وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ قصہ ہے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے ساڑھے گیارہ سو برس پہلے کا۔یعنی اب سے لگ بھگ اکتیس صدیاں پہلے۔ مصر کا ریاستی نظامِ شمسی فراعنہ رعمیسس کے گرد گھوم رہا ہے۔اسے خدا کا درجہ حاصل ہے اور خدا بے بس نہیں ہو سکتا۔ یہ رعمیسس کی ذمے داری ہے کہ وہ سماج میں طبقاتی توازن برقرار رکھے ، داخلی و خارجی بحرانوں کو اپنی الوہی فراست سے ٹالے ، حکام پر آہنی گرفت رکھے۔ شاہی قوانین کی پاسداری کی راہ میں بدعنوانی ، تساہل یا ناانصافی ہرگز حائل نہ ہو تا کہ رعایا کا خدا صفت بادشاہ پر یقین متزلزل نہ ہو۔
سب بظاہر ٹھیک چل رہا ہے کہ ایک دن نوکر شاہی کو حکم ملا کہ تین برس بعد جب رعمیسس سوم کا اقتدار تیسری دہائی میں داخل ہو تو اس تاریخی موقع کو شایانِ شان منانے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔اس یادگار سال کی نشانی کے طور پر ایک عظیم الشان معبد کی تیاری کا حکم ملا اور ہزاروں کاریگر اور مزدور اس کی بروقت تکمیل کے کام میں جت گئے۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔اخراجات سرکاری آمدنی سے زیادہ ہوتے چلے گئے اور خسارے کا خمیازہ شاہی جشن کی تیاریوں کی ترجیح پر محنت کشوں کو بھگتنا پڑا۔ ماہانہ محنتانہ اور راشن کی تقسیم میں پہلے مہینے چند دنوں کی تاخیر ہوئی ، پھر تاخیر ہفتوں میں تبدیل ہوئی اور تیسرے مہینے میں حکام نے مزدوروں کو بتایا کہ گزشتہ مہینے کا محنتانہ اگلے مہینے سے پہلے نہیں مل سکتا۔جب بے چینی بڑھنے لگی تو حکام نے بطور پیش بندی کارکنوں میں غلے کی رسد کسی نہ کسی طور تقسیم کر دی، مگر یہ عارضی حل تھا۔ اصل معاملہ یوں تھا کہ تیس سالہ جشن کے لیے مختص بجٹ میں جو رقم کاریگروں اور محنت کشوں کے معاوضے کی مد میں مختص کی گئی تھی۔اس کا ایک حصہ جشن کے منتظم افسروں نے ملی بھگت سے غتربود کر لیا۔اب اگر یہ خبر محل تک پہنچ جاتی تو گردنیں اڑ سکتی تھیں، لہٰذا نچلی بیورو کریسی کاریگروں اور مزدوروں کی بے چینی قابو میں رکھنے کے لیے بقول شخصے لولی پاپ دیتی رہی۔خوراک تو کسی نہ کسی طور بٹتی رہی مگر معاوضہ کب ملے گا اور جو بقایا جات جمع ہوتے جا رہے ہیں ان کا کیا ہو گا۔ اس کا حتمی جواب کسی افسر کے پاس نہیں تھا۔
تنگ آمد بجنگ آمد ایک دن ( چودہ نومبر گیارہ سو انسٹھ قبلِ مسیح ) دیر المدینہ کے علاقے میں معبد تعمیر کرنے والے کاریگروں اور کارکنوں نے اوزار زمین پر رکھ دیے اور احتجاجی جلوس دارالحکومت تھیبس کی جانب ” ہم بھوکے ہیں ہم برباد ہیں “ کے نعرے لگاتا چل پڑا اور آنجہانی فراعنہ ٹیوٹمس سوم کے مقبرے کے باہر دھرنا دے دیا۔ حکام کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا کہ بادشاہ کے کسی منصوبے سے رعیت کا کوئی طبقہ اس طرح حکم عدولی کرے۔پہلی بار کسی طبقے نے طے شدہ سماجی دائرہ اس دیدہ دلیری سے توڑا۔حکام کو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ اس ناگہانی سے کیسے نمٹا جائے۔ بدحواسی میں حکام نے فوری طور پر مٹھائیاں منگوا کے بانٹنا شروع کر دیں تا کہ بھوکے مزدوروں کی کچھ نہ کچھ تشفی ہو سکے اور پھر وہ بات سننے پر آمادہ ہو سکیں۔ اگلے دن کاریگروں اور مزدوروں کا یہ جتھہ شاہی گودام کے دروازے پر جمع ہو گیا۔ کچھ لوگ دیوار پھاند کے اندر داخل ہو گئے اور ” تنخواہ ابھی اور اسی وقت “ کا مطالبہ کرتے رہے۔
حکام نے گھبرا کے کوتوال مونٹیمس کو مدد کے لیے طلب کیا۔مونٹیمس کمک لے کے پہنچا اور مزدوروں کو واپس کام پر جانے کا حکم دیا۔ کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مونٹیمس نے معبد کے پروہت اور متعلقہ افسروں سے کہا کہ ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کوئی ریاستی ضابطہ ، مثال یا قانون نہیں ہے۔ لہٰذا آپ ہی نپٹیں۔مزدور رہنماﺅں اور مندر کی انتظامیہ کے درمیان تفصیلی مذاکرات کے نتیجے میں رواں مہینے کی تنخواہ معہ واجبات ایک ہفتے کے اندر ادائیگی کا سمجھوتہ ہو گیا اور محنت کش کام پر لوٹ گئے۔ اگلے ماہ پھر بحران سر پر آگیا۔ اس بار مزدوروں نے وادیِ شاہان ”ویلی آف کنگز “ جانے والے راستوں پر دھرنا دے دیا۔ تاکہ شاہی مقبروں تک پروہت یا مرنے والوں کے ورثا اظہارِ عقیدت کے لیے نہ پہنچ پائیں اور انھیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے۔ جب حکام نے طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دی تو چند مزدوروں نے جوابی دھمکی دی کہ وہ مقبروں کی توڑ پھوڑ سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔چنانچہ سرکاری عمال کو ایک بار پھر پیچھے ہٹنا پڑا۔
یوں یہ ٓنکھ مچولی اگلے تین برس تک چلتی رہی۔ حکام کو جلدی تھی کہ جشن تیس سالہ کے منصوبوں میں کوئی ایسا رخنہ نہ پڑے جس کی سن گن بادشاہ کو ہو جائے۔ کارکنوں کو پہلی بار احساس ہوا کہ ہڑتال کی اجتماعی طاقت سے وہ اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں اور مطالبات پورا کرنے میں ناکامی سے رعایا میں یہ پیغام جائے گا کہ خدائی طاقت رکھنے والا بادشاہ ہر شے پر قادر نہیں۔ اس سے تو اپنی نوکرشاہی نہیں سنبھل رہی۔نوکر شاہی کو یہ خوف تھا کہ اگر بادشاہ کی طاقت و ناطاقتی پر رعایا کی طرف سے کوئی سوال اٹھتا ہے تو پھر بادشاہ سب سے پہلے ہماری ہی کھال کھنچوائے گا۔خدا خدا کر کے شاہی جوبلی کے انتظامات کسی نہ کسی طور مکمل ہوئے اور گیارہ سو چھپن قبلِ مسیح میں کئی ماہ پر پھیلی تقریبات شاندار انداز میں منائی گئیں۔ لوگ وقتی طور پر روزمرہ کے مسائل بھول بھال کے ناچ گانے اور ناﺅ نوش میں لگ گئے۔ اگرچہ جشن کے بعد کے مہینوں میں تنخواہوں کا بحران کسی نہ کسی طور حل کر لیا گیا مگر سرکار اور مزدوروں کے تعلقات میں پہلے والی بے ساختہ گرم جوشی جاتی رہی اور بھروسے کی کمی نے نفسیات میں گھر کر لیا۔ اب تک یہ تصور تھا کہ رعایا کی دیکھ بھال اور تکالیف رفع کرنے کی ذمے داری کلی طور پر بادشاہ کی ہے۔مگر اس تجربے نے یہ آشکار کیا کہ رعایا کو یہ شاہی اختیار خود بھی مجبوراً استعمال کرنا پڑ سکتا ہے۔
جن کاریگروں اور مزدوروں نے ہڑتال میں حصہ لیا انھیں اس دور میں سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والا طبقہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر ریاست ان مراعات یافتہ محنت کشوں کی دیکھ بھال نہیں کر پائی تو پھر دیگر مزدور طبقات کا خیال کیسے رکھ پائے گی۔ چنانچہ وہ تحریک جو تنخواہوں کے بحران سے شروع ہوئی رفتہ رفتہ اس نے حکمرانی کے گرتے ہوئے معیار اور کرپشن کے بارے میں سوالات اٹھانے شروع کر دیے۔رعمیسس سوم کی حکومت کے سرکاری ریکارڈ میں ان ہڑتالوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔اس کا سراغ دیر المدینہ میں دریافت ہونے والے پاپائرس پر لکھی ایک تحریر سے ملا۔امکان ہے کہ یہ تحریر امیناخت نامی کاریگر کی ہے جو خود بھی مزدور تحریک میں آگے آگے تھا۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر