کچھ باتیں ایسی کہنے کے لئے نسل در نسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ تاریخ علم سیاسیات کی لیبارٹری ہے اور تاریخ سے نابلد لوگ اگر سیاست میں آ جائیں تو وہ نہ صرف سیاسی رویوں کو برباد کرتے ہیں بلکہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو خطرہ میں ڈال دیتے ہیں۔
میں اپنی ذات کے لیے عدالتی نظام کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آصف علی زرداری نے جج سے استدعا کی کہ ان کی تمام قبل از گرفتاری کی ضمانت ہائے بصیغہ واپسی خارج کر دی جائیں۔
عمران خان اور ان کے حامی جج بے وقوف، تاریخ سے نابلد اور عاقبت نا اندیش ہیں۔ عمران خان نے برطرفی کے بعد قومی اسمبلی میں موجود رہ کر پارلیمانی نظام کے لیے درکار آئینی ترامیم اور قانون سازی میں مدد دینے کی بجائے پارلیمانی نظام کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ کیا۔
جو جج عمران خان کی محبت میں گرفتار ہیں۔ وہ تو مارشل لا کے نفاذ یا کسی بھی غیر آئینی قدم کے اٹھائے جانے کے بعد نئے طاقتور باس کی نوکری کر لیں گے۔
مسئلہ جمہوریت پسند اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کا ہے کہ انھیں اگلے ایک عشرہ کسی بھی ایسے قدم کے نتیجہ میں قید و بند اور جیلوں کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نظام بنانے کے لئے پیپلز پارٹی نے 50 سال سے بہت زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں ہیں اور اپنے صحن میں قبرستان بنا رکھا ہے۔
عمران خان فین کلب کو غلط فہمی ہے۔ بھٹو ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ دلیر تھا اور اس کا فین کلب اس پر جان وارنے کے لئے تیار تھا۔ بھٹو نے قید اور موت اس لئے قبول کی کہ کمزور ہی سہی وہ جو آئینی پارلیمانی نظام کو قائم کر چکا ہے اس کا کوئی بھی ٹکڑا اگر بچ گیا تو ریاست پاکستان بچ رہے گی۔
انتہائی افسوس ہے کہ عمران خان نے ہر اچھی روایت کو نقصان پہنچایا ملک کا نقصان کیا اور پارلیمانی جمہوریت کو آج پھر ایک سنگین خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ