عثمان غازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کی سیاسی تاریخ کا اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں کہ اس شہر نے ماضی میں ہمیشہ جماعت اسلامی کو ووٹ دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کی طرح کراچی نے ہر دور میں جماعت اسلامی کو مسترد کیا ہے۔
کراچی میں جب 1979 کے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلزپارٹی کو اس شہر کے عوام نے واضح مینڈیٹ دیا جبکہ جماعت اسلامی رنراپ تھی، جب میئر کے انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے عبدالخالق اللہ والا امیدوار تھے، فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی جیالا کراچی کا امیدوار بنے تو بدترین دھاندلی کرکے جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کو کراچی پر میئر بنا کر مسلط کیا گیا، اس وقت کراچی کا ڈپٹی میئر ایک جیالا بنا جن کا نام عمر یوسف ڈیڈھا تھا۔
ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1983 میں دوسری بار بلدیاتی انتخابات ہوئے اور ڈکٹیٹر کی بھرپور سپورٹ کے باوجود جماعت اسلامی ایک بار پھر شکست سے دوچار ہوئی اور پاکستان پیپلزپارٹی شہرقائد میں بلدیاتی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تاہم ایک بار پھر جماعت اسلامی کی راہ ہموار کی گئی اور بدترین دھاندلی کرکے ایک بار پھر پاکستان پیپلزپارٹی کو ہروایا گیا، اس وقت پی پی پی کے میئر کے امیدوار عمر یوسف ڈیڈھا تھے جبکہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی ایماء پر ایک بار پھر جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کراچی کے میئر بنائے گئے۔
جماعت اسلامی کی کراچی میں اس قدر بری پرفارمنس دیکھ کر ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے ایم کیوایم کو لانچ کیا اور یہ تجربہ کامیاب رہا، 1987 میں قوم پرستی اور نسل پرستی کی بنیاد پر ایم کیوایم نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹیں اور اسلحے کے زور پر پاکستان پیپلزپارٹی کراچی کے جیالوں کا قتل عام کیا، یہ قتل عام 1996 تک منظم طریقے سے جاری رہا۔
ایم کیوایم نے 2001 کے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ایک بار پھر پاکستان پیپلزپارٹی کو کراچی کے عوام نے بھرپور مینڈیٹ دیا، اس وقت تاج حیدر پاکستان پیپلزپارٹی کے میئر کے امیدوار تھے مگر ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف یہ گوارا نہیں کرسکتا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا شہر کا میئر ایک جیالا ہو چناچہ کونسلرز کے ایک بڑے اتحاد کے سربراہ کو میئر کے انتخاب سے ایک رات پہلے اغوا کیا گیا اور اس کی وفاداری تبدیل کروائی گئی جبکہ بڑے پیمانے پر دیگر کو قیمتی تحائف بھی دئیے گئے اور نتیجہ عین توقع کے مطابق نکلا، پاکستان پیپلزپارٹی اکثریت کے باجود اپنا میئر نہ بناسکی اور جماعت اسلامی کا میئر نعمت اللہ خان کراچی پر مسلط کردیا گیا جس نے شہر قائد کی تباہی کی بنیاد رکھتے ہوئے کمرشلائزیشن کو فروغ دیا۔
کراچی کے اگلے دو بلدیاتی انتخابات 2004 اور 2015 میں ہوئے جن میں بالترتیب سید مصطفی کمال اور وسیم اختر ایم کیوایم کی نسل پرستانہ سیاست کے نتیجے میں میئر بنے، سید مصطفی کمال کے بقول ان کے دور میں کراچی میں جتنا ترقیاتی کام ہوا، اس کا بجٹ پاکستان پیپلزپارٹی نے دیا جبکہ انہی کے بقول پاکستان پیپلزپارٹی نے وسیم اختر کو جو ترقیاتی بجٹ دیا، وہ ایم کیوایم پاکستان کی کرپشن کی نذر ہوگیا اور آج یہ دونوں ایک پلیٹ فارم سے سیاست کررہے ہیں۔
کراچی میں حالیہ بلدیاتی انتخابات کا ایم کیوایم نے بائیکاٹ کیا، گزشتہ انتخابات میں ایم کیوایم کا نسل پرستانہ ووٹ پی ٹی آئی کو شفٹ ہوا تھا تاہم اس بار جماعت اسلامی کو نسل پرستی کا یہ ووٹ ملا تاہم اس کے باوجود جماعت اسلامی کراچی میں اکثریت حاصل نہ کرسکی اور پاکستان پیپلزپارٹی میئر بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے انہی روایتی حلقوں سے ووٹ ملا جہاں سے آج تک ملتا رہا ہے، پی پی پی کے ووٹ بینک میں کوئی نیا ایریا شامل نہیں ہوا تاہم پھر بھی پاکستان پیپلزپارٹی پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور الیکشن کمیشن کی انکوائری میں بھی جماعت اسلامی غلط ثابت ہوئی بلکہ الٹا جماعت اسلامی کی دھاندلی ثابت ہوگئی اور اسے اپنی چند جیتی ہوئی سیٹوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
جماعت اسلامی نے کراچی میں جب جب اپنا میئر بنایا، اس وقت ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی جبکہ اس دورِ آمریت میں بھی یہ لوگ آمریت کے سہارے دھاندلی سے اپنا میئر لاتے رہے، کراچی والوں نے جماعت اسلامی کو ہر دور میں اسی طرح مسترد کیا ہے کہ جس طرح آج کردیا ہے اور جب کراچی والوں نے آمریت کے بدترین ادوار میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو اکثریتی ووٹ دیا ہے تو آج جمہوری دور میں کراچی ایسا کیوں نہ کرتا!!
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ