی ہنگامی زنجیر کھینچ پائے۔
درجہ حرارت میں ہماری حرکتوں کے سبب ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ میں اضافے کا مطلب مزید سیلاب ، مزید خشک سالی ، موسموں کا پہلے سے بڑھ کے باؤلا پن اور پورے حیاتیاتی بقائی نظام کی زنجیر کا خطرناک حد سے بھی اوپر تک کمزور ہونا شامل ہے۔اسے کہتے ہیں
ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
ہم میں سے کتنے جانتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کے جس ستون پر انسانی تہذیب کھڑی ہے۔ اب وہ ستون ہی لرز رہا ہے۔ آٹھ میں سے تین ارب انسانوں کی بیس فیصد پروٹین ضروریات محض مچھلی سے پوری ہوتی ہیں۔
اسی فیصد انسانی غذا پودوں سے حاصل ہوتی ہے اور کم وبیش اتنے ہی انسان جڑی بوٹیوں سے تیار ادویات استعمال کرتے ہیں،اگر مچھلی ، پودے اور جڑی بوٹیاں ختم ہو جائیں تو سوچیے کیا ہوگا ؟ اسی لیے کہتے ہیں کہ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ دراصل اس بقائی زنجیر کا تحفظ ہے جس سے خود ہماری زندگی بندھی ہوئی ہے، مگر ہم اتنے ڈھیٹ ہیں کہ احساس تک نہیں کہ کم از کم پچھلے دو سو برس میں ہماری لالچ اور مستقبل کو جان بوجھ کے نظرانذاز کرنے کی عادت نے اس کرہِ ارض کے پچھتر فیصد رقبے اور چھیاسٹھ فیصد سمندری حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ زمین پر کم ازکم آٹھ کروڑ اقسام کے پودے اور جانور موجود ہیں،مگر ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اور کتنی حیات ہے جو اب تک دریافت ہونے کی منتظر ہے۔
اور کون کون سے ان گنت پودے ، چرند ، پرند اور سمندری مخلوق ہے جس کے وجود سے اب تک ہم واقف ہی نہیں ہو پائے،اور جتنی مخلوق دریافت ہو چکی ہے اس سے دوستی کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کے بجائے ہم باہوش و حواس اسے بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
اس کی تشریح یوں ہے کہ بقائی زنجیر سے صحرا اور سمندر اور پہاڑ اور جنگل اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک کو چھیڑنے کا مطلب زندگی کی پوری عمارت کو ہلانا ہے۔مثلاً افریقہ کے صحراِ اعظم سے جو ریت اڑ کے فضا میں شامل ہوتی ہے۔
ہر سال ہوائیں اس میں سے بائیس ہزار ٹن ریت کے ذرات تین ہزار میل پرے واقع ایمیزون کے جنگلات پر برساتی ہیں اور پھر یہ ریتیلی برسات ایمزون کو تازہ حیاتیاتی جلا بخشتی ہے۔
اس وقت معلوم نباتات میں سے ایک ملین پودے ، پھول اور حیاتیاتی اقسام بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں،اور ہم کہ جو حیاتیاتی تنوع کے تنے پر بیٹھے ہیں،اس تنے کو ہی تیزی سے کاٹ رہے ہیں۔
یہ جانے بغیر کہ عالمی معیشت کا آدھا دار و مدار قدرتی وسائل پر ہے۔ایک ارب سے زائد انسانوں کی روزی روٹی جنگلات سے وابستہ ہے۔ہم اور ہماری ’’ نام نہاد ترقی ’’ جتنی بھی کاربن خارج کرتی ہے۔ اس کا آدھا یہی جنگلات اور سمندر جذب کر کے ہمیں ہم سے محفوظ بنانے کا اضافی کارِ مسلسل کر رہے ہیں۔مگر ہماری حرکتوں کے سبب یہ کاربن جذب کرنے والی پچاسی فیصد دلدلیں اور مینگرووز (تمر ) کے جنگلات غائب ہو چکے ہیں۔
زیادہ سے زیادہ زرعی زمین اور لکڑی حاصل کرنے کے جنون میں کاربن جذب کرنے والے جنگلات تیزی سے کٹ رہے ہیں۔نایاب پودے اور ان پر بھروسہ کرنے والے حشرات و پرند زرعی زمینوں میں مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے اندھا دھند استعمال کا نشانہ ہیں۔ان حرکتوں کے سبب درجہِ حرارت میں جو اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے ہاتھوں مجبور ہو کے سخت جان پودے اور جنگلی حیات ٹھنڈے علاقوں کی جانب مراجعت کر رہے ہیں،مگر وہاں بھی موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں برف تیزی سے پگھلنے کے سبب سرد علاقوں میں رہنے والی مخلوق کو اپنی زندگی کے لالے پڑ ے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دو سو برس کی انسانی سرگرمیوں کے سبب بڑھتے سمندری درجہِ حرارت نے نصف کورل ریفز کو نگل لیا ہے اور بقیہ اگلے پچاس برس میں غائب ہو جائیں گی۔اور ان کے ساتھ ہی بحری مخلوق کی بے شمار نسلیں کہ جن کی نسلی و غذائی بقا کا دار و مدار ہی کروڑوں برس سے ان ریفز پر ہے وہ بھی جہان سے رخصت ہو جائیں گی۔
اب بھی وقت ہے کہ جو تیس فیصد جنگل بچ گئے ہیں انھیں بچا لیا جائے اور جو تین فیصد دلدلی علاقے اور جھیلیں اپنے حجم سے دوگنی کاربن ہضم کر رہی ہیں انھیں پھر سے پاؤں پر کھڑا کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جائے۔یہ عناصر گئے تو ہم بھی تھوڑی بہت صاف ہوا ، غذا اور دوا سے گئے۔
یہ آخری فصیل منہدم ہو گئی تو زہریلی وباؤں کا جو لشکر ان عناصر نے روک رکھا ہے وہ اتنے انسان کھا جائے گا کہ ہلاکو اور ہٹلر معصوم نظر آئیں گے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر