رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ انسانی تاریخ پڑھنے اور اس عمر تک پہنچتے پہنچتے چند خوفناک نشوں کا اندازہ ہوچکا ہے جو آپ کو جیل سے پھانسی گھاٹ یا قبر تک لے جائیں گے لیکن آپ انہیں چھوڑ نہیں پائیں گے۔
سب سے بڑا نشہ تو حکمرانی کا ہے جس کے لیے انسان جانیں دیتے بھی آئے ہیں اور دوسروں کی جانیں لیتے بھی آئے ہیں۔ اپنے جیسے انسانوں کو اپنے دربار میں سر جھکائے دن رات خوشامدیں کرتے دیکھنا اور کسی کو عہدے یا فیور کے لیے آپ کے چرنوں میں بیٹھے دیکھ کر جو سکون آپ کو ملتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ دوسرا بڑا نشہ شہرت کا ہے کہ آپ مشہور ہو جائیں‘ لوگ آپ کو جانتے ہوں‘ آپ جہاں سے گزریں لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں‘آپ کو دیکھ کر اشارے اور سرگوشیاں کریں اور آپ بے نیازی سے گزر جائیں۔ اس سے بڑا نشہ ایک اور بھی ہے اور وہ ہے واہ واہ کرانے کا۔ خود کو بہادر اور بے خوف ظاہر کرنے کا نشہ۔ آپ پر جب یہ نشہ طاری ہوتا ہے کہ ہر کوئی آپ کی تعریف کررہا ہے‘ آپ کو کندھوں پر بٹھا رہا ہے‘ آپ کو بانس پر چڑھا رہا ہے۔ واہ واہ اور بلے بلے ایسا بانس ہے جس پر جو ایک دفعہ چڑھ گیا وہ سیدھا اوپر گیا ‘ نیچے نہیں آیا۔لیکن ان سب سے بڑا نشہ انقلاب کا رومانس ہے۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ صدیوں سے لڑتا آیا ہے۔ اپنے سے طاقتوروں کے خلاف بغاوت کرتا آیا ہے۔ وہ اپنے جیسے انسانوں کے سامنے جھکنے سے انکاری رہا ہے۔ وہ ان چند طاقتور لوگوں کے بنائے ہوئے سماج اور ان کے اصولوں کا باغی رہا ہے۔ انقلاب صرف سماجی یا معاشی ہی نہیں آئے ‘ کئی مذہب بھی انقلاب بن کر ابھرے اور معاشروں میں جمود کو توڑا۔
تاریخ کے چند بڑے انقلابات کے بارے میں پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان سب کے پیچھے معاشی وجوہات تھیں۔ غربت تھی‘ بپھرے نوجوان تھے‘ حکمرانوں کی بے حسی اور بڑے پیمانے پر ان کی عیاشیاں اور لوگوں سے ٹیکس لے کر خود پر خرچ کرنا اور اس بات سے بے پروا کہ عوام‘ جن سے وہ ٹیکس لے رہے ہیں ‘ کس حال میں ہیں۔ آپ اگر صرف دو بڑے انقلاب دیکھ لیں تو یہی دو عناصر آپ کو ملیں گے۔ امیر اور غریب کا بڑھتا ہوا فرق اور حکمران طبقے کی عیاشیاں۔
نوجوان خون ہمیشہ انقلاب یا تبدیلی کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔ ان کے خوابوں کو بیچنا آسان کام رہا ہے۔مجھے خود لفظ انقلاب سے پہلا تعارف اُس وقت ہوا تھا جب نعیم بھائی‘ جو کبھی میڈیکل کالج بہاولپور میں ایگلز کے چیف رہے تھے‘ نے پڑھنے کے لیے روسی ادیب میکسم گورکی کا ناول ”ماں‘‘ مجھے دیا۔ اس ناول نے بھی میری سوچ بدل دی اور میرے اندر ایک رومانس بھر دیا۔ جب ناول کے کردار خوبصورت لڑکی نتاشا کو پڑھتے ہیں کہ کیسے وہ روسی انقلاب سے پہلے کے ماحول سے متاثر ہو کرایک انقلابی نوجوان کو جائن کر لیتی ہے۔ نتاشا ایک امیر گھر انے کی لڑکی‘ سب عیاشی چھوڑ کر انقلاب کے راستے پر چل نکلتی ہے۔ یا اس ناول کے مرکزی کردار پاویل کی ماں کا کردار آپ کو کتنے عرصے تک اپنے حصار میں لیے رکھتا ہے۔ کسی دور میں یہ ناول ہر انقلابی یا لیفٹسٹ کے لیے ایک بائبل کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہر نوجوان کو پہلے یہی پڑھنے کے لیے دیا جاتا تھا۔ ہر نوجوان خود کو اس ناول کا ہیرو پاویل سمجھتا اور ہر لڑکی خود کو نتاشا ۔ رومانس میں ڈوبے نوجوان انقلاب لانے کے لیے خون کی ہر وادی عبور کرنے کے لیے تیار رہتے۔اس طرح ناول میں ماں ‘ جو بیٹے کی ان انقلابی سرگرمیوں سے خفا تھی ‘ دھیرے دھیرے قائل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جب بیٹا گرفتار ہوتا ہے تو ایک دن وہ خود پمفلٹ بانٹنا شروع کر دیتی ہے۔
ایسی تحریروں سے بالشویک انقلاب نے جنم لیا۔ نوجوان متاثر ہوئے۔ لینن‘ ٹراٹسکی اور سٹالن اور دیگر نے جنم لیا۔ روسی زار کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ آخر انقلاب آیا۔ شاہی بچوں سمیت زار کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ وہی ٹراٹسکی جو انقلاب کے بانیوں میں سے تھا ‘ لینن کی موت کے بعد ٹراٹسکی سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ ٹراٹسکی جلاوطنی میں چلا گیا اور اپنے کامریڈ سٹالن کے خلاف لکھناشروع کیا اور کہا جاتا ہے کہ ایک دن سٹالن کے ایجنٹس نے ہی اسے ڈھونڈ کر قتل کر دیا۔ اسی سٹالن نے پھر اپنے دور میں لاکھوں لوگ روسی ریاستوں میں مارے۔
انقلابِ فرانس میں بھی یہی کچھ ہوا جب وہاں بادشاہ سلامت اپنی عیاشیوں میں مصروف ہوئے اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا۔ فرانس کی آبادی بڑھنے لگی اور اس کے مقابلے میں غربت بڑھی۔ موسموں نے تباہی مچائی جس سے فصلیں بھی کم ہوئیں۔ اناج مہنگا ہوا اور مہنگائی اتنی بڑھ گئی کہ لوگوں کے پاس خریدنے کے لیے پیسے نہ تھے جبکہ بادشاہ سلامت اور حکمران طبقہ ان باتوں سے بے پروا اپنی عیاشیوں میں لگا ہوا تھا۔ آبادی کے بم کا سائز بڑھتا گیا۔بیروزگاری بھی بڑھتی گئی اور یوں چنگاریاں سلگنا شروع ہوئیں جنہوں نے پورے فرانس کو جلا کر رکھ دیا۔ لوگوں کو آزادی کے خواب دکھائے گئے کہ وہ اب اپنی مرضی کی زندگی جئیں گے۔ نوجوانوں نے یہ نعرہ پسند کیا کیونکہ آزادی وہ نعرہ ہے جس کے لیے لوگ جانیں قربان کرتے آئے ہیں۔ ہزاروں لوگ فرانس کے انقلاب میں مارے گئے۔ ہر جگہ پھانسی گھاٹ کھل گئے۔ اس انقلاب سے فرانسیوں کا خیال تھا کہ ان کی زندگیاں اب آسان ہوں گی۔ بادشاہ اور عیاش حکمران طبقے سے نجات ملے گی۔ابھی فرانس کے انقلاب کے اثرات چل ہی رہے تھے کہ اس انقلاب کی کوکھ سے نپولین نے جنم لیا جس نے فرانسیسیوں کو عظیم بنانے کا نعرہ دیا۔ وہ فرانسیسی نوجوان اور شہری جنہیں روٹی تک نہیں مل رہی تھی‘ وہ پہلے ہی انقلاب کے نعرے کے رومانس میں جوان ہورہے تھے کہ اب ان کے ذہنوں میں فرانس کی عظمت بٹھا دی گئی۔ یوں فرنچ‘ جو بھوک‘ غربت اور بادشاہوں کے اللے تللوں سے تنگ آئے ہوئے تھے‘ جس پر وہ انقلاب لائے تھے تو اب نپولین انہیں ساتھ لے کر پورے یورپ کو آگ لگانے نکل پڑا۔ اس نے یورپ اور روس میں جنگوں کا نیا آغاز کیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق نپولین کی ان جنگوں میں تیس سے چالیس لاکھ لوگ مارے گئے۔نپولین کو عظیم جنرل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے عظیم بننے کے جنون یا خواب کی قیمت ان تیس چالیس لاکھ انسانوں نے اپنی جان دے کر ادا کی جن میں سے کسی ایک کا نام بھی آپ کو معلوم نہیں۔
لینن‘ سٹالن‘ ٹراٹسکی‘ یا نپولین کو سب جانتے ہیں لیکن جن لوگوں کی لاشوں پر وہ انقلاب لائے اور اپنے جیسے انسانوں کا قتلِ عام کیا یا جو ان کی عظمت کے نام پر مارے گئے وہ گمنام کہیں گمنام قبروں میں پڑے ہوں گے۔
یہ طے ہے کہ خبطِ عظمت کے شکار لوگوں کے لیے انقلاب لانا اس وقت آسان ہوجاتا ہے جب معاشرے کے لوگ خصوصاً نوجوان بڑی تعداد میں مایوس ہو جاتے ہیں۔ جب حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں سے اس طرح دستبردار نہیں ہونا چاہتا جیسے فرانسیسی اشرافیہ کا نمائندہ بادشاہ لوئی اور روسی زار آخری دنوں تک نہ سمجھ سکے کہ انقلاب ان کے مخالفین نہیں لا رہے تھے بلکہ ان کی اپنی نالائقیاں اور عیاشیاں ان کا کام آسان کررہی تھیں۔جب تک حکمران طبقہ خود کو نہیں بدلے گا‘ اپنی عیاشیاں ختم نہیں کرے گا‘ نوجوانوں کو ورغلانا بہت آسان رہے گا۔ میکسم گورکی کے ناول” ماں‘‘ کے پاویل اور نتاشا جیسے کردار ہر دور میں انقلاب کے رومانس میں جانیں دیتے رہیں گے۔ چند موقع پرست لیڈر ان کی لاشوں پر اپنا قد اونچا کرکے تاریخ میں اپنا نام لکھواتے رہیں گے ‘جیسے نپولین‘ لینن یا ٹراٹسکی یا سٹالن نے لکھوایا۔
جب تک دنیا کے کسی بھی معاشرے میں غربت‘ مہنگائی‘ ناانصافی‘ بیروزگاری‘ امیر غریب کا بڑھتا فرق‘ حکمران طبقے کی عیاشیاں‘ ان نوجوانوں کو نظر آتی رہیں گی‘ پاویل اور نتاشا جیسے کردار پیدا ہوتے رہیں گے۔
سب سے بڑا نشہ تو حکمرانی کا ہے جس کے لیے انسان جانیں دیتے بھی آئے ہیں اور دوسروں کی جانیں لیتے بھی آئے ہیں۔ اپنے جیسے انسانوں کو اپنے دربار میں سر جھکائے دن رات خوشامدیں کرتے دیکھنا اور کسی کو عہدے یا فیور کے لیے آپ کے چرنوں میں بیٹھے دیکھ کر جو سکون آپ کو ملتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ دوسرا بڑا نشہ شہرت کا ہے کہ آپ مشہور ہو جائیں‘ لوگ آپ کو جانتے ہوں‘ آپ جہاں سے گزریں لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں‘آپ کو دیکھ کر اشارے اور سرگوشیاں کریں اور آپ بے نیازی سے گزر جائیں۔ اس سے بڑا نشہ ایک اور بھی ہے اور وہ ہے واہ واہ کرانے کا۔ خود کو بہادر اور بے خوف ظاہر کرنے کا نشہ۔ آپ پر جب یہ نشہ طاری ہوتا ہے کہ ہر کوئی آپ کی تعریف کررہا ہے‘ آپ کو کندھوں پر بٹھا رہا ہے‘ آپ کو بانس پر چڑھا رہا ہے۔ واہ واہ اور بلے بلے ایسا بانس ہے جس پر جو ایک دفعہ چڑھ گیا وہ سیدھا اوپر گیا ‘ نیچے نہیں آیا۔لیکن ان سب سے بڑا نشہ انقلاب کا رومانس ہے۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ صدیوں سے لڑتا آیا ہے۔ اپنے سے طاقتوروں کے خلاف بغاوت کرتا آیا ہے۔ وہ اپنے جیسے انسانوں کے سامنے جھکنے سے انکاری رہا ہے۔ وہ ان چند طاقتور لوگوں کے بنائے ہوئے سماج اور ان کے اصولوں کا باغی رہا ہے۔ انقلاب صرف سماجی یا معاشی ہی نہیں آئے ‘ کئی مذہب بھی انقلاب بن کر ابھرے اور معاشروں میں جمود کو توڑا۔
تاریخ کے چند بڑے انقلابات کے بارے میں پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان سب کے پیچھے معاشی وجوہات تھیں۔ غربت تھی‘ بپھرے نوجوان تھے‘ حکمرانوں کی بے حسی اور بڑے پیمانے پر ان کی عیاشیاں اور لوگوں سے ٹیکس لے کر خود پر خرچ کرنا اور اس بات سے بے پروا کہ عوام‘ جن سے وہ ٹیکس لے رہے ہیں ‘ کس حال میں ہیں۔ آپ اگر صرف دو بڑے انقلاب دیکھ لیں تو یہی دو عناصر آپ کو ملیں گے۔ امیر اور غریب کا بڑھتا ہوا فرق اور حکمران طبقے کی عیاشیاں۔
نوجوان خون ہمیشہ انقلاب یا تبدیلی کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔ ان کے خوابوں کو بیچنا آسان کام رہا ہے۔مجھے خود لفظ انقلاب سے پہلا تعارف اُس وقت ہوا تھا جب نعیم بھائی‘ جو کبھی میڈیکل کالج بہاولپور میں ایگلز کے چیف رہے تھے‘ نے پڑھنے کے لیے روسی ادیب میکسم گورکی کا ناول ”ماں‘‘ مجھے دیا۔ اس ناول نے بھی میری سوچ بدل دی اور میرے اندر ایک رومانس بھر دیا۔ جب ناول کے کردار خوبصورت لڑکی نتاشا کو پڑھتے ہیں کہ کیسے وہ روسی انقلاب سے پہلے کے ماحول سے متاثر ہو کرایک انقلابی نوجوان کو جائن کر لیتی ہے۔ نتاشا ایک امیر گھر انے کی لڑکی‘ سب عیاشی چھوڑ کر انقلاب کے راستے پر چل نکلتی ہے۔ یا اس ناول کے مرکزی کردار پاویل کی ماں کا کردار آپ کو کتنے عرصے تک اپنے حصار میں لیے رکھتا ہے۔ کسی دور میں یہ ناول ہر انقلابی یا لیفٹسٹ کے لیے ایک بائبل کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہر نوجوان کو پہلے یہی پڑھنے کے لیے دیا جاتا تھا۔ ہر نوجوان خود کو اس ناول کا ہیرو پاویل سمجھتا اور ہر لڑکی خود کو نتاشا ۔ رومانس میں ڈوبے نوجوان انقلاب لانے کے لیے خون کی ہر وادی عبور کرنے کے لیے تیار رہتے۔اس طرح ناول میں ماں ‘ جو بیٹے کی ان انقلابی سرگرمیوں سے خفا تھی ‘ دھیرے دھیرے قائل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جب بیٹا گرفتار ہوتا ہے تو ایک دن وہ خود پمفلٹ بانٹنا شروع کر دیتی ہے۔
ایسی تحریروں سے بالشویک انقلاب نے جنم لیا۔ نوجوان متاثر ہوئے۔ لینن‘ ٹراٹسکی اور سٹالن اور دیگر نے جنم لیا۔ روسی زار کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ آخر انقلاب آیا۔ شاہی بچوں سمیت زار کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ وہی ٹراٹسکی جو انقلاب کے بانیوں میں سے تھا ‘ لینن کی موت کے بعد ٹراٹسکی سے اختلافات پیدا ہوگئے۔ ٹراٹسکی جلاوطنی میں چلا گیا اور اپنے کامریڈ سٹالن کے خلاف لکھناشروع کیا اور کہا جاتا ہے کہ ایک دن سٹالن کے ایجنٹس نے ہی اسے ڈھونڈ کر قتل کر دیا۔ اسی سٹالن نے پھر اپنے دور میں لاکھوں لوگ روسی ریاستوں میں مارے۔
انقلابِ فرانس میں بھی یہی کچھ ہوا جب وہاں بادشاہ سلامت اپنی عیاشیوں میں مصروف ہوئے اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا۔ فرانس کی آبادی بڑھنے لگی اور اس کے مقابلے میں غربت بڑھی۔ موسموں نے تباہی مچائی جس سے فصلیں بھی کم ہوئیں۔ اناج مہنگا ہوا اور مہنگائی اتنی بڑھ گئی کہ لوگوں کے پاس خریدنے کے لیے پیسے نہ تھے جبکہ بادشاہ سلامت اور حکمران طبقہ ان باتوں سے بے پروا اپنی عیاشیوں میں لگا ہوا تھا۔ آبادی کے بم کا سائز بڑھتا گیا۔بیروزگاری بھی بڑھتی گئی اور یوں چنگاریاں سلگنا شروع ہوئیں جنہوں نے پورے فرانس کو جلا کر رکھ دیا۔ لوگوں کو آزادی کے خواب دکھائے گئے کہ وہ اب اپنی مرضی کی زندگی جئیں گے۔ نوجوانوں نے یہ نعرہ پسند کیا کیونکہ آزادی وہ نعرہ ہے جس کے لیے لوگ جانیں قربان کرتے آئے ہیں۔ ہزاروں لوگ فرانس کے انقلاب میں مارے گئے۔ ہر جگہ پھانسی گھاٹ کھل گئے۔ اس انقلاب سے فرانسیوں کا خیال تھا کہ ان کی زندگیاں اب آسان ہوں گی۔ بادشاہ اور عیاش حکمران طبقے سے نجات ملے گی۔ابھی فرانس کے انقلاب کے اثرات چل ہی رہے تھے کہ اس انقلاب کی کوکھ سے نپولین نے جنم لیا جس نے فرانسیسیوں کو عظیم بنانے کا نعرہ دیا۔ وہ فرانسیسی نوجوان اور شہری جنہیں روٹی تک نہیں مل رہی تھی‘ وہ پہلے ہی انقلاب کے نعرے کے رومانس میں جوان ہورہے تھے کہ اب ان کے ذہنوں میں فرانس کی عظمت بٹھا دی گئی۔ یوں فرنچ‘ جو بھوک‘ غربت اور بادشاہوں کے اللے تللوں سے تنگ آئے ہوئے تھے‘ جس پر وہ انقلاب لائے تھے تو اب نپولین انہیں ساتھ لے کر پورے یورپ کو آگ لگانے نکل پڑا۔ اس نے یورپ اور روس میں جنگوں کا نیا آغاز کیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق نپولین کی ان جنگوں میں تیس سے چالیس لاکھ لوگ مارے گئے۔نپولین کو عظیم جنرل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے عظیم بننے کے جنون یا خواب کی قیمت ان تیس چالیس لاکھ انسانوں نے اپنی جان دے کر ادا کی جن میں سے کسی ایک کا نام بھی آپ کو معلوم نہیں۔
لینن‘ سٹالن‘ ٹراٹسکی‘ یا نپولین کو سب جانتے ہیں لیکن جن لوگوں کی لاشوں پر وہ انقلاب لائے اور اپنے جیسے انسانوں کا قتلِ عام کیا یا جو ان کی عظمت کے نام پر مارے گئے وہ گمنام کہیں گمنام قبروں میں پڑے ہوں گے۔
یہ طے ہے کہ خبطِ عظمت کے شکار لوگوں کے لیے انقلاب لانا اس وقت آسان ہوجاتا ہے جب معاشرے کے لوگ خصوصاً نوجوان بڑی تعداد میں مایوس ہو جاتے ہیں۔ جب حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں سے اس طرح دستبردار نہیں ہونا چاہتا جیسے فرانسیسی اشرافیہ کا نمائندہ بادشاہ لوئی اور روسی زار آخری دنوں تک نہ سمجھ سکے کہ انقلاب ان کے مخالفین نہیں لا رہے تھے بلکہ ان کی اپنی نالائقیاں اور عیاشیاں ان کا کام آسان کررہی تھیں۔جب تک حکمران طبقہ خود کو نہیں بدلے گا‘ اپنی عیاشیاں ختم نہیں کرے گا‘ نوجوانوں کو ورغلانا بہت آسان رہے گا۔ میکسم گورکی کے ناول” ماں‘‘ کے پاویل اور نتاشا جیسے کردار ہر دور میں انقلاب کے رومانس میں جانیں دیتے رہیں گے۔ چند موقع پرست لیڈر ان کی لاشوں پر اپنا قد اونچا کرکے تاریخ میں اپنا نام لکھواتے رہیں گے ‘جیسے نپولین‘ لینن یا ٹراٹسکی یا سٹالن نے لکھوایا۔
جب تک دنیا کے کسی بھی معاشرے میں غربت‘ مہنگائی‘ ناانصافی‘ بیروزگاری‘ امیر غریب کا بڑھتا فرق‘ حکمران طبقے کی عیاشیاں‘ ان نوجوانوں کو نظر آتی رہیں گی‘ پاویل اور نتاشا جیسے کردار پیدا ہوتے رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر