نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاہ بلوط کے کٹے ہوئے پیڑ اور قومی بحران۔۔۔|| وجاہت مسعود

1857 کا آندولن 10 مئی کو میرٹھ سے شروع ہوا اور 1858 کے وسط میں گوالیار پر انگریزی فوج کے قبضے کے ساتھ ختم ہو گیا۔ تانتیا ٹوپے نے مگر ہتھیار نہیں ڈالے۔ گوالیار، جھانسی اور ادھم پور میں پے در پے ناکامیوں کے باوجود شمالی ہند کے جنگلوں میں لڑتا رہا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سطریں تحریر کرتے ہوئے اسلام آباد میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بنچ قومی انتخابات کے ایک ساتھ معاملے پر سماعت کر رہا ہے۔ کمرہ عدالت سے لمحہ بہ لمحہ خبروں کی لین ڈوری بندھی ہے۔ آج کی سماعت میں کسی نتیجہ خیز پیش رفت کا امکان نہیں۔ فریقین اپنی طاقت دکھانے کے لئے ایک آدھ قدم بڑھاتے ہیں مگر پھر میدان وغا کی گمبھیرتا دیکھتے ہوئے کندے تول تول کر رہ جاتے ہیں۔ ہم نے مشرف آمریت کے بعد جو راستہ اختیار کیا تھا، اس میں اتنے اندھے موڑ آئے اور دستور، قانون، سیاست اور معیشت کی ڈوریوں میں ایسی پیچیدہ گرہیں لگائی گئیں کہ اب کسی فوری اور اطمینان بخش سلجھاؤ کی توقع نہیں۔ ایک فریق دستور کے مطابق وسط اگست تک حکومت کا اختیار رکھتا ہے جبکہ فریق ثانی خود اپنے اعتراف کے مطابق ایک سابق سرکاری اہلکار کے کہنے پر دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر چکا ہے اور اب حریفوں سے متقاضی ہے کہ وفاق اور دو وفاقی اکائیوں میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے اپنی سیاست قربان کر دیں۔ ایک طرف الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ کو اپنی معروضات پیش کر رکھی ہیں، دوسری طرف لندن میں مقیم جولائی 2017 ءکے ستم رسیدہ نے 3 / 2 کے بنچ کی بجائے 4 / 3 کے فیصلے سے رجوع کا مطالبہ کیا ہے۔

اس داخلی بساط سے پرے آئی ایم ایف نام کا ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جس کے ہاتھ میں قومی معیشت کی رگ جاں ہے اور بجٹ سے پہلے دست گیری کی توقع ہر گزرتے دن کے ساتھ معدوم ہو رہی ہے۔ چوتھے کھونٹ پر وہ ہتھیار بند جتھے ہیں جو اگست 2021 میں ’غلامی کی زنجیریں ”توڑ کر ہماری زمین پر کسی نامعلوم دست شفقت کے سائے میں داخل ہوئے اور اب ہر روز ہمارے شہریوں اور جوانوں سے لہو کا تاوان وصول کر رہے ہیں۔ کالم نگار کی مجبوری ہے کہ ادارہ جنگ کے دفتر میں تشریف فرما صاحبان قلمی احتساب وقت مقررہ پر کالم پہنچنے کے منتظر ہیں۔ انہیں اس سے تعلق نہیں کہ خواجہ سعد رفیق کی خوش بیانی کن گھاٹیوں سے گزر رہی ہے، شاہ محمود قریشی کیا پینترے دکھا رہے ہیں اور قبائے انصاف کی نظر التفات کس زاویے پر جھکاؤ کی جھلک دیتی ہے۔ اس قضیے میں نیاز مند بھی آپ ہی کی طرح فریق غیر متعلق ہے اور اپنی دل آسائی کے لئے شیخ معرفت سعدی ؒسے رہنمائی لیتا ہے، ای ساربان آہستہ رو کارام جانم میرود (ساربان عزیز! آہستہ روی اختیار کر کہ تیرے محمل میں میرا آرام جاں محو سفر ہے۔ )

1857 کا آندولن 10 مئی کو میرٹھ سے شروع ہوا اور 1858 کے وسط میں گوالیار پر انگریزی فوج کے قبضے کے ساتھ ختم ہو گیا۔ تانتیا ٹوپے نے مگر ہتھیار نہیں ڈالے۔ گوالیار، جھانسی اور ادھم پور میں پے در پے ناکامیوں کے باوجود شمالی ہند کے جنگلوں میں لڑتا رہا۔ بالآخر 1859 کے ابتدائی مہینوں میں مہاراجہ جے پور کی مخبری پر گرفتار ہوا اور 18 اپریل 1859 کو پھانسی کے رسے پر جھول گیا، بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن۔ کسی نے حالت مفروری میں تانتیا ٹوپے سے سوال کیا کہ ہندوستان پر انگریز کی عمل داری بحال ہو چکی، اب تم کس امید پر لڑ رہے ہو۔ بہادر سپاہی نے جواب دیا۔ ’وہ تخت کی لڑائی تھی جو میں ہار گیا۔ یہ ہندوستان کی آتما کی لڑائی ہے، یہ لڑائی نہیں ہاروں گا‘ ۔ انصاف کی لڑائی کے اپنے دستور اور ضابطے ہوتے ہیں۔

چارلس ڈیگال 1940 میں فرانس پر نازی قبضے کے دوران درمیانے درجے کا فوجی افسر تھا لیکن اس نے مارشل پٹین کی طرح قابض فوج سے تعاون کی بجائے جلاوطن ہو کر لڑائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ بالآخر اگست 1944 میں پیرس آزاد کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ ڈیگال باوردی سپاہی تھا، جنگ اس کا پیشہ تھا لیکن فرانس میں سارتر اور آندرے مالرو جیسے دانشور بھی موجود تھے جنہوں نے فرانس کی زمین پر رہ کر مزاحمت کی تھی۔ ڈیگال نے آندرے مالرو کو آزاد فرانس میں وزیر اطلاعات مقرر کیا۔ یہ حکومت محض ایک برس چل سکی۔ 1958 کے بحران میں ڈیگال دوبارہ سیاسی منظر پر نمودار ہوا اور ایک نیا دستور تشکیل دے کر پانچویں ری پبلک کی بنیاد رکھی۔ اب آندرے مالرو کو وزیر ثقافت مقرر کیا گیا۔ مالرو اپریل 1969 میں ڈیگال کے مستعفی ہونے تک حکومت کا حصہ رہا۔ تھامس پین، ہیمنگ وے، فرانز فینون اور چے گویرا کی طرح آندرے مالرو بھی ان معنوں میں عالمی شہری تھا کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں انصاف اور آزادی کی لڑائی لڑنے پہنچ جاتا تھا۔ 20 ءکی دہائی میں چین اور 30 ءکی دہائی میں سپین کی لڑائیوں میں شریک رہا۔ شنگھائی میں اپریل 1927 میں چیانگ کائی شیک نے کمیونسٹوں کا قتل عام کیا تو مالرو اس وحشت کا عینی شاہد تھا اور اس نے 1933 میں ’انسان کا مقدر‘ کے نام سے اس المیے پر اپنا بہترین ناول تحریر کیا تھا۔

اسی عنوان سے شولوخوف نے بھی 1956 میں ایک کہانی لکھی تھی جس کا ترجمہ قرة العین حیدر نے کیا تھا مگر شولوخوف کا ادب آندرے مالرو سے بالکل مختلف رنگ رکھتا ہے۔ ڈیگال کا انتقال نومبر 1970 میں ہوا تھا۔ مالرو نے 1971 میں ڈیگال سے اپنے تعلق کی یادداشتوں کو ’کٹے ہوئے شاہ بلوط‘ کا عنوان دیا تھا۔ دونوں رہنماؤں میں آخری ملاقات دسمبر 1969 میں ہوئی تھی جس میں ڈیگال نے مالرو سے کہا۔ ’ہم یورپ کی موت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہم یورپ کی آخری نسل ہیں‘ ۔ شاید ہر نسل تاریخ کے کسی نقطے پر اس کیفیت سے گزرتی ہے۔ یورپ آج بھی زندہ ہے اور ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ تانتیا ٹوپے نے ہندوستان کی آتما کی لڑائی جیت لی تھی۔ ہم بھی ان دنوں پاکستان میں ایک عہد کو ختم ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن لکھنے والے کو کامل یقین ہے کہ پاکستان لمحہ موجود کی مشکلات سے گزر کر آزادی، مساوات، جمہوریت اور ترقی کی منزل تک ضرور پہنچے گا۔ آئین سے کھلواڑ، اداروں کی بے حرمتی، عوام کی محرومی اور معیشت کی بدحالی ہمارا مقسوم نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author