نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2009 سے آج تک ہماری جمہوریت عدلیہ کے ہاتھوں تختہ مشق بنی ہوئی ہے اور حقیقت بھی عیاں ہو چکی ہے کہ ججز کی بحالی کی تحریک بھی قوم سے دھوکا تھا ، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو سیاسی ججز کی بحالی کے حوالے سے سخت تحفظات تھے، وقت نے ثابت کردیا کہ صدر آصف علی زرداری کے سیاسی ججز کی بحالی کے حوالے سے تحفظات بالکل درست تھے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وکلاء تحریک کے پیچھے بھی خفیہ ہاتھ کار فرما تھا جس کا ایجنڈا بنگلا دیش ماڈل تھا ۔ در اصل غیر جمہوری قوتوں کو معلوم تھا کہ 2007 کے انتخابات سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی وطن واپسی یقینی ہے اس لیئے ججز کو غیر فعال کرکے انہیں نظر بند کرنے کی چال چلی گئی۔ 2007 کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جیت یقینی تھی ، 18 اکتوبر کو کراچی میں 30 لاکھ عوام نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا بےمثال استقبال کیا جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو سیاست سے بیدخل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ تھا۔
اصولی طور تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ججز بحالی کیلئے وکلاء تحریک محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا ساتھ دیتی مگر وکلاء تحریک نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نظر بند کیئے ہوئے ججز کو رہا کیا اس کے بعد انہیں عہدوں پر بحال بھی کیا پھر قوم نے دیکھا کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی انہی چیف جسٹس افتخار چوہدری کا نشانہ بنے جس کو انہوں نے نہ صرف آزاد بلکہ دوبارہ عہدے پر بحال کیا۔ سیاسی چیف جسٹس افتخار چوہدری نے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو آئین سے انحراف نہ کرنے کے جرم میں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا اس طرح مولا علی مشکل کا یہ قول سچا ثابت ہوا کہ جس پر احسان کرو ان کے شر سے بچو۔ حقیقت یہ ہے کہ 2009 سے لیکر آج تک جمہوریت سیاسی ججز کے شر کے نشانہ پر ہے، وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور وزیر اعظم میان نواز شریف عدالتی نا انصافی کے شکار ہوئے اور.سیاسی عدلیہ کا نشانہ پارلیمنٹ ہے ۔ کون کیسے بھول سکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہی ایک فوجی آمر کو تین سال تک حکمرانی اور آئین میں ترامیم کا اختیار دیا اب وہ ہی عدالت ایک صوبہ پنجاب میں انتخابات کیلئے بےقرار نظر آتی ہے ۔
حالانکہ ملک کے ایک بڑے صوبے میں قومی اسمبلی کے انتخابات سے چند ماہ قبل انتخابات کے مضمرات کا ہو سکتے ہیں چیف جسٹس بندیال اس کو نظر انداز کر رہے ہیں۔جس شخص عمران نیازی کا ضد قومی اسمبلی کے انتخابات سے قبل پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو چیف جسٹس بندیال اپنی انا کا معاملہ بنا رہے ہیں اس سوال کا جواب نیب کی تحویل میں کرپشن میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے عمران نیازی کی رہائی کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔
عدالتی جبر کی انتہا یہ ہے 60 ارب روپے ہتھیا لیئے والے کو جسٹس بندیال نے خوش آمدید کہا اس سارے منظر پر وہاں موجود صحافی بھی حیران تھے ، بات صرف یہ نہیں کہ جسٹس بندیال کی تین رکنی بنچ نے کسی ملزم کو رہا کیا مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ رخصت کرنے میں بھی چیف جسٹس نے عار محسوس نہیں کیا۔ کوئی مانے یا نہ مانیں مگر حقیقت یہ ہے کہ افتخار چوہدری سے لیکر جسٹس بندیال تک چاہے جسٹس کھوسہ ہوں، جسٹس ثاقب ہوں، جسٹس گلزار ہوں تمام سیاسی ایجنڈے کے ساتھ چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے ہیں، مجھے تو کوئی خوشفہمی نہیں ہے ججوں کے اس لاٹ میں جن کی بطور جج تعیناتی غیر سیاسی ہو ، کیونکہ موجودہ ججز کی تقرری میرٹ پر نہیں پسند کی بنیاد پر ہوئی ہے ۔
میں کیسے اس حقیقت کو ایک لمحے کے لیے فراموش کر سکتا ہوں کہ ہماری عدلیہ ایک محصوم اور قوم کے عظیم راہنما قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے قتل کے تاریخ کے کٹہرے میں مجرم بن کر کھڑی ہے ایک پاکستانی شہری کے ناطے سوال یہ ہے کہ ہماری عدلیہ نے ہر آئین شکن کی تعبیداری کی مگر عوام کے منتخب وزیراعظم کو برطرف کرکے اپنی دہشت برقرار رکھی ۔ میں منتظر اس دن کی ہوں جب میری عدالت پارلیمنٹ میں 2009 سے آج تک جج کی نوکری کرنے والے جو میرے دیئے ہوئے ٹیکس پر پل رہے ہیں پیش ہونگے۔ جہاں عوام کے منتخب جج پارلیمنٹ ان کے اعمال کا احتساب کریگی ۔
یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ