نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان کا پاپولزم اور ریڈ لائنز کا تصادم۔۔۔||امتیاز عالم

عمران خان نے اپنی رہائی کے بعد متشدد مظاہرین کی مذمت کی بجائے یہ کہا کہ انہوں نے اس بابت پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا اور اگر انہیں پھر گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو عوامی ردعمل پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔ جب جس کی پتلون بانس پہ لٹکادی گئی تھی،

امتیاز عالم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 9مئی کوجو حشر بپا ہوا، وہ پنجاب کی تاریخ کا ایک بڑا ہی غضبناک اور منفرد واقعہ ہے۔ پنجابی طالبان تو فوجی تنصیبات پہ حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ پنجابی نوجوانوں کا غضبناک ہجوم اپنے ہی پاور سٹرکچر پر حملہ آور ہوگیا اور جو بھی فوجی تنصیبات اور یادگاریں راستے میں آئیں، تہس نہس کردی گیں۔ حیرت اس پر ہوئی کہ جب جذبات سے مغلوب چھوٹا سا ہجوم کور کمانڈر لاہور کی انتہائی سکیورٹی میں محفوظ رہائش گاہ کے آہنی گیٹ پر پہنچا تو وہاں پر ایک چوکیدار بھی موجود نہ تھا اور ہجوم سابقہ جناح ہاﺅس میں ایسے داخل ہوا جیسے لارنس گارڈن میں چہل قدمی کیلئے نکلا ہو اور پھر ناراض نوجوانوں کے غصے کے ہاتھوں سب کچھ پامال ہوگیا ، ریاست کی ہیبت ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ رات کو جوہرٹاﺅن کے اوورہیڈ پل کے نیچے بیٹھا میں ان نوجوانوں کی تباہ کن جنگجوئیت کا مظاہرہ دیکھنے پہ مجبور ہوا کہ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے سامنے پل پر ٹریفک بلاک کردی تھی۔ وہاں میرا سامنا نوجوانوں کے ایک پرجوش گروہ سے ہوا، ان میں سے ایک شاہین اقبال نامی نوجوان جس کی عمر بمشکل 16 برس ہو گی۔ اس سے میں نے پوچھا کہ تم یہ سب کیوں کر رہے ہو، اسکا سیدھا اور سپاٹ جواب تھا کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہوں نے (مطلب فوج نے) ہماری ریڈ لائن کراس کر لی ہے اور اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو ہم ہر چیز جلا ڈالیں گے۔ کچھ اسی قسم کے جذبات و خیالات دوسرے نوجوانوں کے تھے۔ ان کے لیے عمران خان کسی مسیحا سے کم نہیں تھا جس کے لیے وہ مرنے مارنے پہ آمادہ تھے۔ رات گئے گھر پہنچ کر میں سوچتا رہا کہ یہ نئی نسل کیا چاہتی ہے اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ انقلاب فرانس کے مجاہدین کی طرح یہاں کے قلعے ڈھانے چلے ہیں، محض بلوائی ہیں یا کسی کلٹ کے پجاری؟

گزشتہ تین چار روز میں کئی ریڈلائنز کراس ہوچکی ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کی ریڈلائن کراس ہوئی تو ہم نے وہ نظارہ دیکھا جو کسی لیڈر کی گرفتاری پہ نہ دیکھا تھا۔ ریاست کی دھاگ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ اور جو ریڈلائن فوج کی طرف سے کھینچی گئی تھی، اس کے دفاع میں کھڑا ہونے والا کہیں نظر نہیں آیا۔ بتایا گیا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”اپنے لوگوں“ کے خون خرابے کی سازش کو ناکام بنادیا گیا۔ بہت خوب! لیکن ریاستی دبدبے کے ہلکان ہونے کی قیمت پر۔ ”اپنے لوگ“ تو بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں بھی ہیں، ایسی فیاضی انکے نصیب میں کب آئی۔ بہرکیف پنجاب کے نوجوانوں نے، بلوچ اور پختون نوجوانوں کے شکوے کا جواب شکوہ دے دیا، بھلے اس واقعہ کو کیسے ہی ”وطن دشمنی“ سے تعبیر کیا جائے۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ انہیں بھٹو کے عدالتی قتل اور بے نظیر بھٹو کے سرعام قتل اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی کرنے والی عدلیہ سے واسطہ نہ پڑا۔ سیاسی اعتبار سے اور شہری حقوق کی پاسداری میں اگر عدلیہ کھل کر ایک سابق وزیراعظم کے دفاع میں سامنے آئی تو مجھ انسانی حقوق کے مبلغ کو اس پر کیوں اعتراض ہوگا۔ فقط 48 گھنٹوں میں عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ نے نہایت سرعت سے عمران خان کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ انتظامیہ کے لمبے ہاتھوں کو بے بس کردیا۔ ایسی پھرتی اور شہری کی سلامتی کیلئے انصاف کی سرعت رفتاری قابل تحسین ہے، جو کاش دیگر وزرائے اعظم اور عام شہریوں کے مقدر میں بھی لکھی جاتی۔

عمران خان نے اپنی رہائی کے بعد متشدد مظاہرین کی مذمت کی بجائے یہ کہا کہ انہوں نے اس بابت پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا اور اگر انہیں پھر گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو عوامی ردعمل پہلے سے مختلف نہیں ہوگا۔ جب جس کی پتلون بانس پہ لٹکادی گئی تھی، اسے ہیرو بنانے کی سوشل میڈیا پہ مہم چلی تو راولپنڈی کو وضاحت دینی پڑی کہ فوج اپنے سپہ سالار کی کمانڈ میں متحد ہے اور جمہوریت کی پاسبان بھی۔ لیکن عمران خان ہیں کہ اپنی بندوق کی شست اس سپہ سالار پہ تانے ہوئے ہیں، جو اپنے پیش رو کی سیاسی خجالت سے سیکھ کر سیاست میں اپنے پیشہ وارانہ ہاتھ گندے نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے میں اشتعال انگیزی خاص طور پر وہ جو بھگوڑے پنجابی انٹیلی جنس آفیسرز باہر بیٹھ کر پیدا کررہے ہیں وہ کھلی غداری ہے۔ دریں اثنا تحریک طالبان پاکستان نے تحریک انصاف کی حمایت میں مسلح جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔ اسے سختی سے دور نہ رکھا گیا تو تحریک انصاف کا انجام کیا ہوگا؟ یہ خاکی مفتی تصادم ملک کو کہاں سے کہاں لے جائے گا؟ سول وار یا پھر کچھ اور؟ عمران خان پاپولزم کی لہر پہ سوار ہوکر عوام کی منشا کو انصاف اور اخلاقیات سے جوڑتے ہیں اور تحریک انصاف کو پرانی سیاسی مقتدرہ کے توڑ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن انکی جمہوریت بس اتنی ہے جو انکی زوردار شخصیت کے بلا شرکت غیرے صوابدیدی اختیار و اقتدار کی محتاج رہے۔ جمہوریت میں تنوع ہے، مساوی انسانی حقوق و آزادیاں ہیں، اختلاف رائے ہے، آزادی اظہار ہے، شفافیت ہے، اجتناب ہے اور جوابدہی بھی ہے۔ ان صفات کے بنا انکی انصاف کی تحریک منصفانہ و جمہوری اوصاف سے محروم ہوگی جو کہ پاپولزم کی خصوصیات ہیں۔ اس بوسیدہ نظام کا متبادل، ایک شخصی فسطائی حکمرانی تونہیں ہوسکتی۔

14 مئی آج گزرگیا اور پنجاب میں انتخابات نہ ہو سکے جو آئینی سے زیادہ سیاسی ترجیحات کا مسئلہ تھا۔ عدالت عظمیٰ نے 4 اپریل کو پختونخوا کو بھولتے ہوئے پنجاب میں انتخابات کیلئے 14 مئی کی تاریخ کیا مقرر کی کہ حکومت اور قومی اسمبلی حکم عدولی پہ ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔ کل ایک طرف الیکشن کمشن آف پاکستان کی انتخابات کے حوالے سے تین رکنی بنچ کے سامنے درخواست کی سماعت ہونے جارہی ہے اور دوسری طرف پی ڈی ایم کی جماعتوں کے سپہ سالار حضرت مولانا فضل الرحمان نے تین رکنی بنچ کو دھمکاتے ہوئے سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ 90 روز میں انتخاب کروانے اور چیف جسٹس کے کلی اختیارات کو برقرار رکھنے کی ریڈ لائن کھینچ چکی ہے تو دوسری طرف حفظ ماتقدم کے طور پر توہین عدالت سے بچنے کیلئے پارلیمنٹ اور کابینہ کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے۔ گویا حکومت و پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سویلین آئینی اتھارٹیز کے مابین لڑائی میں ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش میں صرف آئینی و جمہوری نظام کے انہدام کا بندوبست کریں گی۔ انتخابی معاملات آئینی طور پر الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ اسکے اختیار کو چھیننے کی بجائے اسے مزید مضبوط کرتے ہوئے الیکشن کمشن کی قابل عمل تجاویز کو قبول کرلے۔ اگر ایسے ہوتا ہے تو عدلیہ حکومت سے تصادم میں بڑے سیاسی بحران کو مزید بگاڑنے سے بچ جائے گی اور اتحادی حکومت اور اس میں شامل جماعتیں عدلیہ پر حملے کے غیر آئینی جرم کے ارتکاب سے بچ جائیں گی۔ میری بطور مصالحت کار عزت مآب چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ الیکشن کمشن کی آئینی استدعا کو شرف قبولیت بخشیں اور اپنے ادارے کی حرمت اورپارلیمنٹ کے استحقاق کو محفوظ بنائیں۔ میری محترم و مکرم اپنے دوست مولانا فضل الرحمان سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے دھرنے کی کال کو واپس لے لیں۔ آئینی اداروں میں تصادم اور آئین سے انحراف سے نقصان صرف جمہوری سیاست اور آئینی حکمرانی ہی کا ہوتاہے۔

آئندہ ہفتے دو اور ریڈلائنوں کے تصادم میں کہیں لائنیں ہی نہ مٹ جائیں جن پر اتنی دھینگا مشتی ہورہی ہے؟

یہ بھی پڑھیے:

قضائے الٰہی اور انسانی گناہوں کی سزا۔۔۔امتیازعالم

بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم

امریکہ کی واپسی اور چین کے بدلتے تیور۔۔۔امتیازعالم

امتیاز عالم کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author